Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
27
SuraName
تفسیر سورۂ نمل
SegmentID
1096
SegmentHeader
AyatText
{19} فسمع سليمانُ عليه الصلاة والسلامُ قولَها وفَهِمَهُ، {فتبسَّمَ ضاحكاً من قولِها}: إعجاباً منه بفصاحتها ونُصحها وحسن تعبيرها، وهذا حال الأنبياء عليهم الصلاة والسلام؛ الأدبُ الكاملُ، والتعجُّب في موضعه، وأنْ لا يبلغَ بهم الضَّحِك إلاَّ إلى التبسُّم؛ كما كان الرسول - صلى الله عليه وسلم - جُلُّ ضَحِكِهِ التبسُّمُ؛ فإنَّ القهقهةَ تدلُّ على خفة العقل وسوء الأدب، وعدم التبسُّم والعجب مما يُتَعَجَّب منه يدلُّ على شراسةِ الخلق والجبروت، والرسل منزَّهون عن ذلك. وقال شاكراً لله الذي أوصله إلى هذه الحال: {ربِّ أوْزِعْني}؛ أي: ألهمني ووفقني {أنْ أشكُرَ نعمتَكَ التي أنعمتَ عليَّ وعلى والديَّ}: فإنَّ النعمةَ على الوالدين نعمةٌ على الولد، فسأل ربَّه التوفيق للقيام بشكر نعمتِهِ الدينيَّة والدنيويَّة عليه وعلى والديه، {وأنْ أعملَ صالحاً ترضاه}؛ أي: ووفِّقْني أن أعمل صالحاً ترضاه؛ لكونه موافقاً لأمرك مخلصاً فيه سالماً من المفسدات والمنقصات، {وأدخلني برحمتِكَ}: التي منها الجنة، {في}: جملةِ {عبادِكَ الصالحين}: فإنَّ الرحمةَ مجعولةٌ للصالحين على اختلاف درجاتهم ومنازلهم. فهذا نموذجٌ ذَكَره الله من حالة سليمان عند سماع خطابِ النملة وندائها.
AyatMeaning
[19] حضرت سلیمانu نے چیونٹی کی بات سن لی اور آپ اس کو سمجھ بھی گئے۔ ﴿ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا ﴾ ’’پس وہ ( سلیمانu) چیونٹی کی بات سن کر ہنس پڑے۔‘‘ چیونٹی کی اپنی ہم جنسوں کے بارے میں اور خود اپنے بارے میں خیرخواہی اور حسن تعبیر پر خوش ہو کر مسکرا پڑے یہ انبیائے کرام کا حال ہے جو ادب کامل اور اپنے مقام پر اظہار تعجب کو شامل ہے نیز یہ کہ ان کا ہنسنا تبسم کی حد تک ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ e کا زیادہ تر ہنسنا مسکراہٹ کی حد تک ہوتا تھا۔ کیونکہ قہقہہ لگا کر ہنسنا خفت عقل اور سوء ادب پر دلالت کرتا ہے۔ خوش ہونے والی بات پر خوش نہ ہونا اور عدم تبسم بدخلقی اور طبیعت کی سختی پر دلالت کرتا ہے اور انبیاء ورسل اس سے پاک ہوتے ہیں ۔ سلیمانu نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا، جس نے اسے یہ مقام عطا کیا، شکر ادا کرتے ہوئے کہا: ﴿ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ﴾ یعنی اے رب! مجھے الہام کر اور مجھے توفیق دے ﴿ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰى وَالِدَیَّ ﴾ ’’کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں ، ان کا شکر کروں ۔‘‘ کیونکہ والدین کو نعمت عطا ہونا اولاد کو نعمت عطا ہونا ہے۔ پس حضرت سلیمانu نے اپنے رب سے اس دینی اور دنیاوی نعمت پر، جو اس نے انھیں اور ان کے والدین کو عطا کی، شکر ادا کرنے کی توفیق کا سوال کیا: ﴿ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ ﴾ ’’اور یہ کہ ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہو جائے۔‘‘ یعنی مجھے توفیق عطا کر کہ میں ایسے نیک کام کروں جو تیرے حکم کے موافق، خالص تیرے لیے، مفسدات اور نقائص سے پاک ہوں تاکہ تو ان سے راضی ہو۔ ﴿وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ ﴾ ’’اور مجھے اپنی رحمت سے داخل فرما۔‘‘ یعنی جس رحمت کا جنت بھی حصہ ہے۔ ﴿ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’اپنے جملہ نیک بندوں میں ‘‘ کیونکہ رحمت، صالحین کے لیے، ان کے درجات اور منازل کے مطابق رکھی گئی ہے۔ یہ حضرت سلیمانu کی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی اس حالت کے نمونے کا ذکر ہے جو چیونٹی کی بات سن کر ہوئی تھی۔
Vocabulary
AyatSummary
[19]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List