Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 24
- SuraName
- تفسیر سورۂ نور
- SegmentID
- 1034
- SegmentHeader
- AyatText
- {21} ولما نهى عن هذا الذنب بخصوصِهِ؛ نهى عن الذُّنوب عموماً، فقال: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تتَّبِعوا خطواتِ الشيطانِ}؛ أي: طرقَه ووساوسَه. وخطواتُ الشيطان يدخُلُ فيها سائرُ المعاصي المتعلِّقة بالقلب واللسان والبدن. ومن حكمتِهِ تعالى أن بيَّن الحُكْمَ ـ وهو النهي عن اتِّباع خطوات الشيطان ـ والحِكْمة ـ وهو بيانُ ما في المنهيِّ عنه من الشرِّ المقتضي والداعي لتركه ـ، فقال: {ومَن يَتَّبِعْ خُطُواتِ الشيطانِ فإنَّه}؛ أي: الشيطان {يأمُرُ بالفحشاءِ}؛ أي: ما تستفحشُه العقول والشرائعُ من الذُّنوب العظيمة مع ميل بعض النفوس إليه، {والمنكَرِ}: وهو ما تُنْكِرُهُ العقولُ ولا تعرِفُه؛ فالمعاصي التي هي خُطُوات الشيطان لا تَخْرُجُ عن ذلك، فنهى الله عنها العبادَ نعمةً منه عليهم أن يشكُروه ويَذْكُروه؛ لأنَّ ذلك صيانةٌ لهم عن التدنُّس بالرذائل والقبائح؛ فمن إحسانِهِ عليهم أنْ نهاهم عنها كما نهاهم عن أكل السموم القاتلة ونحوها. {ولولا فضلُ اللهِ عليكُم ورحمتُهُ ما زكى منكُم من أحدٍ أبداً}؛ أي: ما تطهَّر من اتِّباع خطواتِ الشيطانِ؛ لأنَّ الشيطان يسعى هو وجندُه في الدعوة إليها وتحسينِها، والنفس ميالةٌ إلى السوء أمَّارةٌ به، والنقصُ مستولٍ على العبدِ من جميع جهاتِهِ، والإيمانُ غير قويٍّ؛ فلو خُلِّي وهذه الدواعي؛ ما زكى أحدٌ بالتطهُّرِ من الذُّنوب والسيئات والنماء بفعل الحسنات؛ فإنَّ الزكاء يتضمَّن الطهارة والنماء، ولكنَّ فضلَه ورحمتَه أوجبا أن يتزكَّى منكم من تزكَّى، وكان من دعاء النبيِّ - صلى الله عليه وسلم -: «اللهمَّ! آتِ نفسي تَقْواها، وزكِّها أنت خيرُ من زَكَّاها، أنت وَلِيُّها ومولاها». ولهذا قال: {ولكنَّ الله يزكِّي مَن يشاءُ}: من يعلمُ منه أن يتزكَّى بالتزكية، ولهذا قال: {والله سميعٌ عليمٌ}.
- AyatMeaning
- [21] جہاں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس گناہ کے ارتکاب سے منع کیا ہے وہاں عام طور پر دیگر گناہوں کے ارتکاب سے بھی روکا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ ﴾ ’’اے ایمان والو! شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔‘‘ یعنی اس کے طریقوں اور اس کے وسوسوں کی پیروی نہ کرو۔ (خطوات الشیطان) ’’شیطان کے نقش قدم‘‘ میں وہ تمام گناہ داخل ہیں جو قلب، زبان اور بدن سے متعلق ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے تمھارے سامنے حکم واضح کیا اور وہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے ممانعت ہے۔ اور حکمت ممنوع شدہ چیز میں جو شر ہے اس کے بیان کو کہتے ہیں جو اسے ترک کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کا داعی ہے۔ فرمایا:﴿ وَمَنْ یَّتَّ٘بِـعْ خُطُوٰتِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ فَاِنَّهٗ﴾ ’’اور جو پیروی کرتا ہے شیطان کے قدموں کی تو بے شک وہ‘‘ یعنی شیطان﴿ یَ٘اْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ ﴾ ’’حکم دیتا ہے فحشاء کا۔‘‘ (فحشاء) سے مراد وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جن کو ان کی طرف بعض نفوس کے میلان کے باوجود شریعت اور عقل برا سمجھتی ہے۔﴿ وَالْمُنْؔكَرِ﴾ ’’اور منکر کا‘‘ اور (منکر) وہ گناہ ہیں جن کا عقل انکار کرتی ہے۔ پس تمام گناہ جو شیطان کے نقوش پا ہیں وہ اس صفت سے باہر نہیں نکلتے،اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ان گناہوں کے ارتکاب سے روکنا، ان پر اس کی نعمت کا فیضان ہے، وہ اس کا شکر ادا کریں اور اس کا ذکر کریں کیونکہ یہ ممانعت رذائل اور قبائح کی گندگی سے ان کی حفاظت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر احسان ہے کہ اس نے بندوں کو گناہوں کے ارتکاب سے روکا جس طرح اس نے ان کو زہر قاتل وغیرہ کھانے سے روکا ہے۔ ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَؔكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ﴾ ’’اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک نہ ہوتا۔‘‘ یعنی تم میں سے کوئی بھی شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر بندوں کو اپنے نقش قدم کی پیروی کرنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں اور گناہوں کو ان کے سامنے مزین کرتے رہتے ہیں اور نفس کی حالت تو یہ ہے کہ ہمیشہ برائی کی طرف مائل رہتا ہے، بندے کو برائی کے ارتکاب کا حکم دیتا رہتا ہے اور نقص ہر جہت سے بندے پر غالب ہے اور ایمان قوی نہیں ہے اگر بندے کو ان داعیوں کے حوالے کر دیا جائے تو کوئی شخص بھی گناہوں اور برائیوں سے بچ کر اور نیکیوں کے اکتساب کے ذریعے پاک نہیں ہو سکتا کیونکہ ’’تزکیہ‘‘ طہارت اور بڑھاؤ کا متضمن ہے۔ تم میں سے جس کسی نے اپنا تزکیہ کر لیا تو اس کے موجب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہیں ۔ نبی مصطفی e یہ دعا کیا کرتے تھے: ’اللّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِی تَقْوَاھَا وَزَکِّھَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاھَا اَنْتَ وَلِیُّھَا وَمَوْلَاھَا‘ ’’اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا کر، اسے پاک کر تو سب سے اچھا پاک کرنے والا ہے۔ تو اس کا والی اور مولا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب فی الادعیۃ، ح: 2722 و سنن النسائي، الاستعاذۃ، باب الاستعاذۃ من العجز، ح:5460) بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَؔكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’اور لیکن اللہ پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ اسی کو پاک کرتا ہے جس کے بارے میں اسے علم ہے کہ وہ تزکیہ کے ذریعے سے پاک ہونا چاہتا ہے اسی لیے فرمایا:﴿ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [21]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF