Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 22
- SuraName
- تفسیر سورۂ حج
- SegmentID
- 978
- SegmentHeader
- AyatText
- {15} أي: من كان يظن أنَّ الله لا ينصر رسوله وأنَّ دينه سيضمحل فإنَّ النصر من الله ينزل من السماء، [{فَلْيَمدُد بِسَبَبٍ إلى السَّمَاءِ ثُمَّ ليَقطَع}: النصر عن الرسول] ، {فَليَنظُر هَل يُذْهِبَنَّ كَيدُهُ}؛ أي: ما يكيد به الرسول ويعمله من محاربته والحرص على إبطال دينه ما يُغيظُهُ من ظهورِ دينِهِ. وهذا استفهامٌ بمعنى النفي، وأنَّه لا يقدر على شفاء غيظه بما يعمله من الأسباب. ومعنى هذه الآية الكريمة: يا أيُّها المعادي للرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، الساعي في إطفاء دينه، الذي يظنُّ بجهله أنَّ سعيه سيفيدُهُ شيئاً! اعلم أنَّك مهما فعلت من الأسباب، وسعيتَ في كيد الرسول؛ فإنَّ ذلك لا يُذْهِبُ غيظَكَ ولا يشفي كَمَدَكَ؛ فليس لك قدرةٌ في ذلك، ولكن سنشير عليك برأي تتمكَّن به من شفاء غيظِكَ ومن قطع النصر عن الرسول إن كان ممكناً: ائتِ الأمر مع بابِهِ، وارتقِ إليه بأسبابه: اعمدْ إلى حبل من ليفٍ أو غيره، ثم علِّقْه في السماء، ثم اصعدْ به حتى تَصِلَ إلى الأبواب التي ينزل منها النصرُ، فسدَّها وأغلِقْها واقطعْها؛ فبهذه الحال تشفي غيظك؛ فهذا هو الرأي والمكيدةُ، وأما سوى هذه الحال؛ فلا يخطر ببالك أنَّك تشفي بها غيظك، ولو ساعدك مَن ساعدك مِن الخلق. وهذه الآية الكريمة فيها من الوعد والبشارة بنصر الله لدينِهِ ولرسولِهِ وعباده المؤمنين ما لا يخفى، ومن تأييس الكافرين الذين يريدون أن يطفئوا نور الله بأفواههم، واللهُ متمُّ نورِهِ ولو كره الكافرون؛ أي: وسَعَوْا مهما أمكنهم.
- AyatMeaning
- [15] یعنی جو کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (e) کی مدد نہیں کرے گا اور اس کا دین عنقریب ختم ہو جائے گا تو بلاشبہ مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ ﴿ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْ٘یَقْ٘طَ٘عْ ﴾ ’’پس وہ آسمان کی طرف رسی دراز کرے، پھر کاٹ دے۔‘‘ رسول اللہe سے اس مدد کو منقطع کر دکھائے۔ ﴿ فَلْیَنْظُ٘رْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ ﴾ یعنی وہ کیا چیز ہے جس کے ذریعے سے وہ رسول اللہe کے خلاف چال چل سکتا ہے، آپe کے خلاف جنگ برپا کر سکتا ہے، جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے ابطال کی خواہش رکھتا ہے وہ کیا چیز ہے جو دین کے ظہور پر اسے غیظ و غضب میں مبتلا کرتی ہے… یہ استفہام نفی کے معنی میں ہے یعنی وہ ان اسباب کے ذریعے اپنے غیظ و غضب کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔ اس آیت مقدسہ کا معنیٰ یہ ہے، اے وہ شخص! جو محمد رسول اللہe سے عداوت رکھتا ہے، جو آپe کے دین کو مٹانے میں کوشاں ہے، جو اپنی جہالت کی بنا پر سمجھتا ہے کہ اس کی کوشش رنگ لائے گی، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تو جو بھی اسباب اختیار کر لے، رسول (e) کے خلاف کوئی بھی چال چل لے، اس سے تیرا غیظ و غضب اور تیرے دل کی بیماری کو شفا حاصل نہیں ہو گی۔ اس پر تجھے کوئی قدرت حاصل نہیں البتہ ہم تجھے ایک مشورہ دیتے ہیں جس سے تو اپنے دل کی آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہے اور اگر یہ ممکن ہے کہ تو رسول (e) سے اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کو منقطع کر سکتا ہے تو معاملے میں صحیح راستے سے داخل ہو اور درست اسباب اختیار کر اور وہ یہ کہ کھجور وغیرہ کی چھال سے بٹی ہوئی رسی لے، پھر اسے آسمان پر لٹکا کر آسمان پر چڑھ جا اور ان دروازوں تک پہنچ جا جہاں سے اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوتی ہے اور ان دروازوں کو بند کر کے اللہ تعالیٰ کی مدد منقطع کر دے۔ اس طریقے سے تیرے غیظ و غضب کو شفا حاصل ہو گی… بس یہ تجویز اور چال ہے اس طریقے کے علاوہ تیرے دل میں بھی یہ بات نہیں آنی چاہیے کہ تو اپنے غیظ و عضب سے چھٹکارا پا سکتا ہے خواہ مخلوق تیری مدد کے لیے کمر کیوں نہ باندھ لے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے دین، اپنے رسول اور اپنے مومن بندوں کے لیے فتح و نصرت کا جو وعدہ اور خوشخبری ہے، وہ مخفی نہیں اور کفار کے لیے مایوسی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے اور خواہ وہ اس نور کو بجھانے کی امکان بھر کوشش کیوں نہ کر لیں ۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [15]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF