Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 22
- SuraName
- تفسیر سورۂ حج
- SegmentID
- 988
- SegmentHeader
- AyatText
- {40} ثم ذكر صفة ظلمهم، فقال: {الذين أُخْرِجوا من ديارِهم}؛ أي: ألجئوا إلى الخروج بالأذيَّة والفتنة، {بغير حقٍّ إلاَّ}: أن ذنبهم الذي نقم منهم أعداؤهم، {أن يَقولوا ربُّنا الله}؛ أي: إلاَّ أنَّهم وحَّدوا الله وعبدوه مخلصينَ له الدِّين؛ فإنْ كان هذا ذنباً؛ فهو ذنبهم؛ كقوله تعالى: {وما نَقَموا منهم إلاَّ أن يُؤْمِنوا بالله العزيز الحميد}: وهذا يدلُّ على حكمة الجهاد؛ فإنَّ المقصود منه إقامةُ دين الله، أو ذبُّ الكفار المؤذين للمؤمنين البادئين لهم بالاعتداء عن ظلمهم واعتدائهم، والتمكُّن من عبادةِ الله وإقامة الشرائع الظاهرة، ولهذا قال: {ولولا دَفْعُ الله الناسَ بعضَهم ببعض}: فيدفعُ الله بالمجاهدين في سبيله ضررَ الكافرين؛ {لَهُدِّمَتْ صوامعُ وبِيَعٌ وصلواتٌ ومساجدُ}؛ أي: لَهُدِّمَتْ هذه المعابد الكبار لطوائف أهل الكتاب معابد اليهود والنصارى والمساجد للمسلمين. {يُذْكَرُ فيها}؛ أي: في هذه المعابد {اسمُ الله كثيراً}: تُقام فيها الصلواتُ، وتُتْلى فيها كتب الله، ويُذكر فيها اسمُ الله بأنواع الذِّكْر؛ فلولا دفعُ الله الناس بعضَهم ببعض؛ لاستولى الكفارُ على المسلمين، فخرَّبوا معابدهم وفَتَنوهم عن دينهم، فدلَّ هذا أنَّ الجهاد مشروعٌ لأجل دفع الصائل والمؤذي، ومقصودٌ لغيره. ودلَّ ذلك على أنَّ البلدان التي حصلت فيها الطمأنينة بعبادة الله، وعُمِّرَتْ مساجدها، وأقيمت فيها شعائرُ الدين كلُّها من فضائل المجاهدين وبركتهم، دفع الله عنها الكافرين؛ قال الله تعالى: {ولولا دَفْعُ اللهِ الناسَ بعضَهم ببعض لَفَسَدَتِ الأرضُ ولكنَّ الله ذو فضل على العالمينَ}. فإنْ قلتَ: نرى الآن مساجد المسلمينَ عامرةً لم تَخْرَبْ؛ مع أنَّها كثيرٌ منها إمارة صغيرة وحكومة غير منظَّمة، مع أنَّهم لا يدان لهم بقتال مَنْ جاوَرَهم من الإفرنج، بل نرى المساجد التي تحتَ ولايتهم وسيطرتهم عامرةً، وأهلُها آمنون مطمئنُّون؛ مع قدرةِ ولاتِهِم من الكفَّار على هدمها، واللهُ أخبر أنه لولا دَفْعُ الله الناسَ بعضَهم ببعضٍ؛ لَهُدِّمَتْ هذه المعابد، ونحن لا نشاهد دفعا؟ أجيب بأنَّ جواب هذا السؤال والاستشكال داخلٌ في عموم هذه الآية وفردٌ من أفرادها؛ فإنَّ مَنْ عَرَفَ أحوال الدول الآن ونظامها، وأنها تعتبرُ كلَّ أمَّةٍ وجنس تحتَ ولايتها وداخل في حكمها؛ تعتبرُهُ عضواً من أعضاء المملكة وجزءاً من أجزاء الحكومة، سواء كانت تلك الأمةُ مقتدرةً بعددها أو عُددها أو مالها أو علمها أو خدمتها، فتراعي الحكوماتُ مصالح ذلك الشعب الدينيَّة والدنيويَّة، وتخشى إنْ لم تفعلْ ذلك أن يختلَّ نظامُها وتفقدَ بعضَ أركانها، فيقوم من أمر الدين بهذا السبب ما يقوم، خصوصاً المساجد؛ فإنَّها ولله الحمد في غاية الانتظام، حتى في عواصم الدول الكبار، وتراعي تلك الدول الحكومات المستقلة؛ نظراً لخواطر رعاياهم المسلمين، مع وجود التحاسدِ والتباغُض بين دول النصارى، الذي أخبر الله أنه لا يزال إلى يوم القيامةِ، فتبقى الحكومة المسلمة التي لا تقدِرُ تدافعُ عن نفسها سالمةً من كثيرِ ضررهم ؛ لقيام الحسدِ عندهم؛ فلا يقدِرُ أحدُهم أن يمدَّ يدَه عليها، خوفاً من احتمائِها بالآخرِ، مع أنَّ الله تعالى لا بدَّ أن يُري عبادَه من نصر الإسلام والمسلمين ما قد وَعَدَ به في كتابه، وقد ظهرتْ ولله الحمدُ أسبابُه بشعور المسلمين بضرورة رجوعِهِم إلى ديِنِهم، والشعورُ مبدأ العمل؛ فنحمَدُه ونسأله أن يُتِمَّ نعمتَه، ولهذا قال في وعدِهِ الصادق المطابق للواقع: {وَلَيَنصُرَنَّ اللهُ من يَنصُرُه}؛ أي: يقوم بنصر دينِهِ، مخلصاً له في ذلك، يقاتِلُ في سبيله لتكونَ كلمةُ الله هي العليا. {إنَّ الله لقويٌّ عزيزٌ}؛ أي: كامل القوة، عزيزٌ، لا يُرام، قد قهر الخلائق وأخذ بنواصيهم. فأبشروا يا معشر المسلمين؛ فإنَّكم وإنْ ضَعُفَ عددُكم وعُددُكم وقوي عددُ عدوِّكم ؛ فإنَّ ركنَكم القويَّ العزيز ومعتمدكم على مَنْ خَلَقَكُم وخَلَقَ ما تعملون؛ فاعملوا بالأسباب المأمور بها، ثم اطلبوا منه نصرَكم؛ فلا بدَّ أن ينصركم، {يا أيَّها الذين آمنوا إن تَنصُروا الله يَنصُرْكُم ويثبِّتْ أقدامكَم}، وقوموا أيُّها المسلمون بحقِّ الإيمان والعمل الصالح؛ فقد {وَعَدَ الله الذين آمنوا وعملوا الصالحات لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم في الأرض كما اسْتَخْلَفَ الذين من قَبْلِهِم ولَيُمَكِّنَنَّ لهم دينَهم الذي ارتضى لهم وَلَيُبَدِّلَنَّهُم من بعدِ خوفهم أمناً يعبُدونني لا يشرِكونَ بي شيئاً}.
- AyatMeaning
- [40] پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کے ظلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَ٘ارِهِمْ ﴾ یعنی ان کو اذیتوں اور فتنے میں مبتلا کرکے اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا ﴿ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ ﴾ یعنی ناحق اور ان کا گناہ اس کے سوا کچھ نہیں جس کی بنا پر ان کے دشمن ناراض ہوکران کو سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں کہ وہ ﴿ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ﴾ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، یعنی ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرتے ہیں اور دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے، اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنا گناہ ہے تو وہ ضرور گنہگار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ﴾ (البروج:85؍8) ’’وہ اہل ایمان سے صرف اس بات پر ناراض ہیں کہ اللہ تعالیٰ غالب اور قابل ستائش پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘ یہ آیت کریمہ جہاد کی حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ جہاد کا مقصد اقامت دین یا اہل ایمان کا کفار کی اذیتوں ، ان کے ظلم اور ان کی تعدی سے دفاع کرنا ہے جو اہل ایمان پر ظلم و زیادتی کی ابتدا کرتے ہیں ، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ممکن بنایا جائے اور دین کے تمام ظاہری قوانین کو نافذ کیا جائے، اس لیے فرمایا: ﴿وَلَوْلَا دَفْ٘عُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ﴾ ’’اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے نہ ہٹاتا۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ مجاہدین فی سبیل اللہ کے ذریعے سے کفار کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کرتا ہے۔ ﴿ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ ﴾ یعنی یہ بڑے بڑے معابد منہدم کر دیے جاتے ہیں جو اہل کتاب کے مختلف گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں ، مثلاً: یہود و نصاریٰ کے معابد اور مسلمانوں کی مساجد۔ ﴿ یُذْكَرُ فِیْهَا﴾ ’’ذکر کیا جاتا ہے ان میں ‘‘ یعنی ان عبادت گاہوں میں ﴿ اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًا﴾ ’’اللہ کا نام بہت زیادہ۔‘‘ یعنی ان عبادت گاہوں کے اندر نماز قائم کی جاتی ہے، کتب الہیہ کی تلاوت ہوتی ہے اور مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیاجاتا ہے اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ روکے توکفار مسلمانوں پر غالب آجائیں ، ان کے معابد کو تباہ کر دیں اور دین کے بارے میں ان کو آزمائش میں مبتلا کر دیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جہاد جارح کی جارحیت اور ایذارسانی کا سدباب کرنے اور بعض دیگر مقاصد کے لیے مشروع کیا گیا ہے، نیز یہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ وہ شہر جہاں امن اور اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوتی ہے، اس کی مساجد آباد ہیں جہاں دین کے تمام شعائر قائم ہیں ، یہ مجاہدین کی فضیلت اور ان کی برکت کی وجہ سے ہے۔ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے کفار کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَلَوْ لَا دَفْ٘عُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ﴾ (البقرۃ:2؍251) ’’اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ ہٹاتا رہے تو زمین میں فساد برپا ہو جائے مگر اللہ تعالیٰ جہان والوں پر بڑا ہی فضل کرتا ہے۔‘‘ اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ ہم آج کل مسلمانوں کی مساجد کو آباد دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان مساجد میں ایک چھوٹی سی امارت اور ایک غیر منظم حکومت قائم ہوتی ہے حالانکہ ان پر اردگرد کے فرنگیوں کے خلاف جہاد لازم ہے بلکہ ہم ایسی مساجد بھی دیکھتے ہیں جو کفار کی حکومت اور ان کے انتظام کے تحت آباد ہیں ۔ اہل مسجد پر امن اور مطمئن ہیں حالانکہ کافر حکومتوں کو قدرت اور طاقت حاصل ہے کہ وہ ان مساجد کو منہدم کر دیں ۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ ہٹائے تو یہ معابد منہدم کر دیے جائیں اور ہم نے تو لوگوں کو ایک دوسرے کو ہٹاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس اعتراض اور اشکال کا جواب، اس آیت کریمہ کے عموم میں داخل اور اس کے افراد میں سے ایک فرد ہے۔ جو کوئی زمانہ ٔجدید کی حکومتوں کے حالات اور ان کے نظام کی معرفت رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ان حکومتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والا ہر گروہ اور ہر قوم کو، اس مملکت کا رکن، اس کے اجزائے حکومت میں سے ایک جزو تصور کیا جاتا ہے خواہ یہ گروہ اپنی تعداد کی بنا پر اقتدار میں ہو، خواہ اپنی حربی استعداد یا مال یا علم یا خدمات کی بنا پر اقتدار میں شریک ہو۔ حکومتیں اس گروہ کے دینی اور دنیاوی مصالح و مفادات کی رعایت رکھتی ہیں اور اس بات سے ڈرتی ہیں کہ اگر انھوں نے ان کے مصالح کی رعایت نہ رکھی تو حکومت کے انتظام میں خلل واقع ہو جائے گا اور حکومت کے بعض ارکان مفقود ہو جائیں گے۔ پس اس سبب سے دین کے معاملات قائم ہیں ۔ خاص طور پر مساجد کا نظم و نسق… اَلْحَمْدُللّٰہ… بہترین طریقے سے ہورہا ہے حتیٰ کہ بڑے بڑے ممالک کے درالحکومتوں میں مساجد کا انتظام انتہائی اچھے طریقے سے چل رہا ہے۔ ان ممالک کی حکومتیں ، اپنی مسلمان رعایا کی دل جوئی کی خاطر اس بات کا پورا خیال رکھتی ہیں ، حالانکہ ان نصرانی ممالک کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بغض اور حسد موجود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہ بغض اور حسد ان کے درمیان روز قیامت تک موجود رہے گا۔ پس مسلمان حکومت، جو اپنا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، ان کے آپس کے افتراق اور حسد کی وجہ سے ان کی جارحیت سے محفوظ رہتی ہے۔ کوئی ملک اس مسلمان ملک کے خلاف اس خوف سے جارحیت کا ارتکاب کرنے کی قدرت نہیں رکھتا کہ وہ کسی اور ملک کی حمایت اور مدد حاصل کرے گا۔ علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کا مشاہدہ کروائے جس کا اس نے اپنی کتاب میں وعدہ کررکھا ہے اور دین کی طرف مسلمانوں کے رجوع کی ضرورت کے شعور کے اجاگر ہونے کی بنا پر اس نصرت کے اسباب ظاہر ہو گئے ہیں … وللہ الحمد … اور شعور عمل کی بنیاد ہے … ہم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی نعمت کا اتمام کرے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا جو واقع کے مطابق سچ ثابت ہوا، فرمایا: ﴿ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ﴾ یعنی وہ پوری قوت کا مالک اور غالب ہے اس کے سامنے کسی کی کوئی مجال نہیں ۔ وہ تمام مخلوق پر غالب ہے ان کی پیشانیاں اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں ۔ پس اے مسلمانو! خوش ہو جاؤ کہ اگرچہ تم تعداد اور سازوسامان کے اعتبار سے کمزور ہو اور تمھارا دشمن طاقتور ہے مگر تمھیں قوت والی اور غالب ہستی پر بھروسہ اور اس ذات پر اعتماد ہے جس نے تمھیں اور تمھارے اعمال کو تخلیق کیا۔ پس وہ تمام اسباب اختیار کرو جن کو استعمال کرنے کا تم کو حکم دیا گیا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو، وہ ضرور تمھاری مدد کرے گا۔ ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْؔكُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ ﴾ (محمد:47؍7) ’’اے ایمان لانے والے لوگو ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘ اے مسلمانو ! ایمان اور عمل صالح کی خاطر اٹھ کھڑے ہو! ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَلَیُمَكِّنَ٘نَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَ٘ضٰى لَهُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ یَعْبُدُوْنَنِیْ۠ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْـًٔـا﴾ (النور:24؍55) ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین کی خلافت عطا کرے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو زمین کی خلافت عطا کی تھی، ان کے دین کو ان کے لیے مستحکم کردے گا، جسے اللہ نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے اورمیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [40]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF