Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
22
SuraName
تفسیر سورۂ حج
SegmentID
999
SegmentHeader
AyatText
{67} يخبر تعالى أنَّه جَعَلَ لكلِّ أمةٍ {مَنْسَكاً}؛ أي: معبداً وعبادةً، قد تختلفُ في بعض الأمور، مع اتِّفاقها على العدل والحكمة؛ كما قال تعالى: {لكلٍّ جَعَلْنا منكم شِرْعةً ومنهاجاً ولو شاءَ اللهُ لَجَعَلَكُم أمَّةً واحدةً ولكن لِيَبْلُوَكُم فيما آتاكم ... } الآية، {هم ناسِكُوه}؛ أي: عاملون عليه بحسب أحوالهم؛ فلا اعتراض على شريعةٍ من الشرائع، خصوصاً من الأميين أهل الشرك والجهل المبين؛ فإنَّه إذا ثبتت رسالةُ الرسول بأدلتها؛ وجب أن يُتَلَقَّى جميع ما جاء به بالقَبول والتسليم وترك الاعتراض، ولهذا قال: {فلا ينازِعُنَّكَ في الأمر}؛ أي: لا ينازِعُك المكذِّبون لك، ويعترِضون على بعض ما جئتَهم به بعقولهم الفاسدة؛ مثلَ منازعتِهِم في حلِّ الميتةِ بقياسهم الفاسد؛ يقولونَ: تأكلونَ ما قَتَلْتُم ولا تأكلونَ ما قَتَلَ الله؟! وكقولهم: {إنَّما البيعُ مثلُ الرِّبا} ... ونحو ذلك من اعتراضاتهم التي لا يلزم الجواب عن أعيانها، وهم منكرون لأصل الرسالة، وليس فيها مجادلةٌ ومحاجَّةٌ بانفرادها، بل لكلِّ مقام مقال؛ فصاحب هذا الاعتراض المنكِرُ لرسالة الرسول إذا زَعَمَ أنَّه يجادِل ليسترشدَ؛ يُقال له: الكلامُ معك في إثبات الرِّسالة وعدمها، وإلاَّ؛ فالاقتصارُ على هذه دليلٌ أنَّ مقصوده التعنت والتعجيز، ولهذا أمر اللَّهُ رسولَه أن يدعُو إلى ربِّه بالحكمة والموعظة الحسنة ويمضي على ذلك؛ سواءً اعترضَ المعترِضون أم لا، وأنه لا ينبغي أن يَثْنيكَ عن الدَّعوةِ شيءٌ؛ لأنَّك على {هدىً مستقيم}؛ أي: معتدلٍ، موصل للمقصودِ، متضمنٍ علم الحقِّ والعمل به؛ فأنت على ثقةٍ من أمرك ويقينٍ من دينك، فيوجِبُ ذلك لك الصلابة والمضيَّ لما أمرك به ربُّك، ولست على أمرٍ مشكوكٍ فيه أو حديثٍ مفترى، فتقف مع الناس ومع أهوائهم وآرائهم ويوقِفُك اعتراضُهم، ونظير هذا قولُه تعالى: {فتوكَّلْ على اللهِ إنَّك على الحقِّ المبينِ}. مع أنَّ في قوله: {إنَّك لعلى هدىً مستقيم}: إرشاداً لأجوبة المعترضين على جزئيَّات الشرع بالعقل الصحيح؛ فإنَّ الهدى وصفٌ لكلِّ ما جاء به الرسول، والهدى ما تحصُلُ به الهدايةُ في مسائل الأصول والفروع، وهي المسائل التي يُعْرَفُ حسنُها وعدلُها وحكمتُها بالعقل والفطرة السليمة، وهذا يُعْرَفُ بتدبُّر تفاصيل المأمورات والمنهيَّاتِ.
AyatMeaning
[67] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ہر امت کے لیے ﴿ مَنْسَكًا ﴾ ایک عبادت مقرر کی ہے جو عدل و حکمت پر متفق ہونے کے باوجود بعض امور میں مختلف ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ لِكُ٘لٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا١ؕ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّیَبْلُوَؔكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ ﴾ (المائدۃ:5؍48) ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک گروہ کے لیے ایک شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا مگر اس نے جو احکام تمھیں دیے ہیں وہ ان میں تمھیں آزمانا چاہتا ہے۔‘‘ ﴿ هُمْ نَاسِكُوْهُ ﴾ یعنی وہ اس پر اپنے احوال کے مطابق عمل پیرا ہیں ، اس لیے ان شریعتوں میں سے کسی شریعت پر اعتراض کی گنجائش نہیں ، خاص طور پر ان پڑھوں کے لیے جو شرک اور کھلی جہالت میں مبتلا ہیں کیونکہ جب رسول کی رسالت دلائل کے ساتھ ثابت ہو گئی تو اس پر اعتراض کو ترک کرنا، ان تمام احکام کو قبول کرنا اور ان کے سامنے سرتسلیم کرنا واجب ہے، جو رسول لے کر آیا ہے، بناء بریں فرمایا: ﴿ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ ﴾ یعنی آپe کی تکذیب کرنے والے اپنی فاسد عقل کی بنیاد پر آپ کے ساتھ جھگڑا کریں نہ آپ کی لائی ہوئی کتاب پر اعتراض کریں ، جیسے وہ اپنے فاسد قیاس کی بنا پر مردار کی حلت کے بارے میں آپe سے جھگڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جسے تم قتل کرتے ہو اسے تو کھا لیتے ہو اور جسے اللہ تعالیٰ قتل کرتا ہے اسے نہیں کھاتے‘‘ اور جیسے وہ سود کی حلت کے لیے کہتے ہیں : ’’تجارت بھی تو سود ہی کی مانند ہے‘‘ اور اس قسم کے دیگر اعتراضات، جن کا جواب دینا لازم نہیں ۔ وہ درحقیقت، اصل رسالت ہی کے منکر ہیں ، جس میں کسی بحث اور مجادلے کی گنجائش نہیں بلکہ ہر مقام کے لیے ایک الگ دلیل اور گفتگو ہے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والا، منکر رسالت جب یہ دعویٰ کرے کہ وہ تو صرف تلاش حق کے لیے بحث کرتا ہے تو اس سے یہ کہا جائے: ’’آپ کے ساتھ صرف رسالت کے اثبات اور عدم اثبات پر گفتگو ہو سکتی ہے‘‘ ورنہ اس کا صرف اپنی بات پر اقتصار کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد محض عاجز کرنا اور مشقت میں ڈالنا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلائیں اور اسی رویے کو اپنائے رکھیں ، خواہ معترضین اعتراض کریں یا نہ کریں اور یہ مناسب نہیں کہ کوئی چیز آپ کو اس دعوت سے ہٹا دے کیونکہ ﴿اِنَّكَ لَ٘عَ٘لٰ٘ى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ ’’یقینا آپe سیدھے راستے پر ہیں ‘‘ جو معتدل اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے اور علم حق اور اس پر عمل کا متضمن ہے۔ آپ کو اپنی دعوت کی حقانیت پر اعتماد اور اپنے دین پر یقین ہے، لہٰذا یہ اعتماد اور یقین اس امر کے موجب ہیں کہ آپe اپنے موقف پر سختی سے جمے رہیں اور وہ کام کرتے رہیں جس کا آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے۔ آپe کا موقف مشکوک اور کمزور نہیں یا آپ کی دعوت جھوٹ پر مبنی نہیں کہ آپ لوگوں کی خواہشات نفس اور ان کی آراء کی طرف التفات کریں اور ان کا اعتراض آپe کی راہ کو کھوٹا کر دے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِیْنِ ﴾ (النمل:27؍79) ’’اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے، بے شک آپ واضح حق پر ہیں ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اِنَّكَ لَ٘عَ٘لٰ٘ى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ میں جزئیات شرع پر معترضین کے اس اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ ہے جو عقل صحیح پر مبنی ہے کیونکہ ہدایت ہر اس چیز کا وصف ہے جسے رسول لے کر آئے ہیں ۔ ہدایت وہ طریق کار ہے جس سے اصولی اور فروعی مسائل میں راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا حسن اور جن میں پنہاں عدل و حکمت عقل صحیح اور فطرت سلیم کے نزدیک معروف ہے اور یہ چیز مامورات و منہیات کی تفاصیل پر غور کرنے سے معلوم کی جا سکتی ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[67]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List