Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 123
- SegmentHeader
- AyatText
- {231} ثم قال تعالى: {وإذا طلقتم النساء}؛ أي: طلاقاً رجعياً بواحدة أو اثنتين {فبلغن أجلهن}؛ أي: قاربن انقضاء عدتهن {فأمسكوهن بمعروف أو سرحوهن بمعروف}؛ أي: إما أن تراجعوهن ونيتكم القيام بحقوقهن، أو تتركوهن بلا رجعة ولا إضرار، ولهذا قال: {ولا تمسكوهن ضرارًا}؛ أي: مضارة بهن {لتعتدوا} في فعلكم هذا الحلال إلى الحرام، فالحلال الإمساك بالمعروف والحرام المضارة، {ومن يفعل ذلك فقد ظلم نفسه}، ولو كان الحق يعود للمخلوق فالضرر عائد إلى من أراد الضرار، {ولا تتخذوا آيات الله هزواً}، لما بين تعالى حدوده غاية التبيين وكان المقصود العلم بها والعمل والوقوف معها وعدم مجاوزتها، لأنه تعالى لم ينزلها عبثاً بل أنزلها بالحق والصدق والجد، نهى عن اتخاذها هزواً، أي: لعباً بها وهو التجري عليها وعدم الامتثال لواجبها، مثل: استعمال المضارة في الإمساك أو الفراق أو كثرة الطلاق أو جمع الثلاث، والله من رحمته جعل له واحدة بعد واحدة رفقاً به، وسعياً في مصلحته. {واذكروا نعمة الله عليكم}؛ عموماً باللسان حمداً وثناء وبالقلب اعترافاً وإقراراً وبالأركان بصرفها في طاعة الله {وما أنزل عليكم من الكتاب والحكمة}؛ أي: السنة، اللذين بَيَّن لكم بهما طرق الخير، ورغبكم فيها، وطرق الشر، وحذركم إياها، وعرفكم نفسه ووقائعه في أوليائه وأعدائه، وعلمكم ما لم تكونوا تعلمون، وقيل المراد بالحكمة أسرار الشريعة، فالكتاب فيه الحكم، والحكمة فيها بيان حكمة الله في أوامره ونواهيه، وكلا المعنيين صحيح، ولهذا قال: {يعظكم به}؛ أي: بما أنزل عليكم، وهذا مما يقوي أن المراد بالحكمة أسرارُ الشريعة لأن الموعظة ببيان الحكم والحكمة والترغيب أو الترهيب، فالحكم به يزول الجهل، والحكمة مع الترغيب يوجب الرغبة، والحكمة مع الترهيب يوجب الرهبة {واتقوا الله} في جميع أموركم {واعلموا أن الله بكل شيء عليم}؛ فلهذا بين لكم هذه الأحكام بغاية الإتقان والإحكام التي هي جارية مع المصالح في كل زمان ومكان، فله الحمد والمنة.
- AyatMeaning
- [231] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ ﴾ ’’جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو۔‘‘ یعنی جب تم اپنی بیویوں کو ایک طلاق رجعی یا دو طلاق دے دو ﴿فَ٘بَلَ٘غْ٘نَ اَجَلَهُنَّ ﴾ ’’پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں۔‘‘ یعنی وہ اپنی عدت پوری ہونے کے قریب پہنچ جائیں ﴿ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ ’’تو انھیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کردو۔‘‘ یعنی یا تو تم ان سے رجوع کرو اور تمھاری نیت یہ ہونی چاہیے کہ تم ان کے حقوق پورے کرو گے یا تم ان کو بغیر رجوع کیے اور بغیر نقصان پہنچائے چھوڑ دو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَّلَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا ﴾ ’’اور ان کو نقصان پہنچانے کے لیے نہ روکو۔‘‘ ﴿ لِّتَعْتَدُوْا ﴾ ’’تاکہ تم زیادتی کرو‘‘ یعنی تم اپنے اس فعل میں حلال سے تجاوز کر کے حرام میں نہ پڑ جاؤ ۔یہاں ’’حلال‘‘ سے مراد معروف طریقے سے بیوی کو روک لینا اور ’’حرام‘‘ سے مراد اس کو نقصان پہنچانا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ﴾ ’’اور جو شخص ایسا کرے گا، پس یقیناً اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا‘‘ اگر حق مخلوق کی طرف لوٹتا ہو تو ضرر اس شخص کی طرف لوٹے گا جو ضرر پہنچانے کا ارادہ کرے۔ ﴿ وَلَا تَتَّخِذُوْۤا اٰیٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا ﴾ ’’اور نہ ٹھہراؤ اللہ کے حکموں کو ہنسی مذاق‘‘ چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مقرر کردہ حدود کو نہایت وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان حدود کا علم حاصل کیا جائے، ان پر عمل کیا جائے اور انھی پر اکتفا کی جائے اور ان حدود سے تجاوز نہ کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو عبث اور بے فائدہ نازل نہیں فرمایا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو حق، صدق اور اہتمام کے ساتھ نازل فرمایا ہے، اس لیے ان کا تمسخر اڑانے سے منع کیا ہے۔ یعنی ان کو کھیل تماشا بنانے سے روکا ہے، جس کا مطلب ان کے خلاف جسارت کرنا اور ان کی ادائیگی میں عدم اطاعت کا راستہ اختیار کرنا ہے، مثلاً بیوی کو نقصان پہنچانے کی خاطر روکنا یا جدا رکھنا یا کثرت سے طلاق دینا یا تین طلاق ایک ہی بار دے دینا۔ جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی رحمت، مہربانی اور بندے کی بھلائی کی بنا پر یکے بعد دیگرے (ایک، ایک کر کے) طلاق دینے کا طریقہ مقرر فرمایا ہے۔ ﴿ وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو، جو تم پر ہوئی‘‘ زبان سے عام طور پر، حمدوثنا کے ذریعے سے۔ دل سے اقرار و اعتراف کر کے اور جوارح (اعضاء) کے ذریعے سے، ان کو اللہ کی اطاعت میں مصروف کر کے۔ ﴿ وَمَاۤ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَةِ ﴾ ’’اور جو اس نے تم پر کتاب و حکمت سے اتارا‘‘ حکمت سے مراد، سنت ہے، یعنی قرآن اور سنت کے ذریعے سے تمھارے لیے بھلائی کی راہیں واضح کر دیں اور ان پر گامزن ہونے کی تمھیں ترغیب دی اور تمھارے سامنے برائی کے راستے بھی واضح کر دیے اور ان پر چلنے سے ڈرایا، اور اس نے تمھیں اپنی معرفت سے نوازا اور تمھیں اپنے اولیاء اور اعداء کے بارے میں اپنی عادت اور اپنے طریقے سے آگاہ کیا اور تمھیں وہ کچھ سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہاں حکمت سے مراد اسرار شریعت ہیں ۔اس معنی کے لحاظ سے، کتاب سے مراد احکام الٰہی اور حکمت سے مراد وہ اسرار و حکم ہیں جو اس کے اوامر اور نواہی کے اندر ہیں اور حکمت کے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ ﴿ یَعِظُكُمْ بِهٖ ﴾ ’’وہ اس کے ذریعے سے تمھیں نصیحت کرتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر جو کتاب نازل فرمائی ہے اس کے ذریعے سے وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا اس رائے کو تقویت دیتا ہے کہ حکمت سے مراد اسرار شریعت ہیں کیونکہ حکم اور حکمت اور ترغیب یا ترہیب کے بیان کے ذریعے سے ہی نصیحت کی جاتی ہے۔ پس حکم (یعنی شریعت) سے جہالت زائل ہو جاتی ہے۔ حکمت، ترغیب کے ساتھ رغبت کی موجب ہوتی ہے اور ترہیب کے ساتھ حکمت، اللہ تعالیٰ کے ڈر کی موجب ہوتی ہے۔ فرمایا: ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اپنے تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’اور جان رکھو کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمھارے لیے یہ احکام کھول کھول کر بیان کر دیے ہیں جو اپنے تمام تر مصالح کے ساتھ ہر زمان و مکان میں جاری و ساری ہیں۔ پس ہر قسم کی حمد و ثنا کا وہی مستحق ہے اور اسی کا احسان ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [231
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF