Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
27
SuraName
تفسیر سورۂ نمل
SegmentID
1096
SegmentHeader
AyatText
{38 ـ 40} وعلم سليمانُ أنَّهم لا بدَّ أن يسيروا إليه، فقال لمن حَضَرَه من الجنِّ والإنس: {أيُّكم يأتيني بعرشِها قبلَ أن يأتوني مسلمينَ}؛ أي: لأجل أن نتصرَّف فيه قبل أن يُسْلِموا فتكونَ أموالُهم محترمةً، {قال عفريتٌ من الجنِّ}: والعفريتُ هو القويُّ النشيطُ جدًّا، {أنا آتيكَ به قبلَ أن تقومَ من مقامِكَ وإنِّي عليه لقويٌّ أمينٌ}: والظاهر أن سليمان إذ ذاك في الشام، فيكون بينَه وبين سبأ نحو مسيرة أربعة أشهر؛ شهرانِ ذهاباً وشهران إياباً، ومع ذلك يقولُ هذا العفريت: أنا ألتزِمُ بالمجيء به على كبرِهِ وثقلِهِ وبُعْدِه قبل أن تقومَ من مجلسِكَ الذي أنت فيه، والمعتادُ من المجالس الطويلة أن تكونَ معظمَ الضُّحى نحو ثُلُثِ يوم، هذا نهايةُ المعتاد، وقد يكونُ دونَ ذلك أو أكثر، وهذا المَلِكُ العظيم الذي عند آحادِ رعيَّتِهِ هذه القوَّة والقدرةُ. وأبلغُ من ذلك أنْ {قال الذي عندَه علمٌ من الكتابِ}: قال المفسِّرون: هو رجلٌ عالمٌ صالحٌ عند سليمان، يُقالُ له: آصف بن برخيا، كان يعرفُ اسم الله الأعظم، الذي إذا دُعي به؛ أجابَ، وإذا سُئِل به أعطى: {أنا آتيكَ به قبلَ أنْ يَرْتَدَّ إليك طرفُك}: بأن يدعوَ الله بذلك الاسم، فيحضرَ حالاً، وأنَّه دعا الله، فحضر. فالله أعلم؛ هل هذا المرادُ، أم أنَّ عندَه علماً من الكتاب يقتدِرُ به على جلب البعيدِ وتحصيل الشديد؟! {فلمَّا رآهُ} سليمان {مستقرًّا عنده}: حمد الله تعالى على أقدارِهِ وملكِهِ وتيسيرِ الأمور له، و {قال هذا مِن فضل ربِّي لِيَبْلُوَني أأشكُرُ أمْ أكفُرُ}؛ أي: ليختبِرَني بذلك، فلم يغترَّ عليه السلام بِمُلْكِهِ وسلطانِهِ وقدرتِهِ كما هو دأبُ الملوك الجاهلين، بل علم أنَّ ذلك اختبارٌ من ربِّه، فخاف أنْ لا يقومَ بشكرِ هذه النعمة، ثم بيَّنَ أنَّ هذا الشكر لا ينتفعُ الله به، وإنَّما يرجِعُ نفعُه إلى صاحبه، فقال: {ومَن شَكَرَ فإنَّما يشكُرُ لنفسه ومَن كَفَرَ فإنَّ ربِّي غنيٌّ كريم}: غنيٌّ عن أعماله، كريمٌ كثير الخير، يعمُّ به الشاكر والكافر؛ إلاَّ أنَّ شكر نعمِهِ داعٍ للمزيد منها، وكفرَها داعٍ لزوالِها.
AyatMeaning
[40-38] حضرت سلیمانu کو علم تھا کہ وہ ضرور ان کی طرف آئیں گے اس لیے انھوں نے اپنی مجلس میں موجود جنوں اور انسانوں سے کہا: ﴿ اَیُّكُمْ یَ٘اْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’کوئی تم میں ایسا ہے کہ قبل اس کے کہ وہ مطیع ہو کر ہمارے پاس آئیں ، اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لے آئے۔‘‘ تاکہ ان کے مسلمان ہونے سے پہلے پہلے ہم ان کے تخت میں تصرف کر سکیں کیونکہ ان کے مسلمان ہونے کے بعد ان کے اموال حرام ہو جائیں گے۔(لیکن فاضل مفسر کی یہ توجیہ صحیح نہیں ۔ اس کی وجہ تو یہی معلوم ہوتی کہ ملکہ کے تخت میں تصرف کرنے سے اس کی ذہانت و فطانت کا جو صاحب اقتدار کے لیے ضروری ہے، امتحان لینا مقصود تھا، جیسا کہ آگے آیت ﴿ نَؔكِّ٘رُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُ٘رْ اَتَهْتَدِیْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَهْتَدُوْنَ﴾ سے واضح ہے۔ (ص۔ي) ﴿ قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ ﴾ ’’جنات میں سے ’’عفریت‘‘ نے کہا۔‘‘ عفریت سے مراد وہ (جن وغیرہ) ہے جو نہایت طاقتور اور چست ہو۔ ﴿ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ١ۚ وَاِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ ﴾ ’’قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس لاحاضر کرتا ہوں ۔ میں اس کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں ۔‘‘ ظاہر ہے اس وقت سلیمانu شام کے علاقے میں تھے ان کے درمیان اور قوم سبا کے علاقے کے درمیان تقریباً چار ماہ کی مسافت تھی… دو ماہ جانے کے لیے اور دو ماہ واپس لوٹنے کے لیے۔ بایں ہمہ اس عفریت نے کہا کہ اس تخت کے بڑا اور بھاری ہونے اور فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود وہ اسے لانے کا التزام کرتا ہے اور حضرت سلیمانu کے اس مجلس سے کھڑا ہونے سے پہلے پہلے وہ اسے لا کر پیش کر دے گا۔ اس قسم کی طویل مجالس کی عادت یہ ہوتی ہے کہ یہ زیادہ تر چاشت کے وقت تک رہتی ہیں یعنی یہ مجالس دن کے تیسرے حصے تک جاری رہتی ہیں یہ عام معمول کے وقت کی انتہاء ہے تاہم اس وقت میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ اس عظیم بادشاہ کی رعیت میں ایسے افراد موجود تھے جن کے پاس اتنی قوت اور قدرت تھی اور اس سے بھی بڑھ کر ﴿ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ﴾ ’’وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا بولا … ‘‘ مفسرین کہتے ہیں کہ وہ ایک عالم فاضل اور صالح شخص تھا جو حضرت سلیمانu کی خدمت میں رہتا تھا اسے ’’آصف بن برخیا‘‘ کہا جاتا تھا اس کے پاس ’’اسم اعظم‘‘ کا علم تھا جس کے ذریعے سے جو دعا مانگی جائے اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور جو سوال کیا جائے اللہ عطا کرتا ہے … ﴿ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ﴾ ’’میں آپ کی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کیے دیتا ہوں ۔‘‘ یعنی وہ اس ’’اسم اعظم‘‘ کے واسطے سے دعا مانگے گا اور تخت اسی وقت حاضر ہو جائے گا چنانچہ اس نے دعا مانگی اور ملکۂ سبا کا تخت فوراً حاضر ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے یہی مراد ہے جو ہم نے بیان کیا ہے یا اس کے پاس کتاب کا کوئی ایسا علم تھا جس کی بنا پر وہ دور کی چیز کو اور مشکل امور کو حاصل کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔ ﴿فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ﴾ ’’پس جب انھوں نے اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا۔‘‘ تو حضرت سلیمانu نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی کہ اس نے آپ کو قدرت اور اقتدار عطا کیا اور تمام امور کو آپ کے لیے آسان کر دیا۔ ﴿ قَالَ هٰؔذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ١ۖ ۫ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ﴾ ’’کہا، کہ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے، کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں ۔‘‘ یعنی وہ مجھے اس کے ذریعے سے آزمائے، چنانچہ سلیمانu نے اپنے اقتدار، سلطنت اور طاقت سے … جیسا کہ جاہل ملوک وسلاطین کی عادت ہے … کبھی فریب نہیں کھایا۔ بلکہ آپ کو علم تھا کہ یہ قوت واقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ وہ خائف رہتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا نہ کر سکیں ، پھر واضح کر دیا کہ شکر کا اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اس کا فائدہ شکر کرنے والے ہی کی طرف لوٹتا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ ﴾ ’’اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے نیاز، کرم کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ اس کے اعمال سے بے نیاز ہے، وہ کریم ہے بے پایاں بھلائی کا مالک ہے اس کی بھلائی شکر گزار اور ناشکرے سب کو شامل ہے، البتہ جو کوئی اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو وہ مزید نعمتوں کا مستحق بنتا ہے اور جو کوئی اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے وہ ان کے زوال کا باعث بنتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[40-
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List