Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 26
- SuraName
- تفسیر سورۂ شعراء
- SegmentID
- 1081
- SegmentHeader
- AyatText
- {20 ـ 22} فقال موسى: {فعلتُها إذاً وأنا من الضَّالِّين}؛ أي: عن غير كفرٍ، وإنَّما كان عن ضلال وسَفَهٍ، فاستغفرتُ ربي فغفر لي، {ففررتُ منكم لمَّا خِفْتُكم}: حين تراجعتُم بقتلي، فهربتُ إلى مدينَ، ومكثتُ سنينَ، ثم جئتُكم وقد وهب {لي ربِّي حُكماً وجَعَلني من المرسلين}. فالحاصلُ أنَّ اعتراضَ فرعونَ على موسى اعتراضُ جاهل أو متجاهل؛ فإنَّه جَعَلَ المانعَ من كونِهِ رسولاً أن جرى منه القتلُ، فبيَّن له موسى أن قَتْلَه على وجهِ الضلال والخطأ الذي لم يقصِدْ نفسَ القتل، وأنَّ فضل الله تعالى غيرُ ممنوع منه أحدٌ؛ فلم منعتُم ما منحني الله من الحكم والرسالة؟ بقي عليك يا فرعون إدلاؤُكَ بقولِكَ: {ألم نربِّكَ فينا وليداً}؟ وعند التحقيق يتبيَّن أن لا مِنَّةَ لك فيها، ولهذا قال موسى: {وتلك نعمةٌ} تمنُّ بها {عليَّ أنْ عَبَّدْتَ بني إسرائيلَ}؛ أي: تدلي عليَّ بهذه المنَّة لأنَّك سَخَّرْتَ بني إسرائيلَ، وجعلتَهم لك بمنزلةِ العبيدِ، وأنا قد أسْلَمْتَني من تعبيدِكَ وتسخيرِكَ، وجعلتها عليَّ نعمةً؛ فعند التصوُّرِ يتبيَّنُ أنَّ الحقيقةَ أنَّك ظلمتَ هذا الشعب الفاضل، وعذَّبْتَهم وسخَّرْتَهم بأعمالك، وأنا قد سلَّمنَي الله من أذاك، مع وصول أذاك لقومي؛ فما هذه المنة التي تَمُتُّ بها وتُدْلي بها؟!
- AyatMeaning
- [22-20] موسیٰ u نے فرمایا: ﴿ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْ٘نَ ﴾ ’’وہ حرکت مجھ سے ناگہاں سرزد ہوئی تھی اور میں خطا کاروں میں سے تھا۔‘‘ یعنی میں نے وہ قتل کفر کی بنا پر نہیں کیا وہ خطا اور نادانی کے باعث ہوا۔ پس میں نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی تو اس نے مجھے معاف کر دیا۔ ﴿ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ﴾ ’’پس جب مجھے تم سے ڈر لگا تو میں تم سے بھاگ گیا۔‘‘ یہ وہ وقت تھا جب تم نے میرے قتل کا مشورہ کرلیا تھا پس میں مدین کی طرف بھاگ کر چلا گیا اور کئی سال وہاں رہا، پھر تمھارے پاس چلا آیا۔ ﴿ فَوَهَبَ لِیْ رَبِّیْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِیْ مِنَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ﴾ ’’پھر اللہ نے مجھے نبوت و علم بخشا اور مجھے پیغمبروں میں سے کیا۔‘‘ حاصل کلام یہ ہے کہ موسیٰ u پر فرعون کا اعتراض ایک جاہل یا جان بوجھ کر جاہل بننے والے کا اعتراض ہے کیونکہ اس نے آنجناب کے رسول ہونے سے اس امر کو مانع قرار دیا کہ ان سے قتل کا ارتکاب ہو گیا تھا۔ حضرت موسیٰu نے فرعون پر واضح کر دیا کہ ان سے یہ قتل انجانے اور خطا سے ہوا ہے جس میں انسان کے قتل کے ارادے کو دخل نہیں ہوتا۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فضل کسی کے لیے ممنوع نہیں ہے تو پھر تم حکمت اور رسالت کو مجھ سے کیونکر روک سکتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی ہے۔ اے فرعون! باقی رہا تیرا یہ طعنہ: ﴿اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا﴾ ’’کیا ہم نے تیری، جبکہ تو بچہ تھا، پرورش نہیں کی۔‘‘ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اس میں تیرا کوئی احسان نہیں ۔ اس لیے موسیٰu نے فرمایا: ﴿ وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ یعنی تو مجھ پر یہ احسان جتلاتا ہے حالانکہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے اور تو نے مجھے اپنی غلامی سے بچا دیا ہے اور اسے تو مجھ پر اپنی نعمت اور اپنا احسان قرار دیتا ہے۔ غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ تو نے اس فضیلت والے گروہ پر ظلم کیا ہے تو نے اپنے ظلم سے ان کو مطیع کرکے عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔ اس کے باوجود کہ تو نے میری قوم پر اذیت اورتعذیب کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے تیری ایذا رسانی سے محفوظ رکھا۔ اس میں کون سا احسان ہے جو تو مجھ پرجتلاتا ہے؟
- Vocabulary
- AyatSummary
- [22-
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF