Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
27
SuraName
تفسیر سورۂ نمل
SegmentID
1096
SegmentHeader
AyatText
{20} ثم ذَكَرَ نموذجاً آخر من مخاطبته للطير، فقال: {وتفقَّدَ الطيرَ}: دلَّ هذا على كمال عزمِهِ وحزمِهِ وحسن تنظيمِهِ لجنودِهِ وتدبيرِهِ بنفسه للأمور الصغار والكبار، حتى إنَّه لم يُهْمِلْ هذا الأمر، وهو تفقُّد الطيور، والنظرُ هل هي موجودةٌ كلُّها أم مفقودٌ منها شيء؟ وهذا هو المعنى للآية. ولم يصنع شيئاً مَنْ قال: إنَّه تفقَّد الطير لينظرَ أين الهدهد منه ليدلَّه على بعدِ الماء وقربِهِ؛ كما زعموا عن الهدهد أنَّه يبصِرُ الماء تحت الأرض الكثيفة؛ فإنَّ هذا القول لا يدلُّ عليه دليلٌ، بل الدليلُ العقليُّ واللفظيُّ دالٌّ على بطلانِهِ: أما العقليُّ؛ فإنَّه قد عُرِفَ بالعادة والتجارب والمشاهدات أنَّ هذه الحيوانات كلَّها ليس منها شيءٌ يبصر هذا البصرَ الخارقَ للعادة وينظر الماءَ تحت الأرض الكثيفة، ولو كان كذلك؛ لَذَكَرَهُ الله؛ لأنَّه من أكبر الآيات. وأما الدليلُ اللفظيُّ؛ فلو أريد هذا المعنى؛ لقال: وطلب الهدهدَ لينظر له الماء، فلمَّا فقده؛ قال ما قال، أو: فَفَتَّش عن الهدهد، أو: بحث عنه. ونحو ذلك من العبارات. وإنَّما تفقَّد الطيرَ لينظرَ الحاضر منها والغائبَ ولزومَها للمراكز والمواضع التي عيَّنها لها. وأيضاً؛ فإنَّ سليمان عليه السلام لا يحتاج ولا يضطرُّ إلى الماء بحيث يحتاج لهندسةِ الهدهدِ؛ فإنَّ عنده من الشياطين والعفاريت ما يحفرون له الماء، ولو بلغ في العمق ما بلغ، وسخَّر الله له الريح غُدُوُّها شهرٌ ورَواحها شهرٌ؛ فكيف مع ذلك يحتاجُ إلى الهدهد؟! وهذه التفاسير التي توجد وتشتهر بها أقوالٌ لا يُعْرَفُ غيرُها تَنْقِلُ هذه الأقوال عن بني إسرائيل مجرَّدة، ويغفل الناقل عن مناقضتها للمعاني الصحيحة وتطبيقِها على الأقوال، ثم لا تزال تَتَناقل وينقُلُها المتأخِّر مسلِّماً للمتقدِّم، حتى يُظَنَّ أنَّها الحقُّ، فيقع من الأقوال الرديَّة في التفاسير ما يقعُ، واللبيبُ الفطنُ يعرِف أنَّ هذا القرآن الكريم العربيَّ المبينَ الذي خاطب الله به الخلقَ كلَّهم عالمهم وجاهلهم وأمَرَهم بالتفكُّر في معانيه وتطبيقها على ألفاظه العربيَّة المعروفة المعاني التي لا تجهلُها العربُ العرباءُ، وإذا وَجَدَ أقوالاً منقولة عن غير رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، رَدَّها إلى هذا الأصل؛ فإن وافقه؛ قبلها؛ لكون اللفظ دالًّا عليها، وإنْ خالفتْه لفظاً ومعنىً أو لفظاً أو معنىً؛ ردَّها وجزم ببطلانِها؛ لأنَّ عنده أصلاً معلوماً مناقضاً لها، وهو ما يعرفه من معنى الكلام ودلالته. والشاهدُ أنَّ تفقُّدَ سليمان عليه السلام للطير وفَقْدَهُ الهدهدَ يدلُّ على كمال حزمِهِ وتدبيرِهِ للمُلك بنفسه وكمال فطنتِهِ، حتى فَقَدَ هذا الطائر الصغير، {فقال ما لي لا أرى الهُدْهُدَ أم كان من الغائبين}؛ أي: هل عدم رؤيتي إيَّاه لقلَّة فطنتي به لكونه خفيًّا بين هذه الأمم الكثيرة؟ أم على بابها بأن كان غائباً من غير إذني ولا أمري؟!
AyatMeaning
[20] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ساتھ سلیمانu کے مخاطب ہونے کا ایک اور نمونہ ذکر کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ ﴾ ’’اور انھوں نے پرندوں کا جائزہ لیا۔‘‘ یہ چیز آپ کے کامل عزم و حزم، آپ کی افواج کی بہترین تنظیم اور چھوٹے بڑے معاملات میں آپ کی بہترین تدبیر پر دلالت کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے پرندوں کو بھی مہمل نہیں چھوڑا بلکہ آپ نے ان کا بغور معائنہ کیا کہ تمام پرندے حاضر ہیں یا ان میں سے کوئی مفقود ہے؟ یہ ہے آیت کریمہ کا معنی۔ ان مفسرین کا یہ قول صحیح نہیں کہ سلیمانu نے پرندوں کا معائنہ اس لیے کیا تھا تاکہ وہ ہدہد کو تلاش کریں کہ وہ کہاں ہے؟ جو ان کی رہنمائی کرے کہ آیا پانی قریب ہے یا دور ہے۔ جیسا کہ ہد ہد کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہے۔ ان کے اس قول پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقلی اور لفظی دلیل اس کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ عادت، تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے یہ بات معلوم ہے کہ تمام حیوانات میں کوئی حیوان ایسا نہیں جو خرق عادت کے طور پر زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ضرور کرتا کیونکہ یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔ رہی لفظی دلیل تو اگر یہی معنی مراد ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ’’سلیمان نے ہدہد کو طلب کیا تاکہ وہ ان کے لیے پانی تلاش کرے جب انھوں نے ہدہد کو موجود نہ پایا تو انھوں نے کہا جو کہا…‘‘ یا عبارت اس طرح ہوتی ’’سلیمان نے ہدہد کے بارے میں تفتیش کی یا ’’ہدہد کے بارے میں تحقیق کی‘‘ اور اس قسم کی دیگر عبارات۔ انھوں نے تو پرندوں کا صرف اس لیے جائزہ لیا تھا تاکہ وہ معلوم کریں کہ ان میں سے کون حاضر اور کون غیر حاضر ہے اور ان میں سے کون اپنے اپنے مقام پر موجود ہے جہاں اس کو متعین کیا گیا تھا۔ نیز حضرت سلیمانu پانی کے محتاج نہ تھے کہ انھیں ہدہد کے علم ہندسہ کی ضرورت پڑتی، اس لیے کہ آپ کے پاس جن اور بڑے بڑے عفریت تھے جو پانی کو خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہوتا زمین کھود کر نکال لاتے … اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا تھا وہ صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی ان تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے وہ ہدہد کے کیسے محتاج ہو سکتے تھے۔ یہ تفاسیر جو شہرت پا چکی ہیں اور ان کے سوا کوئی تفسیر معروف ہے نہ پائی جاتی ہے۔ سب مجرد اسرائیلی روایات ہیں اور ان کے ناقلین صحیح معانی سے ان کے تناقض اور صحیح اقوال کے ساتھ پر ان کی تطبیق سے بے خبر ہیں ، پھر یہ تفاسیر نقل ہوتی چلی آئیں متاخرین متقدمین کے اعتماد پر ان کو نقل کرتے رہے حتیٰ کہ ان کے حق ہونے کا یقین آنے لگا۔ پس تفسیر میں ردی اقوال اسی طرح جگہ پاتے ہیں ۔ ایک عقل مند اور ذہین شخص خوب جانتاہے کہ یہ قرآن کریم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عالم و جاہل تمام مخلوق کو خطاب کیا ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے معانی میں غوروفکر کریں اور ان کو معروف عربی الفاظ کے ساتھ جن کے معانی معروف ہیں تطبیق دینے کی کوشش کریں ۔ جن سے اہل عرب ناواقف نہیں ۔ اگر کچھ تفسیری اقوال رسول اللہ e کے علاوہ کسی اور سے منقول ہیں تو ان کو اس اصل پر پرکھنا چاہیے۔ اگر وہ اس اصل کے مطابق ہیں تو ان کو قبول کر لیا جائے کیونکہ الفاظ معانی پر دلالت کرتے ہیں ۔ اگر یہ اقوال لفظ اور معنی کی مخالفت کرتے ہیں یا وہ لفظ یا معنی میں سے ایک کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو رد کر دے اور ان کے بطلان کا یقین کرے کیونکہ اس کے پاس ایک مسلمہ اصول ہے اور یہ تفسیری اقوال اس اصول کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ اصول ہمیں کلام کے معنی اور اس کی دلالت کے ذریعے سے معلوم ہے۔اور محل استشہاد یہ ہے کہ حضرت سلیمانu کا پرندوں کا معائنہ کرنا اور ہدہد کو مفقود پانا ان کے کمال حزم و احتیاط، تدبیر سلطنت میں ذاتی عمل دخل اور ان کی ذہانت وفطانت پر دلالت کرتا ہے، یہاں تک کہ ہدہد جیسے چھوٹے سے پرندے کو مفقود پایا تو فرمایا: ﴿ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآىِٕبِیْنَ۠﴾ ’’کیا وجہ ہے کہ ہدہد نظر نہیں آتا، کیا کہیں غائب ہو گیا؟‘‘ ہے۔ کیا ہدہد کا نظر نہ آنا میری قلت فطانت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ مخلوق کے بے شمار گروہوں میں چھپا ہوا ہے؟ یا میری بات برمحل ہے کہ وہ میری اجازت اور حکم کے بغیر غیر حاضر ہے؟
Vocabulary
AyatSummary
[20]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List