Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
24
SuraName
تفسیر سورۂ نور
SegmentID
1052
SegmentHeader
AyatText
{59} {وإذا بَلَغَ الأطفالُ منكم الحُلُمَ}: وهو إنزالُ المنيِّ يقظةً أو مناماً؛ {فَلْيَسْتَأذِنوا كما استأذنَ الذين من قبلِهِم}؛ أي: في سائر الأوقات، والذين مِنْ قبلِهِم هم الذين ذَكَرَهُمُ اللهُ بقوله: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تَدْخُلوا بيوتاً غير بيوتِكُم حتى تَسْتَأنِسوا ... } الآية. {كذلك يبيِّنُ الله لكم آياتِهِ}: ويوضِّحُها ويفصِّلُ أحكامها. {والله عليم حكيم}. وفي هاتين الآيتين فوائدُ: منها: أنَّ السيِّد وولي الصغير مخاطبان بتعليم عبيدِهم ومَنْ تحتَ ولايَتِهم من الأولاد العلمَ والآدابَ الشرعيَّة؛ لأنَّ الله وجَّه الخطاب إليهم بقوله: {يا أيُّها الذين آمنوا لِيَسْتَأذِنكُمُ الذين ملكت أيمانكم والذين لم يَبْلُغوا الحُلُم ... } الآية، ولا يمكنُ ذلك إلاَّ بالتعليم والتأديب، ولقوله: {ليس عليكُم ولا عليهِم جُناح بَعْدَهُنَّ}. ومنها: الأمر بحفظِ العورات والاحتياط لذلك من كلِّ وجه، وأنَّ المحلَّ والمكانَ الذي مَظِنَّةٌ لرؤيةِ عورة الإنسان فيه، أنَّه منهيٌّ عن الاغتسال فيه والاستنجاء ونحو ذلك. ومنها: جوازُ كشفِ العورة لحاجةٍ؛ كالحاجة عند النوم وعند البول والغائط ونحو ذلك. ومنها: أنَّ المسلمين كانوا معتادين القَيْلولة وسطَ النهار؛ كما اعتادوا نومَ الليل؛ لأنَّ الله خاطَبَهم ببيانِ حالِهِم الموجودةِ. ومنها: أنَّ الصغير الذي دون البلوغ لا يجوزُ أن يمكَّنَ من رؤية العورة، ولا يجوزُ أن تُرى عورتُهُ؛ لأنَّ الله لم يأمُرْ باستئذانِهِم إلاَّ عن أمرٍ ما يجوز. ومنها: أنَّ المملوك أيضاً لا يجوزُ أن يرى عورةَ سيِّده؛ كما أنَّ سيِّده لا يجوز أن يرى عورتَه؛ كما ذكرنا في الصغير. ومنها: أنَّه ينبغي للواعظ والمعلِّم ونحوهم ممَّن يتكلَّم في مسائل العلم الشرعيِّ أن يقرِنَ بالحكم بيانَ مأخذِهِ ووجهِهِ، ولا يُلقيه مجرَّداً عن الدليل والتَّعليل؛ لأنَّ الله لما بيَّن الحكم المذكور؛ علَّله بقوله: {ثلاثُ عوراتٍ لكم}. ومنها: أنَّ الصَّغيرَ والعبدَ مخاطبان كما أنَّ وليَّهما مخاطبٌ؛ لقوله: {ليس عليكُم ولا عليهم جناحٌ بَعْدَهُنَّ}. ومنها: أنَّ ريق الصبيِّ طاهرٌ، ولو كان بعد نجاسةٍ؛ كالقيء؛ لقوله تعالى: {طوَّافونَ عليكُم}؛ مع قول النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - حين سُئِلَ عن الهرة: «إنها ليست بِنَجَسٍ، إنَّها من الطَّوَّافينَ عليكم والطَّوَّافاتِ». ومنها: جوازُ استخدام الإنسان مَنْ تحت يدِهِ من الأطفال على وجهٍ معتادٍ لا يشقُّ على الطفل؛ لقوله: {طوَّافونَ عليكم}. ومنها: أنَّ الحكم المذكورَ المفصَّل إنَّما هو لما دونَ البلوغ، وأمَّا ما بعدَ البلوغ؛ فليس إلاَّ الاستئذان. ومنها: أنَّ البلوغَ يحصُلُ بالإنزال، فكلُّ حكم شرعيٍّ رُتِّبَ على البلوغ؛ حصل بالإنزال، وهذا مجمعٌ عليه، وإنَّما الخلاف هل يَحْصُلُ البلوغُ بالسنِّ أو الإنباتِ للعانةِ. والله أعلم.
AyatMeaning
[59] ﴿وَاِذَا بَلَ٘غَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ ﴾ ’’اور جب پہنچ جائیں بچے تم میں سے بلوغت کو۔‘‘ اور یہ وہ عمر ہے جب سوتے یا جاگتے میں منی کا انزال ہو جاتا ہے۔ ﴿ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ ’’تو ان کو چاہیے کہ وہ اجازت طلب کریں جیسے اجازت مانگتے ہیں وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے۔‘‘ یعنی تمام اوقات میں ۔ اور جن لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے ﴿ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ﴾ میں اشارہ فرمایا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں : ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا﴾ (النور:24؍27) ’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔‘‘ ﴿ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ﴾ ’’اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ اپنی آیتیں ۔‘‘ یعنی واضح کرتا ہے اور اس کے احکام کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے ﴿وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ باخبر اور حکمت والا ہے۔‘‘ ان دو آیات کریمہ میں متعدد فوائد ہیں : (۱) آقا اور چھوٹے بچوں کے سرپرست کو مخاطب کیا گیا ہے کہ وہ اپنے غلاموں اور ان چھوٹے بچوں کوعلم اور آداب شرعیہ کی تعلیم دیں جو ان کی سرپرستی میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں اس کے خطاب کا رخ ان کی طرف ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰ٘ثَ مَرّٰتٍ ﴾ ’’اے ایمان والو! تم سے تمھاری ملکیت کے غلاموں اور انھیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں ان کو تین اوقات میں اجازت طلب کرنی چاہیے۔‘‘ اور یہ چیز ان کی تعلیم و تادیب کے بغیر ممکن نہیں اور نیز اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ وَلَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ ﴾ ’’تم پر اور ان پر ان اوقات کے بعد کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ (۲) اللہ تعالیٰ نے پردہ کی حفاظت اور اس معاملے میں ہر قسم کی احتیاط کا حکم دیا ہے، نیز اس جگہ پر جہاں انسان کے ستر کے نظر آنے کا امکان ہو وہاں غسل اور استنجاء وغیرہ سے روکا گیا ہے۔ (۳) ضرورت کے وقت ستر کھولنا جائز ہے، مثلاً:سونے یا بول و براز وغیرہ کے وقت۔ (۴) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دنوں میں مسلمان رات کے وقت سونے کی طرح دوپہر کے وقت قیلولہ کرنے کے عادی تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں انھیں ان کی موجودہ حالت کے مطابق خطاب کیا ہے۔ (۵) اس بچے کے بارے میں جو ابھی بالغ نہیں ہوا، جائز نہیں کہ اسے ستر دیکھنے کی اجازت دی جائے اور نہ ہی اس کا ستر دیکھنا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اجازت طلب کرنے کا حکم ایسے معاملے میں دیا ہے جو جائز ہے۔ (۶) غلام کے لیے اپنے مالک کا ستر دیکھنا جائز نہیں ۔ اسی طرح مالک کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے غلام کا ستر دیکھے،جیسے ہم نے بچے کے سلسلے میں بیان کیا۔ (۷) واعظ اور معلم جو علوم شرعیہ میں بحث کرتا ہے، اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ حکم بیان کرنے کے ساتھ اس کا ماخذ اور اس کی وجہ بھی بیان کر دے اور دلیل اور تعلیل کے بغیر کوئی بات نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم مذکور بیان کرنے کے بعد اس کی علت بیان کی ہے۔ فرمایا: ﴿ ثَلٰ٘ثُ عَوْرٰتٍ لَّـكُمْ ﴾ ’’یہ تین اوقات تمھارے لیے پردے کے اوقات ہیں ۔‘‘ (۸) یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نابالغ بچے اور غلام حکم شرعی میں مخاطب ہیں جس طرح ان کا سرپرست مخاطب ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے ﴿ لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ وَلَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ ﴾ ’’ان اوقات کے بعد اگر وہ اجازت لیے بغیر آئیں تو تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر۔‘‘ (۹) بچے کا لعاب پاک ہے خواہ وہ نجاست، مثلاً:قے وغیرہ کے بعد کا لعاب ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’وہ تمھارے پاس بار بار آنے والے ہیں ۔‘‘ نیز جب رسول اللہe سے بلی کے جوٹھے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (اِنَّھَا مِنَ الطَّوَّافِیْنَ عَلَیْکُمْ وَالطَّوَّافَاتِ) (سنن أبي داود، الطہارۃ، باب سؤر الہرۃ، 75، و سنن النسائي، الطہارۃ، باب سؤر الہرۃ، ح: 68)’’یہ تمھارے پاس نہایت کثرت سے آنے جانے والے والوں اور آنے جانے والیوں میں سے ہیں ۔‘‘ (اس لیے ان کا جوٹھا جائز ہے) (۱۰) انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے زیر سایہ بچوں سے ایسی خدمت لے لے جس میں ان کے لیے مشقت نہ ہو۔ اس کے لیے دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:﴿ طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’وہ تمھارے پاس باربار آنے والے ہیں ۔‘‘ (۱۱) متذکرہ صدر حکم صرف ان بچوں کے لیے ہے جو ابھی بالغ نہیں ہوئے۔ بالغ ہونے کے بعد تو ہر حال میں اجازت طلب کرنے کا حکم ہے۔ (۱۲) منی کے انزال سے بلوغت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ تمام شرعی احکام جو بلوغت پر مترتب ہوتے ہیں ، انزال کے ساتھ ہی لاگو ہو جاتے ہیں اور اس پر تمام امت کا اجماع ہے البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ عمر یا زیر ناف بال اگنے سے بلوغت حاصل ہو جاتی ہے یا نہیں ۔
Vocabulary
AyatSummary
[59]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List