Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
25
SuraName
تفسیر سورۂ فرقان
SegmentID
1079
SegmentHeader
AyatText
{75 ـ 76} ولهذا لما كانت هِمَمُهُم ومطالِبُهم عاليةً، كان الجزاء من جنس العمل، فجازاهم بالمنازل العاليات، فقال: {أولئك يُجْزَوْنَ الغرفةَ بما صبروا}؛ أي: المنازل الرفيعة والمساكن الأنيقة الجامعة لكلِّ ما يشتهَى وتلذُّه الأعين، وذلك بسبب صبرِهِم نالوا ما نالوا؛ كما قال تعالى: {والملائكةُ يَدْخُلون عليهم مِن كلِّ بابٍ. سلامٌ عليكم بما صَبَرْتُم فنعمَ عُقْبى الدَّار}، ولهذا قال هنا: {ويُلَقَّوْنَ فيها تحيَّةً وسلاماً}: من ربِّهم ومن ملائكتِهِ الكرام ومن بعضٍ على بعضٍ، ويَسْلَمون من جميع المنغِّصات والمكدِّرات. والحاصل أنَّ الله وَصَفَهم بالوَقار، والسَّكينة، والتَّواضع له ولعبادِهِ، وحسنِ الأدبِ، والحلم، وسعةِ الخُلُق، والعفوِ عن الجاهلين، والإعراض عنهم، ومقابلة إساءتهم بالإحسان، وقيام الليل، والإخلاص فيه، والخوف من النار، والتضرُّع لربِّهم أن يُنَجِّيَهم منها، وإخراج الواجب والمستحبِّ في النفقات، والاقتصاد في ذلك. وإذا كانوا مقتصدينَ في الإنفاق الذي جَرَتِ العادةُ بالتفريط فيه أو الإفراط؛ فاقتصادُهُم وتوسُّطُهم في غيره من باب أولى، والسلامةُ من كبائِر الذُّنوب، والاتِّصاف بالإخلاص لله في عبادتِهِ، والعِفَّةِ عن الدِّماء والأعراضِ، والتوبة عند صدور شيءٍ من ذلك، وأنهم لا يحضُرون مجالس المنكر والفسوق القوليَّة والفعليَّة، ولا يفعلونها بأنفسهم، وأنَّهم يتنزَّهون من اللغو والأفعال الرديَّة، التي لا خير فيها، وذلك يستلزمُ مروءتهم وإنسانيَّتَهم وكمالَهم ورفعةَ أنفسِهِم عن كلِّ خسيس قوليٍّ وفعليٍّ، وأنَّهم يقابِلون آياتِ الله بالقَبول لها والتفهُّم لمعانيها والعمل بها والاجتهاد في تنفيذِ أحكامها، وأنَّهم يَدْعون الله تعالى بأكمل الدُّعاء في الدُّعاءِ الذي ينتفعونَ به، وينتفع به من يتعلَّقُ بهم، وينتفعُ به المسلمون من صلاح أزواجِهِم وذُرِّيَّتِهِم، ومن لوازم ذلك سعيُهم في تعليمهم ووعظِهِم ونُصْحِهِم؛ لأنَّ مَنْ حَرَصَ على شيءٍ ودعا الله فيه؛ لا بدَّ أن يكون متسبباً فيه، وأنَّهم دَعَوا الله ببلوغ أعلى الدرجات الممكنة لهم، وهي درجة الإمامة والصديقيَّة؛ فلله ما أعلى هذه الصفات، وأرفع هذه الهمم، وأجل هذه المطالب، وأزكى تلك النفوس، وأطهر تيك القلوبِ، وأصفى هؤلاء الصفوةِ، وأتقى هؤلاء السادة. ولله فضلُ الله عليهم، ونعمتُهُ، ورحمتُهُ التي جلَّلتهم، ولطفُه الذي أوصلهم إلى هذه المنازل. ولله مِنَّةُ الله على عبادِهِ أنْ بَيَّنَ لهم أوصافَهم ونعتَ لهم هيئاتِهِم، وبيَّن لهم هِمَمَهم وأوضحَ لهم أجورَهم؛ ليشتاقوا إلى الاتِّصاف بأوصافهم، ويبذُلوا جهدهم في ذلك، ويسألوا الذي منَّ عليهم وأكرمهم، الذي فضلُهُ في كل زمان ومكان وفي كل وقت وأوان أنْ يَهْدِيَهم كما هداهم، ويتولاَّهم بتربيته الخاصَّة كما تولاَّهم. فاللهمَّ لك الحمدُ، وإليك المشتكى، وأنت المستعان، وبك المستغاث، ولا حول ولا قوة إلاَّ بك، لا نملِكُ لأنفسنا نفعاً ولا ضرًّا، ولا نقدر على مثقال ذرَّةٍ من الخير إن لم تُيَسِّرْ ذلك لنا؛ فإنَّا ضعفاء عاجزون من كلِّ وجه، نشهد أنَّك إن وَكَلْتَنا إلى أنفسنا طرفة عين؛ وَكَلْتَنا إلى ضعفٍ وعجزٍ وخطيئةٍ؛ فلا نثق يا ربَّنا إلاَّ برحمتك، التي بها خلقتنا ورزَقْتَنا وأنعمتَ علينا بما أنعمتَ من النعم الظاهرة والباطنة، وصرفت عنا من النقم؛ فارحمنا رحمةً تُغنينا بها عن رحمةِ مَنْ سواك، فلا خاب من سألَكَ ورجاك.
AyatMeaning
[76,75] چونکہ وہ بلند ہمت اور بلند مقصد لوگ ہیں اس لیے ان کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہو گی، اللہ تعالیٰ انھیں جزا کے طور پر بلند منازل عطا کرے گا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ یُجْزَوْنَ الْ٘غُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا﴾ ’’ان لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیے جائیں گے۔‘‘ یعنی انھیں بلند منازل اور خوبصورت مساکن عطا كيے جائیں گے اوران کے لیے ہر وہ چیز جمع ہو گی جس کی دل خواہش کرے گا اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ یہ سب کچھ انھیں ان کے صبر کی بنا پر عطا ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُ٘لِّ بَ٘ابٍۚ۰۰ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ﴾ (الرعد:13؍23، 24) ’’فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ سب کچھ اس بنا پر عطا ہوا کہ تم نے صبر کیا تھا، کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر۔‘‘ اس لیے یہاں فرمایا: ﴿ وَیُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّسَلٰمًا ﴾ ’’اور وہ ان سے دعا و سلام سے ملاقات کریں گے۔‘‘ یعنی ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام بھیجا جائے گا، عالی قدر فرشتے ان کو سلام کہیں گے اوروہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو بھی سلام کہیں گے اور وہ ہر قسم کے تکدر اور ناخوشگواری سے محفوظ ہوں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں وقار، سکینت، اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے لیے تواضع اور انکسار، حسن ادب، بردباری، وسعت اخلاق، جہلاء سے درگزر اور اعراض، ان کے برے سلوک کے مقابلے میں حسن سلوک، تہجد، اس میں اخلاص، جہنم سے خوف، اس (جہنم) سے اپنی نجات کے لیے اپنے رب کے سامنے گڑ گرانے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں واجب اور مستحب نفقات میں سے خرچ کرنے اور اس میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے جیسے اوصاف سے ان کو موصوف کیا ہے۔ جب خرچ کرنے میں ، جس کے بارے میں عادۃً افراط وتفریط سے کام لیا جاتا ہے، وہ اعتدال کو اختیار کرتے ہیں تو دیگر معاملات میں ان کی میانہ روی تو بدرجہ اولیٰ ہو گی۔ وہ کبائر سے محفوظ ہیں ، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص، جان اور ناموس کے معاملات میں عفت اور کسی گناہ کے صادر ہونے پر توبہ جیسی صفات سے متصف ہیں نیز وہ ایسی تقریبات اور مجالس میں حاضر نہیں ہوتے جن میں منکرات اور قولی و فعلی فسق و فجور ہو اور نہ وہ خود اس کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ وہ لغویات اور ایسے گھٹیا افعال سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں ، جن میں کوئی فائدہ نہیں اور یہ چیز ان کی مروت، انسانیت اور ان کے کمال کو مستلزم ہے نیز اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ قولی وفعلی طور پر خسیس افعال سے بالاوبلند تر ہیں ۔ وہ آیات الٰہی کا قبولیت کے ساتھ استقبال کرتے ہیں ، ان کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان پر عمل کرتے ہیں ، ان کے احکام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔ وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کو کامل ترین طریقے سے پکارتے ہیں جس سے وہ خود فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے متعلقین فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کی اولاد اور ان کی بیویوں کی اصلاح سے تمام مسلمان فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ان تمام امور کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں ، انھیں نصیحت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ خیرخواہی کا رویہ رکھتے ہیں کیونکہ جو کوئی کسی چیز کی خواہش کرتا ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے وہ لازمی طور پر اس کے لیے اسباب بھی اختیار کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بلندترین درجات پر پہنچنے کی دعا کرتے ہیں جہاں تک پہنچنا ان کے لیے ممکن ہے اور وہ امامت اور صدیقیت کا درجہ ہے… اللہ کی قسم! یہ کتنی بلند مرتبہ صفات ہیں ، یہ کتنی بلند ہمتی ہے، یہ کتنے جلیل القدر مقاصد ہیں ، یہ نفوس کتنے پاک اور یہ قلوب کتنے طاہر ہیں ، یہ چنے ہوئے لوگ کتنے پاکیزہ اور یہ سادات کتنے متقی ہیں ! یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل، اس کی نعمت اور اس کی رحمت ہے جس نے ان کو ڈھانپ لیا ہے اور یہ اس کا لطف و کرم ہے جس نے ان کو ان بلند مقامات تک پہنچایا۔ اللہ کی قسم! یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عنایت ہے کہ اس نے ان کے سامنے اپنے ان بلند ہمت بندوں کے اوصاف بیان فرمائے، ان کی نشانیاں بیان کیں ، ان کے سامنے ان کی ہمت اور عزائم آشکارا كيے اور ان کا اجر واضح کیا تاکہ ان میں بھی ان اوصاف سے متصف ہونے کا اشتیاق پیدا ہو اور یہ بھی اس راستے میں جدوجہد کریں اور وہ اس ہستی سے سوال کریں ، جس نے اپنے ان بندوں پر احسان کیا، جس نے ان کو اکرام و تکریم سے سرفراز فرمایا اور جس کا فضل و کرم ہر زمان و مکان میں ہر وقت اور ہرآن عام ہے … کہ وہ انھیں بھی ہدایت سے نوازے جیسے ان کو ہدایت سے نوازا ہے اور اپنی تربیت خاص کے ذریعے سے ان کی بھی سرپرستی فرمائے جیسے ان کی سرپرستی فرمائی ہے۔ اے اللہ! ہر قسم کی ستائش کا صرف تو ہی مستحق ہے، میں صرف تیرے ہی پاس شکوہ کرتا ہوں ، تجھ ہی سے اعانت طلب کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں ۔ مجھ میں گناہ سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی مگر صرف تیری توفیق کے ساتھ۔ ہم خود اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں اور اگر تو ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا کر کے نیکی کو ہمارے لیے آسان نہ کرے تو ہم ذرہ برابر بھی نیکی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، ہم ہر لحاظ سے نہایت کمزور اور عاجز بندے ہیں ۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اگر تو ایک لمحے کے لیے بھی ہمیں ہمارے نفس کے حوالے کر دے تو گویا تو نے ہمیں کمزوری، عجز اور گناہ کے حوالے کر دیا ہے۔ اے ہمارے رب! ہم صرف تیری رحمت پر بھروسہ کرتے ہیں جس کی بنا پر تو نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں رزق عطا کیا، ہمیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز کیا اور تکلیفوں اور سختیوں کو ہم سے دور کیا، ہم پر ایسی رحمت کو سایہ کناں کر جو ہمیں تیری رحمت کے سوا ہر رحمت سے بے نیاز کر دے۔ پس جو کوئی تجھ سے سوال کرتا ہے اور تجھ سے امیدیں باندھتا ہے وہ کبھی خائب و خاسر نہیں ہوتا۔
Vocabulary
AyatSummary
[76,
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List