Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
22
SuraName
تفسیر سورۂ حج
SegmentID
974
SegmentHeader
AyatText
{5} يقول تعالى: {يا أيُّها الناس إن كنتُم في ريبٍ من البعث}؛ أي: شكٍّ واشتباه وعدم علم بوقوعه، مع أن الواجب عليكم أن تصدِّقوا ربَّكم وتصدِّقوا رسلَه في ذلك، ولكن إذا أبيتُم إلاَّ الرَّيْب؛ فهاكم دليلين عقليَّين تشاهدونهما، كلُّ واحدٍ منهما يدلُّ دلالةً قطعيةً على ما شككتُم فيه، ويُزيل عن قلوبكم الريب: أحدهما: الاستدلال بابتداء خَلْق الإنسان، وأنَّ الذي ابتدأه سيعيدُه، فقال فيه: {فإنَّا خَلَقْناكم من تُرابٍ}: وذلك بخَلْق أبي البشر آدم عليه السلام، {ثمَّ من نطفةٍ}؛ أي: منيٍّ، وهذا ابتداء أول التخليق، {ثم من عَلَقَةٍ}؛ أي: تنقِلبُ تلك النطفة بإذن الله دماً أحمر، {ثم من مُضْغَةٍ}؛ أي: ينتقل الدم مضغةً؛ أي: قطعة لحم بقدر ما يُمضغ، وتلك المضغةُ تارة تكون {مخلَّقة}؛ أي: مصوَّر منها خلق الآدميِّ. وتارة {غير مُخَلَّقة}: بأن تقذِفَها الأرحام قبل تخليقها، {لنبيِّنَ لكم}: أصل نشأتكم؛ مع قدرتِهِ تعالى على تكميل خَلْقِه في لحظة واحدة، ولكن ليُبَيِّنَ لنا كمال حكمتِهِ وعظيم قدرتِهِ وسعة رحمتِهِ. {وَنُقِرُّ في الأرحام ما نشاءُ إلى أجل مسمًّى}: [أي:] ونُقِرُّ؛ أي: نبقي في الأرحام من الحَمْل الذي لم تقذِفْه الأرحامُ ما نشاء إبقاءه إلى أجل مسمّى، وهو مدَّة الحمل، {ثم نخرِجُكم}: من بطون أمهاتكم {طفلاً}: لا تعلمون شيئاً، وليس لكم قدرةٌ، وسخَّرنا لكم الأمهاتِ، وأجْرَيْنا لكم في ثديها الرزق، ثم تُنَقَّلونَ طوراً بعد طورٍ حتى تبلغوا أشُدَّكُم، وهو كمال القوة والعقل. {ومنكُم من يُتَوَفَّى}: من قبل أن يبلغَ سنَّ الأشُدِّ، ومنكُم مَنْ يتجاوزُه فيردُّ {إلى أرذل العمر}؛ أي: أخسِّه وأرذلِهِ، وهو سنُّ الهرم والتخريف، الذي به يزول العقلُ ويضمحلُّ كما زالت باقي القوة وضعفت، {لِكَيْلا يعلمَ من بعدِ علم شيئاً}؛ أي: لأجل أن لا يَعْلَمَ هذا المعمَّر شيئاً مما كان يعلمه قبل ذلك، وذلك لضعف عقله؛ فقوة الآدميِّ محفوفةٌ بضعفين: ضعفُ الطفوليَّة ونقصُها، وضعف الهرم ونقصُه؛ كما قال تعالى: {الله الذي خلقكم من ضَعْفٍ ثم جعل من بعد ضعف قُوَّةً ثم جَعَلَ من بعد قُوَّةٍ ضَعْفاً وشَيْبَةً يَخْلُقُ ما يشاءُ وهو العليم القدير}. والدليل الثاني: إحياء الأرض بعد موتها، فقال الله فيه: {وترى الأرض هامدةً}؛ أي: خاشعة مغبرَّةً لا نباتَ فيها ولا خُضرة، {فإذا أنْزَلْنا عليها الماء اهتزَّتْ}؛ أي: تحرَّكت بالنبات، {وَرَبَتْ}؛ أي: ارتفعت بعد خُشوعها، وذلك لزيادة نباتها، {وأنبتتْ من كلِّ زوج}؛ أي: صنف من أصناف النبات {بَهيج}؛ أي: يُبْهجُ الناظرين ويسرُّ المتأملين.
AyatMeaning
[5] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ ﴾ یعنی اگر تم کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو اور قیامت کے وقوع کے بارے میں تمھیں کوئی علم نہیں جبکہ تم پر لازم ہے کہ تم اس بارے میں اپنے رب اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرو لیکن اگر تم شک كيے بغیر نہ رہ سکو تو تمھارے سامنے یہ دو عقلی دلائل ہیں جن میں سے ہر ایک کا تم مشاہدہ کرتے ہو۔ جس بارے میں تم شک کرتے ہو اس پر قطعی دلالت کرتے ہیں اور تمھارے دلوں میں شک کو زائل کرتے ہیں : پہلی دلیل: انسان کی تخلیق کی ابتداء سے استدلال ہے، یعنی وہ ہستی جس نے ابتداء میں اس کو پیدا کیا ہے وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گی، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ﴾ ’’ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔‘‘ اور یہ اس طرح کہ اس نے ابوالبشر آدم u کو مٹی سے پیدا کیا ﴿ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ﴾ یعنی منی سے پیدا کیا۔ یہ انسان کی تخلیق کا اولین مرحلہ ہے ﴿ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ﴾ ’’پھر گاڑھے خون سے۔‘‘ یعنی پھر یہ نطفہ اللہ کے حکم سے سرخ خون میں بدل جاتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ ﴾ ’’پھر لوتھڑے سے۔‘‘ یعنی پھر وہ گاڑھا خون لوتھڑے یعنی بوٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور یہ بوٹی کبھی تو ﴿ مُّخَلَّقَةٍ ﴾ اس سے آدمی کی تصویر بن جاتی ہے۔ ﴿ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ ﴾ ’’اور بے تصویر‘‘ یعنی کبھی اس کی تخلیق سے قبل ہی رحم سے اس کا اسقاط ہو جاتا ہے۔ ﴿ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْ ﴾ ’’تاکہ ہم تمھارے سامنے تمھاری اصل تخلیق کو واضح کریں ‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ ایک لمحہ میں اس کی تخلیق کی تکمیل کر سکتا ہے مگر وہ ہمارے سامنے اپنی کامل حکمت، عظیم قدرت اور بے پایاں رحمت کا اظہار کرتا ہے۔ ﴿ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ یعنی اگر اسقاط نہ ہو تو اسے جب تک ہم چاہتے ہیں رحم میں باقی رکھتے ہیں ، یعنی مدت حمل تک ﴿ ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ ﴾ پھر ہم تمھیں تمھاری ماؤں کے رحموں سے باہر نکال لاتے ہیں ﴿ طِفْلًا ﴾ ’’بچے کی صورت میں ‘‘ اس وقت تمھیں کسی بات کا علم ہوتا ہے نہ کسی چیز کی قدرت اور تمھاری ماؤں کو تمھارے لیے مسخر کر دیتے اور اس کی چھاتی میں سے تمھارے لیے رزق جاری کر دیتے ہیں پھر تم ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے ہو حتیٰ کہ تم اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتے ہو اور یہ مکمل قوت اور عقل کی عمر ہے۔ ﴿ وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى ﴾ اور تم میں کچھ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں اور کچھ اس سے آگے گزر کر رذیل ترین یعنی خسیس ترین عمر کو پہنچ جاتا ہے اور یہ وہ عمر ہے جب انسان نہايت کمزور ہو جاتا ہے، قویٰ فاسد ہو جاتے ہیں ، عقل بھی اسی طرح مضمحل ہو کر زائل ہو جاتی ہے جس طرح دیگر قویٰ کمزور پڑ جاتے ہیں ۔ ﴿ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْـًٔؔا﴾ یعنی… تاکہ اس معمر شخص کو ان تمام چیزوں کا کچھ بھی علم نہ ہو جن کو وہ اس سے قبل جانتا تھا اور اس کا سبب اس کا ضعف عقل ہے۔ پس انسان کی قوت دو قسم کے ضعفوں میں گھری ہوئی ہے۔ ۱۔ طفولیت کا ضعف اور اس کا نقص۔ ۲۔ بڑھاپے کا ضعف اور اس کا نقص جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُ٘وَّ٘ةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُ٘وَّ٘ةٍ ضُؔعْفًا وَّشَیْبَةً١ؕ یَخْلُ٘قُ مَا یَشَآءُ١ۚ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ﴾ (الروم:30؍54) ’’اللہ ہی تو ہے جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد تمھیں قوت عطا کی پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ علم والا اور قدرت والا ہے۔‘‘ دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہے چنانچہ فرمایا: ﴿ وَتَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً ﴾ ’’اور تو دیکھتا ہے زمین کو بنجر۔‘‘ یعنی خشک، چٹیل اور بے آب و گیا ہ﴿ فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَؔ اهْتَزَّتْ ﴾ ’’پس جب ہم اس پر بارش نازل کرتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے۔‘‘ یعنی نباتات سے لہلہا اٹھتی ہے ﴿ وَرَبَتْ ﴾ ’’اور پھولتی ہے۔‘‘ یعنی خشک ہونے کے بعد خوب سرسبز ہو کر بلند ہوتی ہے۔ ﴿ وَاَنْۢـبَتَتْ مِنْ كُ٘لِّ زَوْجٍۭ ﴾ یعنی زمین نباتات کی ہر صنف کو اگاتی ہے ﴿ بَهِیْـجٍ ﴾ یعنی جو دیکھنے والوں کو خوش کرتی ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[5]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List