Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 25
- SuraName
- تفسیر سورۂ فرقان
- SegmentID
- 1064
- SegmentHeader
- AyatText
- {25 ـ 26} يُخبر تعالى عن عَظَمَةِ يوم القيامة وما فيه من الشدَّة والكُروب ومزعجات القلوب، فقال: {ويوم تَشَقَّقُ السماءُ بالغمام}: وذلك الغمام الذي ينزل الله فيه؛ ينزِلُ من فوق السماوات، فَتَنْفَطِرُ له السماواتُ وتشقَّق وتنزِلُ [ملائكةُ] كلِّ سماء، فيقفون صفًّا صفًّا، إمّا صفًّا واحداً محيطاً بالخلائق، وإمّا كلُّ سماء يكونون صفًّا، ثم السماء التي تليها صفًّا ، وهكذا القصدُ أنَّ الملائكةَ على كَثْرَتِهم وقوَّتِهم ينزلون محيطين بالخَلْق مذعِنين لأمرِ ربِّهم لا يتكلَّم منهم أحدٌ إلاَّ بإذن من الله؛ فما ظنُّك بالآدميِّ الضعيف، خصوصاً الذي بارز مالِكَه بالعظائم، وأقدم على مساخطِهِ، ثم قدم عليه بذُنوبٍ وخطايا لم يتبْ منها، فيحكُمُ فيه الملكُ الخلاَّقُ بالحكم الذي لا يجورُ ولا يظلمُ مثقالَ ذرَّةٍ، ولهذا قال: {وكان يوماً على الكافرين عسيراً}: لصعوبتِهِ الشَّديدة وتعسُّرِ أمورِهِ عليه؛ بخلاف المؤمن؛ فإنَّه يسيرٌ عليه خفيفُ الحمل: {ويَوْمَ نحشُرُ المتَّقينَ إلى الرحمن وفداً. ونَسوقُ المجْرِمين إلى جَهَنَّمَ ورْداً}. وقوله: {الملك يومئذٍ}؛ أي: يوم القيامةِ، {الحقُّ للرحمن}: لا يبقى لأحدٍ من المخلوقين مُلْكٌ ولا صورةُ مُلْكٍ؛ كما كانوا في الدنيا، بل قد تساوتِ الملوكُ ورعاياهم والأحرارُ والعبيدُ والأشرافُ وغيرهم. وممَّا يرتاحُ له القلبُ وتطمئنُّ به النفس وينشرحُ له الصدرُ أنَّه أضاف الملك في يوم القيامة لاسمِهِ الرحمن؛ الذي وسعتْ رحمتُهُ كلَّ شيءٍ، وعمَّت كلَّ حيٍّ، وملأتِ الكائناتِ، وعمرت بها الدُّنيا والآخرة، وتمَّ بها كلُّ ناقص، وزال بها كلُّ نقص، وغلبت الأسماءُ الدالَّةُ عليه الأسماءَ الدالَّة على الغضب، وسبقت رحمتُه غضَبَه وغلبتْه؛ فلها السبق والغلبة، وخَلَقَ هذا الآدميَّ الضعيف وشرَّفَه وكرَّمه لِيُتِمَّ عليه نعمته وليتغمَّدَه برحمته، وقد حضروا في موقف الذلِّ والخضوع والاستكانة بين يديه؛ ينتظرون ما يحكم فيهم وما يُجري عليهم، وهو أرحم بهم من أنفسهم ووالديهم؛ فما ظنُّك بما يعامِلُهم به، ولا يَهْلِكُ على الله إلاَّ هالكٌ، ولا يخرج من رحمتِهِ إلاَّ من غلبتْ عليه الشَّقاوة، وحقَّتْ عليه كلمةُ العذاب.
- AyatMeaning
- [26,25] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن کی عظمت اور اس دن پیش آنے والی سختی اور کرب اور دلوں کو ہلا دینے والے مناظر کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿وَیَوْمَ تَ٘شَ٘قَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ﴾ ’’اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا ساتھ بادل کے۔‘‘ یہ وہ بادل ہو گا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں سے نزول فرمائے گا۔ پس آسمان پھٹ جائیں گے اور تمام آسمانوں کے فرشتے نیچے اتر آئیں گے اور صف در صف کھڑے ہو جائیں گے یا تو تمام ایک ہی صف بنا کر تمام خلائق کو گھیر لیں گے یا اس کی صورت یہ ہو گی کہ ایک آسمان کے فرشتے صف بنائیں گے اس کے ساتھ دوسرے آسمان کے فرشتے صف بنائیں گے اور اسی طرح ساتوں آسمانوں کے فرشتے صف در صف موجود ہوں گے مقصد یہ ہے کہ فرشتے نہایت کثرت اور قوت کے ساتھ نازل ہوں گے۔ ان میں سے کوئی فرشتہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کلام نہیں کر سکے گا۔ (اس روز جب یہ حال ہو گا) تو اس کمزور آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے کام كيے اور توبہ كيے بغیر گناہوں کا بوجھ اٹھائے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ جو بادشاہ اور خلاّقِ کائنات ہے، ان کے درمیان ایسا فیصلہ کرے گا جس میں ذرہ بھر ظلم وجور نہ ہو گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَؔكَانَ یَوْمًا عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا ﴾ یہ دن اپنی سختی اور صعوبت کی وجہ سے کفار کے لیے بہت کٹھن ہو گا اور ان کے تمام امور ان کے لیے بہت مشکل ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس مومن کا معاملہ آسان اور اس کا بوجھ بہت ہلکا ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ یَوْمَ نَحْشُ٘رُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ۰۰ وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا﴾ (مریم:19؍85۔86) ’’جس روز ہم اہل تقویٰ کو اکٹھا کر کے رحمان کے حضور مہمانوں کے طور پر پیش کریں گے اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانک کر لے جائیں گے۔‘‘ ﴿اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذٍ﴾ ’’بادشاہی اس روز‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ﴾ ’’رحمان ہی کے لیے صحیح طور پر ہو گی۔‘‘ یعنی مخلوقات میں سے کسی کے لیے کوئی اختیار یا اختیار و اقتدار کی کوئی صورت نہیں ہو گی جس طرح کہ وہ دنیا میں تھے۔ بلکہ بادشاہ اور ان کی رعایا، آزاد اور غلام، اشرف اور نیچ سب برابر ہوں گے اور جس چیز سے دل کو راحت اور نفس کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز اقتدار کی اپنے اسم مبارک ﴿الرَّحْمٰنِ ﴾ کی طرف اضافت کی ہے۔ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر زندہ کے لیے عام ہے، اس نے تمام کائنات کو لبریز کر رکھا ہے، دنیا و آخرت اللہ تعالیٰ کی رحمت سے معمور ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہر ناقص کامل ہو جاتا ہے اور اس کی رحمت سے ہر نقص زائل ہو جاتا ہے۔ اس کی رحمت پر دلالت کرنے والے اسمائے حسنیٰ ان اسمائے حسنیٰ پر غالب ہیں جو اس کے غضب پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس کی رحمت کو اس کے غضب پر سبقت حاصل ہے، اس کی رحمت غضب پر غالب ہے۔پس اس کے لیے سبقت اور غلبہ ہے۔ یہ کمزور آدمی اس لیے پیدا کیا گیا ہے اور اسے عزت و تکریم اس لیے عطا کی گئی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمت کا اتمام کرے اور اسے اپنی نعمت سے ڈھانپ لے۔ لوگ تذلل، خضوع اور انکسار کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر انتظار کریں گے کہ وہ کیا حکم جاری کرتا ہے درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتا ہے جتنا وہ خود اپنے آپ پر رحم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے والدین سے بھی زیادہ رحیم ہے۔ پس آپ کا کیا خیال ہے وہ اپنے بندوں کے ساتھ کیسا معاملہ کرے گا؟اور اللہ تعالیٰ صرف اسی کو ہلاک کرے گا جو خود ہلاک ہونا چاہتا ہے، اس کی رحمت کے دائرے سے صرف وہی خارج ہو گا جس پر بدبختی غالب آ گئی ہو اور جس پر عذاب واجب ٹھہر گیا ہو۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [26,
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF