Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 112
- SegmentHeader
- AyatText
- {217} الجمهور على أن تحريم القتال في الأشهر الحرم منسوخ بالأمر بقتال المشركين حيثما وجدوا. وقال بعض المفسرين: إنه لم ينسخ لأن المطلق محمول على المقيد، وهذه الآية مقيدة لعموم الأمر بالقتال مطلقاً، ولأن من جملة مزية الأشهر الحرم بل أكبر مزاياها تحريم القتال فيها، وهذا إنما هو في قتال الابتداء وأما قتال الدفع فإنه يجوز في الأشهر الحرم كما يجوز في البلد الحرام. ولما كانت هذه الآية نازلة بسبب ما حصل لسرية عبد الله بن جحش وقتلهم عمرو بن الحضرمي وأخذهم أموالهم ـ وكان ذلك على ما قيل في شهر رجب ـ عيرهم المشركون بالقتال بالأشهر الحرم وكانوا في تعييرهم ظالمين إذ فيهم من القبائح ما بعضه أعظم مما عيروا به المسلمين، قال تعالى في بيان ما فيهم: {وصد عن سبيل الله}؛ أي: صد المشركين من يريد الإيمان بالله وبرسوله وفتنتهم من آمن به وسعيهم في ردهم عن دينهم وكفرهم الحاصل في الشهر الحرام والبلد الحرام الذي هو بمجرده كاف في الشرِّ، فكيف وقد كان في شهر حرام وبلد حرام {وإخراج أهله}؛ أي: أهل المسجد الحرام وهم النبي - صلى الله عليه وسلم -، وأصحابه لأنهم أحق به من المشركين وهم عُمَّاره على الحقيقة فأخرجوهم {منه}؛ ولم يمكنوهم من الوصول إليه مع أن هذا البيت سواء العاكف فيه والباد، فهذه الأمور كل واحد منها {أكبر من القتل}؛ في الشهر الحرام فكيف وقد اجتمعت فيهم فعلم أنهم فسقة ظلمة في تعييرهم المؤمنين. ثم أخبر تعالى أنهم لن يزالوا يقاتلون المؤمنين، وليس غرضهم في أموالهم وقتلهم وإنما غرضهم أن يرجعوهم عن دينهم ويكونوا كفاراً بعد إيمانهم حتى يكونوا من أصحاب السعير، فهم باذلون قدرتهم في ذلك ساعون بما أمكنهم ويأبى الله إلا أن يتم نوره ولو كره الكافرون. وهذا الوصف عامٌّ لكل الكفار لا يزالون يقاتلون غيرهم حتى يردوهم عن دينهم، وخصوصاً أهل الكتاب من اليهود والنصارى الذين بذلوا الجمعيات، ونشروا الدعاة، وبثوا الأطباء، وبنوا المدارس لجذب الأمم إلى دينهم، وتدخيلهم عليهم كل ما يمكنهم من الشبه التي تشككهم في دينهم، ولكن المرجو من الله تعالى الذي منَّ على المؤمنين بالإسلام، واختار لهم دينه القيم، وأكمل لهم دينه أن يتم عليهم نعمته بالقيام به أتم قيام، وأن يخذل كل من أراد أن يطفئ نوره، ويجعل كيدهم في نحورهم، وينصر دينه، ويعلي كلمته وتكون هذه الآية صادقة على هؤلاء الموجودين من الكفار كما صدقت على من قبلهم {إن الذين كفروا ينفقون أموالهم ليصدوا عن سبيل الله، فسينفقونها ثم تكون عليهم حسرة ثم يغلبون، والذين كفروا إلى جهنم يحشرون}؛ ثم أخبر تعالى أن من ارتد عن الإسلام بأن اختار عليه الكفر واستمر على ذلك حتى مات كافراً {فأولئك حبطت أعمالهم في الدنيا والآخرة}؛ لعدم وجود شرطها وهو الإسلام {وأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون}. ودلت الآية بمفهومها أن من ارتد ثم عاد إلى الإسلام أنه يرجع إليه عمله [الذي قبل ردته]، وكذلك من تاب من المعاصي فإنها تعود إليه أعماله المتقدمة.
- AyatMeaning
- [217] جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں قتال کی حرمت اس آیت کے ذریعے سے منسوخ ہو گئی ہے جس میں حکم ہے کہ مشرکوں سے لڑو جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ۔ (اشارہ ہے البقرۃ؍191، النساء؍89،91 کی طرف۔ مترجم)اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں کیونکہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ قتال کے عام اور مطلق حکم کو مقید کرتی ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ حرام مہینوں کی جملہ خوبیوں میں سے ایک خوبی بلکہ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان مہینوں میں لڑائی حرام ہے۔ یہ حکم لڑائی کی ابتدا کرنے کے بارے میں ہے۔ رہی دفاعی جنگ تو یہ حرام مہینوں میں بھی جائز ہے، جیسے حرم کے اندر دفاعی جنگ لڑنا جائز ہے۔ اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ عبد اللہ بن جحشtکے سریہ میں مسلمانوں نے عمرو بن الحضرمی کو قتل کر دیا اور مشرکوں کا مال لوٹ لیا ۔۔۔روایات کے مطابق۔۔۔ یہ سریہ رجب کے مہینے میں واقع ہوا تھا، اس لیے مشرکین نے عار دلائی کہ مسلمانوں نے حرام مہینوں میں لڑائی کی ہے، حالانکہ اس عار دلانے میں وہ زیادتی کا ارتکاب کر رہے تھے، کیونکہ خود ان میں بہت سی برائیاں تھیں ان میں سے بعض برائیاں تو ایسی تھیں جو اس برائی سے بڑی تھیں جس پر مشرکین مسلمانوں کو عار دلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان برائیوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ ’’اور اللہ کی راہ سے روکنا۔‘‘ یعنی مشرکین کا لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے روکنا، اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالنا، ان کو ان کے دین سے ہٹا دینے کی کوشش کرنا اور حرمت والے مہینے اورحرمت والے شہر میں کفر کا ارتکاب کرنا وغیرہ۔ اور قباحت کے لیے تو مجرد کفر ہی کافی ہے۔۔۔۔ تب اس برائی کی شدت اور قباحت کا کیا حال ہو گا اگر اس کا ارتکاب حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کیا جائے۔ ﴿وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ﴾ ’’اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا‘‘ یعنی مسجد حرام میں عبادت کرنے والوں کو مسجد سے نکالنا، اس سے مراد نبی اکرمeاور صحابہ کرامyہیں، کیونکہ وہ مسجد حرام میں عبادت کرنے کے مشرکوں سے زیادہ حق دار ہیں۔ وہی درحقیقت مسجد حرام کو آباد کرنے والے ہیں۔ پس مشرکین نے ان کو مسجد حرام سے نکال دیا اور ان کے لیے مسجد حرام تک پہنچنا ممکن نہ رہا۔ حالانکہ یہ گھر مکہ کے رہنے والوں اور باہر کے لوگوں کے لیے برابر حیثیت رکھتا ہے۔ ﴿اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ﴾ ’’خون ریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔‘‘ یعنی ان تمام برائیوں میں سے ہر ایک برائی کی قباحت حرام مہینوں میں قتل کی قباحت سے بڑھ کر ہے۔ تب ان کا کیا حال ہے جب کہ ان کے اندر مذکورہ تمام برائیاں ہی جمع ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ یہ فاسق و فاجر لوگ ہیں اور اہل ایمان کو عار دلانے میں زیادتی سے کام لے رہے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مشرکین اہل ایمان سے لڑتے رہیں گے اور اس لڑائی سے ان کی غرض اہل ایمان کوقتل کرنا یا ان کے اموال لوٹنا نہیں، بلکہ ان کی غرض و غایت صرف یہ ہے کہ اہل ایمان اپنا دین چھوڑ کر پھر کفر کی طرف لوٹ جائیں اور اس طرح وہ پھر سے جہنمیوں کے گروہ میں شامل ہو جائیں۔ پس وہ مسلمانوں کو اپنے دین سے پھیرنے کے لیے پوری قوت استعمال کر رہے ہیں اور امکان بھر اسی کوشش میں مصروف ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کی روشنی کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کفار کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ تمام کفار کا عام طور پر یہی رویہ ہے وہ دوسرے لوگوں سے ہمیشہ برسرپیکار رہیں گے جب تک کہ ان کو اپنے دین سے پھیر نہ دیں۔ خاص طور پر یہود و نصاری نے اس مقصد کے لیے جماعتیں تشکیل دیں، اپنے داعی بھیجے، طبیب پھیلائے اور مدارس قائم کیے، تاکہ دوسری قوموں کو اپنے مذہب میں جذب کر لیں۔ ان کے اذہان میں ہر وہ شبہ ڈال دیں جو ان کے دین میں شک پیدا کرے مگر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے اہل ایمان کو اسلام جیسی نعمت عطا کر کے احسان فرمایا اور اپنے اس دین قیم کو ان کے لیے چن لیا اور اپنے دین کو ان کے لیے مکمل کیا، ان پر اپنی نعمت کو قائم کرے گا، پوری طرح اس کا اتمام کرے گا اور ہر اس طاقت کو پسپا کر دے گاجو اس کے دین کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کرے گی، وہ ان کی چالوں کو ان کے سینوں ہی میں کچل کر رکھ دے گا اور وہ اپنے دین کی مدد اور اپنے کلمہ کو ضرور بلند کرے گا۔ اور سورۃالانفال کی یہ آیت کریمہ جس طرح پہلے کفار پر صادق آتی تھی، اسی طرح یہ موجودہ کفار پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ١ؕ۬ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ﴾ (الانفال 8؍36) ’’بے شک وہ لوگ جو کافر ہیں وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ وہ عنقریب ابھی اور مال خرچ کریں گے آخر کار یہ مال خرچ کرنا ان کے لیے حسرت کا باعث بنے گا اور وہ مغلوب ہوں گے اور وہ لوگ جو کافر ہیں ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جو کوئی مرتد ہو کر اسلام کو چھوڑ دے اور کفر کو اختیار کرے، ہمیشہ کفر پر قائم رہے حتی کہ کفر کی حالت میں مر جائے ﴿فَاُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ﴾ ’’تو دنیا و آخرت میں ان کے تمام اعمال اکارت جائیں گے‘‘ کیونکہ ان اعمال کی قبولیت کی شرط یعنی اسلام موجود نہیں ہے ﴿وَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’اور یہی لوگ دوزخ والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی مرتد ہونے کے بعد پھر دین اسلام کی طرف لوٹ آئے، تو اس کا عمل اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ جو اس نے مرتد ہونے سے پہلے کیا تھا۔ اسی طرح جو کوئی گناہوں سے تائب ہو جاتا ہے تو اس کے سابقہ اعمال اس کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [217
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF