Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 24
- SuraName
- تفسیر سورۂ نور
- SegmentID
- 1042
- SegmentHeader
- AyatText
- {39} {والذين كفروا}: بربِّهم وكذَّبوا رسلَه {أعمالُهم كسرابٍ بِقيعةٍ}؛ أي: بقاعٍ لا شَجَرَ فيه ولا نبتَ {يحسبُهُ الظمآنُ ماءً}: شديد العطش، الذي يتوهم ما لا يتوهم غيره، بسبب ما معه من العطش، وهذا حسبانٌ باطلٌ، فيقصده ليزيل ظمأه {حتى إذا جاءه لم يَجِدْه شيئاً}: فندم ندماً شديداً، وازداد ما به من الظمأ بسبب انقطاع رجائه؛ كذلك أعمال الكفار بمنزلة السراب، تُرى ويظنُّها الجاهل الذي لا يدري الأمور أعمالاً نافعة، فيغرُّه صورتها، ويخلُبُه خيالُها، ويحسبُها هو أيضاً أعمالاً نافعة لهواه، وهو أيضاً محتاجٌ إليها، بل مضطرٌّ إليها؛ كاحتياج الظمآن للماء، حتى إذا قدم على أعماله يوم الجزاء؛ وجدها ضائعةً، ولم يجدْها شيئاً، والحال أنَّه لم يذهبْ لا له ولا عليه، بل {وجد الله عنده فوفَّاه حسابَهُ}: لم يَخْفَ عليه من عملِهِ نقيرٌ ولا قِطمير، ولنْ يَعْدَمَ منه قليلاً ولا كثيراً. {والله سريعُ الحساب}: فلا يَسْتَبْطِئ الجاهلون ذلك الوعد؛ فإنَّه لا بدَّ من إتيانه، وَمَثَّلَها الله بالسراب الذي {بقيعةٍ}؛ أي: لا شجر فيه ولا نبات، وهذا مثالٌ لقلوبِهم؛ لا خير فيها ولا بِرَّ فتزكو فيها الأعمال، وذلك للسبب المانع، وهو الكفر.
- AyatMeaning
- [39] ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ﴾ ’’اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا‘‘ اپنے رب کے ساتھ اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا﴿ اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ ﴾ ’’ان کے اعمال چٹیل میدان میں سراب کی طرح ہیں ۔‘‘ یعنی ان کے اعمال کی مثال ایسا دشت بے آب ہے جہاں کوئی درخت ہو نہ نباتات ﴿یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً ﴾ ’’پیاسا آدمی سے پانی سمجھتا ہے۔‘‘ یعنی سخت پیاسا شخص اس سراب کو پانی سمجھتا ہے کیونکہ پیاس کے مارے شخص کو پیاس کی وجہ سے وہ تو ہم لاحق ہوتا ہے جو کسی اور کو لاحق نہیں ہوتا۔ اور یہ گمان باطل ہے لیکن پیاسا شخص اپنی پیاس بجھانے کا ارادہ کرتا ہے﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْـًٔـا ﴾ ’’حتی کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو وہ اس کو کچھ نہیں پاتا۔‘‘ پس اسے سخت ندامت ہوتی ہے اور امید کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے اس کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح کفار کے اعمال سراب کی مانند ہیں ۔ جاہل شخص جو معاملات کو نہیں جانتا اسے وہ اعمال اچھے دکھائی دیتے ہیں ، ان کی ظاہری شکل و صورت اس کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ اپنی خواہشات نفس کی وجہ سے انھیں بھی اچھے اعمال سمجھتا ہے اور وہ اعمال کا اسی طرح محتاج ہوتا ہے جس طرح ایک پیاسا شخص پانی کا محتاج ہوتا ہے حتیٰ کہ قیامت کے روز جب اپنے اعمال کا سامنا کرے گا تو ان کو ضائع شدہ اور بے فائدہ پائے گا اور حال یہ ہو گا کہ یہ اعمال اس کے حق میں ہوں گے نہ اس کے خلاف ہوں گے۔ ﴿ وَّوَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ﴾ ’’بلکہ وہ وہاں اللہ کو موجود پاتا ہے جو اس کا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے۔‘‘ اس پر اس کا معمولی سا عمل بھی مخفی نہیں رہ سکے گا اور وہاں تھوڑا یا زیادہ عمل مفقود نہ ہو گا۔ ﴿ وَاللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ﴾ ’’اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ پس یہ جاہل لوگ اللہ تعالیٰ کے وعدے کو دور نہ سمجھیں ۔ یہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار کے اعمال کو سراب کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو ایسے دشت بے آب و گیاہ میں نظر آتا ہے جہاں کوئی درخت ہوتا ہے نہ نباتات۔ کفار کے دلوں کی یہی مثال ہے جن میں کوئی بھلائی اور کوئی نیکی نہیں ہوتی۔ پس وہ وہاں اعمال خیر چھوڑ دیتے ہیں ، ایک مانع کی وجہ سے اور وہ کفر ہے۔ کفار کے اعمال کے بطلان کو واضح کرنے کے لیے یہ دوسری مثال ہے۔ ﴿ اَوْؔ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّ٘جِّیٍّ ﴾ ’’یا (ان کے عملوں کی مثال) ان اندھیروں کی سی ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں ہوں ۔‘‘ اتھاہ اور بے کراں سمندر ﴿ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ١ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ﴾ ’’جس پر لہر چلی آتی ہو اور اس کے اوپر دوسری لہر اور اس کے اوپر بادل ہو، غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ، ایک پر ایک۔‘‘ بحربے پایاں کی تاریکی، پھر اس پر ایک دوسری کے اوپر سوار موجوں کی تاریکی، پھر بادلوں کا گھٹاٹوپ اندھیرا اور پھر سیاہ رات کا اندھیرا… اور جہاں یہ حال ہو تو تاریکی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ﴿اِذَاۤ اَخْرَجَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَا﴾ ’’جب آدمی اپنے ہاتھ کو نکالتا ہے تو اسے (اپنے قریب ہونے کے باوجود بھی) نہیں دیکھ پاتا‘‘ پھر دوسری چیزوں کو کیسے دیکھ سکتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [39]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF