Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
123
SegmentHeader
AyatText
{230} يقول تعالى: {فإن طلقها}؛ أي: الطلقة الثالثة {فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجًا غيره}؛ أي: نكاحاً صحيحاً ويطأها، لأن النكاح الشرعي لا يكون إلا صحيحاً ويدخل فيه العقد والوطء وهذا بالاتفاق، ويتعين أن يكون نكاح الثاني نكاح رغبة، فإن قصد به تحليلها للأول فليس بنكاح ولا يفيد التحليل، ولا يفيد وطء السيد لأنه ليس بزوج، فإذا تزوجها الثاني راغباً، ووطأها، ثم فارقها وانقضت عدتها {فلا جناح عليهما}؛ أي: على الزوج الأول والزوجة {أن يتراجعا}؛ أي: يجددا عقداً جديداً بينهما لإضافته التراجع إليهما، فدل على اعتبار التراضي، ولكن يشترط في التراجع أن يظنا {أن يقيما حدود الله}؛ بأن يقوم كل منهما بحق صاحبه، وذلك إذا ندما على عشرتهما السابقة الموجبة للفراق، وعزما أن يبدلاها بعشرة حسنة، فهنا لا جناح عليهما في التراجع. ومفهوم الآية الكريمة أنهما إن لم يظنا أن يقيما حدود الله بأن غلب على ظنهما أن الحال السابقة باقية والعشرة السيئة غير زائلة أن عليهما في ذلك جناحاً، لأن جميع الأمور إن لم يقم فيها أمر الله ويسلك بها طاعته لم يحل الإقدام عليها، وفي هذا دلالة على أنه ينبغي للإنسان إذا أراد أن يدخل في أمر من الأمور، خصوصاً الولايات الصغار والكبار، أن ينظر في نفسه، فإن رأى من نفسه قوة على ذلك ووثق بها أقدم وإلا أحجم. ولما بيَّن تعالى هذه الأحكام العظيمة قال: {وتلك حدود الله}؛ أي: شرائعه التي حددها وبينها ووضحها، {يبينها لقوم يعلمون}؛ لأنهم هم المنتفعون بها النافعون لغيرهم، وفي هذا من فضيلة أهل العلم ما لا يخفى، لأن الله تعالى جعل تبيينه لحدوده خاصًّا بهم وأنهم المقصودون بذلك، وفيه أن الله تعالى يحب من عباده معرفة حدود ما أنزل على رسوله والتفقه بها.
AyatMeaning
[230] ﴿ فَاِنْ طَلَّقَهَا ﴾ ’’پھر اگر (تیسری) طلاق دے دے‘‘ ﴿ فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَ٘نْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ ﴾ ’’تو اب اس کے لیے حلال نہیں وہ عورت اس کے بعد، یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی خاوند سے اس کے سوا۔‘‘ یعنی وہ عورت دوسرے خاوند سے صحیح نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری بھی کرے، اس لیے کہ اہل علم کے اجماع کے مطابق نکاح شرعی اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں عقد اور مجامعت نہ ہو۔ اس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ نکاح ثانی رغبت سے کیا گیا ہو۔ اگر یہ نکاح پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کی نیت سے کیا گیا ہو تو یہ نکاح نہیں ہو گا اور نہ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہی ہوگی نہ اس سے اس کی ہم بستری ہی مفید ہے، کیونکہ وہ اس کا خاوند ہی نہیں ہے۔ اگر اس مطلقہ سے کوئی دوسرا شخص نکاح کر لیتا ہے اور اس سے جماع بھی کرتا ہے پھر اسے طلاق دے دیتا ہے اور اس مطلقہ کی عدت پوری ہو جاتی ہے ﴿فَلَاجُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ ﴾ ’’تو نہیں ہے گناہ ان دونوں پر‘‘ یعنی پہلے خاوند اور اس بیوی پر ﴿ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ ﴾ ’’یہ کہ وہ دونوں رجوع کر لیں‘‘ یعنی وہ ایک دوسرے سے رجوع کر کے اپنے نکاح کی تجدید کر لیں یہ آیت باہمی رضامندی پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ تراجع کی اضافت دونوں کی طرف کی گئی ہے۔ مگر ان کے آپس کے رجوع میں یہ یقین شرط ہے ﴿ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھیں گے‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھنے کی صورت یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور وہ اس طرح کہ دونوں اپنے سابقہ رویوں پر نادم ہوں جن کی وجہ سے ان میں جدائی پیدا ہوئی۔ اور یہ عزم کریں کہ وہ اپنے ان رویوں کو بدل کر اچھی معاشرت اختیار کریں گے۔ تب ان کے ایک دوسرے سے رجوع کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، کیونکہ ان کو گمان غالب ہے کہ ان کے گزشتہ رویئے باقی رہیں گے اور ان کی بری معاشرت زائل نہیں ہو گی، تو پھر ان پر گناہ ہو گا، اس لیے کہ تمام معاملات میں اگر وہ اللہ کے حکم کو قائم نہیں کریں گے اور اس کی اطاعت کے راستے پر نہیں چلیں گے، تو ان کے لیے (دوبارہ باہم نکاح کرنے کا) یہ اقدام جائز ہی نہیں ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لیے مناسب یہی ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں داخل ہونے کا ارادہ کرے، خاص طور پر چھوٹے یا بڑے عہدے کو قبول کرتے وقت، تو اسے اپنے آپ میں غور کرنا چاہیے۔ اگر اسے ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت رکھنے کا پورا یقین ہے تو اسے آگے بڑھ کر اس ذمہ داری کو قبول کر لینا چاہیے ورنہ پیچھے ہٹ جائے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان بڑے بڑے احکام کو بیان فرمایا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ﴾ ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں‘‘ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے شرائع ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور ان کو واضح کیا۔ ﴿ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ﴾ ’’وہ اسے جاننے والے لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے‘‘ کیونکہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے ان احکام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور پھر دوسروں کو فائدہ دے سکتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی جس فضیلت کا بیان ہے، وہ مخفی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حدود کی توضیح وتبیین کو ان کے ساتھ مختص کیا ہے اور اس آیت میں وہی لوگ مقصود اور مراد ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ ان حدود کی معرفت اور ان میں تفقہ حاصل کریں جو اس نے اپنے رسولeپر نازل کی ہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[230
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List