Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 28
- SuraName
- تفسیر سورۂ قصص
- SegmentID
- 1116
- SegmentHeader
- AyatText
- {15 ـ 17} {ودخل المدينة على حين غفلة من أهلها}: إما وقت القائلة أو غير ذلك من الأوقات التي بها يغفلون عن الانتشار، {فوجَدَ فيها رجلينِ يقتتلانِ}: [أي] يتخاصمانِ ويتضاربانِ. {هذا من شيعتِهِ}؛ أي: من بني إسرائيل، {وهذا من عدوِّه}: القبط، {فاستغاثه الذي من شيعتِهِ على الذي من عدوِّهِ}: لأنَّه قد اشتهر وعَلِمَ الناسُ أنَّه من بني إسرائيل، واستغاثتُهُ لموسى دليلٌ على أنه بَلَغَ موسى عليه السلام مبلغاً يُخافُ منه ويُرجى من بيت المملكة والسلطان. {فوَكَزَهُ موسى}؛ أي: وكز الذي من عدوِّه استجابةً لاستغاثة الإسرائيليِّ، {فقضى عليه}؛ أي: أماته من تلك الوكزةِ لشدَّتِها وقوَّة موسى. فندم موسى عليه السلام على ما جرى منه، و {قال هذا من عمل الشَّيطانِ}؛ أي: من تزيينه ووسوسته. {إنَّه عَدُوٌّ مضلٌّ مبينٌ}: فلذلك أجريتُ ما أجريتُ بسبب عداوتِهِ البيِّنة وحرصه على الإضلال. ثم استغفر ربَّه، فَـ {قَال ربِّ إنِّي ظلمتُ نفسي فاغْفِرْ لي فَغَفَرَ له إنَّه هو الغفورُ الرحيم}: خصوصاً للمُخْبِتينَ إليه، المبادِرين للإنابةِ والتوبةِ؛ كما جرى من موسى عليه السلام، فَـ {قَالَ} موسى: {ربِّ بما أنْعَمْتَ عليَّ}: بالتوبة والمغفرةِ والنعم الكثيرة، {فلنْ أكونَ ظهيراً}؛ أي: مُعيناً ومساعداً {للمجرِمين}؛ أي: لا أعين أحداً على معصيةٍ. وهذا وعدٌ من موسى عليه السلام بسبب مِنَّةِ الله عليه أنْ لا يُعينَ مجرماً كما فعل في قَتْل القبطيِّ، وهذا يفيدُ أنَّ النعم تقتضي من العبدِ فعل الخير وترك الشَّرِّ.
- AyatMeaning
- [17-15] ﴿ وَدَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا ﴾ ’’اور وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے کہ وہاں کے باشندے سو رہے تھے۔‘‘ یہ وقت یا تو قیلولہ کا وقت تھا یا کوئی ایسا وقت تھا کہ جب لوگ آرام کرتے ہیں ۔ ﴿ فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْ٘نِ یَقْتَتِلٰنِ﴾ پس انھوں نے دو آدمیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑتے ہوئے پایا‘‘ وہ دونوں ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔ ﴿ هٰؔذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ ﴾ ’’ایک تو ان کی قوم سے تھا۔‘‘ یعنی بنی اسرائیل میں سے ﴿ وَهٰؔذَا مِنْ عَدُوِّهٖ﴾ ’’دوسرا ان کے دشمنوں میں سے تھا۔‘‘ مثلاً: قبطی وغیرہ۔ ﴿ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖ﴾ ’’پس جو شخص ان کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو ان کے دشمنوں میں سے تھا موسیٰu سے مدد طلب کی۔‘‘ کیونکہ موسیٰu کا نسب اب مشہور ہو چکا تھا اور لوگوں کو علم تھا کہ موسیٰu بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ موسیٰu سے اس شخص کا مدد کا خواستگار ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ آپ دارالسلطنت میں ایک نہایت اہم منصب پر فائز تھے جس سے لوگ خوف کھاتے تھے اور اس سے اپنی امیدیں بھی وابستہ رکھتے تھے۔ ﴿ فَوَؔكَزَهٗ مُوْسٰؔى ﴾ موسیٰu نے اسرائیلی کی مدد کرنے کے لیے اس دشمن شخص کو گھونسا رسید کیا ﴿ فَ٘قَ٘ضٰى عَلَیْهِ﴾ پس حضرت موسیٰu کی قوت اور گھونسے کی شدت نے اس قبطی کا کام تمام کر دیا۔ اس پر آپ کو سخت ندامت ہوئی۔ آپ نے تاسف سے کہا: ﴿ هٰؔذَا مِنْ عَمَلِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ﴾ ’’یہ شیطان کا عمل ہے۔‘‘ یعنی شیطان نے وسوسہ ڈالا اور اس برائی کو مزین کر دیا۔ ﴿ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’بے شک وہ دشمن اور صریح بہکانے والا ہے۔‘‘ اسی لیے اس کی کھلی عداوت اور بندوں کو گمراہ کرنے کی حرص کے سبب سے یہ حادثہ پیش آیا۔ پھر موسیٰu نے رب سے بخشش طلب کرتے ہوئے عرض کیا ﴿ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْ٘فِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’اے میرے رب! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے، پس اللہ نے اسے بخش دیا، بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ خاص طور پر جو اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور فروتنی کرتے ہیں اور توبہ و انابت کے ساتھ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت موسیٰu سے قتل ہوا اور آپ نے فوراً استغفار کر لیا۔ ﴿ قَالَ ﴾ موسیٰu نے عرض کیا: ﴿ رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ ﴾ ’’اے رب! بہ سبب اس کے جو تونے مجھ پر انعام کیا۔‘‘ تو نے مجھے قبول توبہ، مغفرت اور بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ﴿ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا﴾ تو میں ہرگز مددگار نہیں ہوں گا ﴿ لِّلْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’گناہ گاروں کا‘‘ یعنی معاصی میں کسی کی مدد نہیں کروں گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت و احسان کے سبب سے موسیٰu کی طرف سے وعدہ ہے کہ وہ کسی مجرم کی مدد نہیں کریں گے جیسا کہ وہ قبطی کے قتل کے سلسلے میں کر چکے ہیں ۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بندے سے نیکی کرنے اور برائی ترک کرنے کا تقاضا کرتی ہیں ۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [17-
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF