Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
115
SegmentHeader
AyatText
{220} لما نزل قوله تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلماً إنما يأكلون في بطونهم ناراً وسيصلون سعيراً}؛ شق ذلك على المسلمين وعزلوا طعامهم عن طعام اليتامى خوفاً على أنفسهم من تناولها ولو في هذه الحالة التي جرت العادة بالمشاركة فيها، وسألوا النبي - صلى الله عليه وسلم -، عن ذلك ، فأخبرهم تعالى أن المقصود إصلاح أموال اليتامى بحفظها وصيانتها والاتجار فيها، وأن خلطتهم إياهم في طعام وغيره جائز على وجه لا يضر باليتامى لأنهم إخوانكم ومن شأن الأخ مخالطة أخيه، والمرجع في ذلك إلى النية والعمل، فمن علم [اللهُ] من نيته أنه مصلح لليتيم وليس له طمع في ماله فلو دخل عليه شيء من غير قصد لم يكن عليه بأس، ومن علم الله من نيته أن قصده بالمخالطة التوصل إلى أكلها [وتناولها] فذلك الذي حُرِّجَ وأُثِّم، والوسائل لها أحكام المقاصد. وفي هذه الآية دليل على جواز أنواع المخالطات في المآكل والمشارب والعقود وغيرها، وهذه الرخصة لطف من الله تعالى وإحسان وتوسعة على المؤمنين وإلا، فلو {شاء الله لأعنتكم}؛ أي: شق عليكم بعدم الرخصة بذلك فحُرِّجْتُم وشُقَّ عليكم وأثمتم {إن الله عزيز}؛ أي: له القوة الكاملة والقهر لكل شيء ولكنه مع ذلك {حكيم}؛ لا يفعل إلا ما هو مقتضى حكمته الكاملة وعنايته التامة فعزته لا تنافي حكمته فلا يقال إنه ما شاء فعل وافق الحكمة أو خالفها، بل يقال إن أفعاله وكذلك أحكامه تابعة لحكمته فلا يخلق شيئًا عبثًا بل لا بد له من حكمة عرفناها أم لم نعرفها، وكذلك لم يشرع لعباده شيئًا مجردًا عن الحكمة، فلا يأمر إلا بما فيه مصلحة خالصة أو راجحة ولا ينهى إلا عما فيه مفسدة خالصة أو راجحة لتمام حكمته ورحمته.
AyatMeaning
[220] جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَ٘اْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْ٘یَ٘تٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَ٘اْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا١ؕ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا﴾ (النساء : 4؍10) ’’بے شک وہ لوگ جو ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘ تو یہ آیت کریمہ مسلمانوں پر بہت شاق گزری اور انھوں نے یتیموں کے کھانے سے اپنے کھانے کو اس خوف سے علیحدہ کر لیا کہ کہیں وہ ان کا کھانا تناول نہ کر بیٹھیں۔ اگرچہ ان حالات میں اموال میں شراکت کی عادت جاری و ساری رہی۔ پس صحابہ کرامyنے اس بارے میں رسول اللہeسے سوال کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ اصل مقصد تو یتیموں کے مال کی اصلاح، اس کی حفاظت اور (اضافے کی خاطر) اس کی تجارت ہے اگر ان کا مال دوسرے مال میں اس طرح ملا لیا جائے کہ یتیم کے مال کو نقصان نہ پہنچے تو یہ جائز ہے، کیونکہ یہ تمھارے بھائی ہیں اور بھائی کی شان یہ ہے کہ وہ دوسرے بھائی سے مل جل کر رہتا ہے۔ اس بارے میں اصل معاملہ نیت اور عمل کا ہے۔ جس کی نیت کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ یتیم کے لیے مصلح کی حیثیت رکھتا ہے، اور اسے یتیم کے مال کاکوئی لالچ نہیں، تو اگر بغیر کسی قصد کے اس کے پاس کوئی چیز آ بھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جس کی نیت، اللہ کے علم میں، یتیم کے مال کو اپنے مال میں ملانے سے اس کوہڑپ کرنا ہو تو اس میں یقیناً حرج اور گناہ ہے اور قاعدہ ہے (اَلْوَسَائِلُ لَھَا اَحْکَامُ الْمَقَاصِدِ ) ’’وسائل کے وہی احکام ہیں جو مقاصد کے ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ماکولات و مشروبات اور عقود وغیرہ میں مخالطت (مل جل کر کرنا) جائز ہے اور یہ رخصت اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان اور ان کے لیے وسعت ہے۔ ورنہ ﴿وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ﴾ ’’اگر اللہ چاہتا تو تمھیں دشواری میں مبتلا کر دیتا۔‘‘ یعنی اس بارے میں عدم رخصت تم پر بہت شاق گزرتی اور تم حرج، مشقت اور گناہ میں مبتلا ہو جاتے ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ ’’بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی وہ قوت کاملہ کا مالک ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے۔ لیکن بایں ہمہ وہ حکمت والا ہے، وہ صرف وہی فعل سرانجام دیتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کاملہ اور عنایت تامہ کرتی ہے۔ پس اس کی عزت و غلبہ اس کی حکمت کے منافی نہیں ہے لہٰذا اللہ تبارک وتعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے خواہ اس کی حکمت کے مطابق ہو یا مخالف ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یوں کہا جائے گا کہ اس کے افعال اور احکام اس کی حکمت کے تابع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو عبث پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے خواہ اس حکمت تک ہماری رسائی ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کوئی ایسا شرعی حکم مشروع نہیں کیا جو حکمت سے خالی ہو، اس لیے وہ صرف اس بات کا حکم دیتا ہے جس میں ضرور کوئی فائدہ ہو یا فائدہ غالب ہو اور اسی طرح منع بھی صرف اسی بات سے کرتا ہے جس میں یقینی نقصان یا نقصان کا غالب امکان ہو، اور ایسا اس لیے ہے کہ اس کا ہر کام حکمت اور رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[220
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List