Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 21
- SuraName
- تفسیر سورۂ انبیاء
- SegmentID
- 951
- SegmentHeader
- AyatText
- {32 ـ 33} {وجَعَلْنا السماء سَقْفاً}: للأرض التي أنتم عليها {محفوظاً}: من السقوط؛ {إنَّ الله يمسِكُ السمواتِ والأرضَ أن تزولا}؛ محفوظاً أيضاً من استراق الشياطين للسمع. {وهُم عن آياتِها معرِضونَ}؛ أي: غافلون لاهون. وهذا عامٌّ في جميع آيات السماء؛ من علوِّها، وسعتها، وعظمتها، ولونها الحسن، وإتقانها العجيب، وغير ذلك من المشاهَدِ، فيها من الكواكب الثوابت والسيَّارات، وشمسها وقمرها النيِّرات، المتولِّد عنهما الليل والنهار، وكونهما دائماً في فلكهما سابحيْن. وكذلك النجوم، فتقوم بسبب ذلك منافعُ العباد من الحرِّ والبرد والفصول، ويعرفون حسابَ عباداتهم ومعاملاتهم، ويستريحون في ليلهم ويهدؤون ويسكنون، وينتشرون في نهارهم ويسعَوْن في معايشهم؛ كل هذه الأمور إذا تدبَّرها اللبيب وأمعن فيها النظر؛ جزم جزماً لا شكَّ فيه أن الله جعلها مؤقَّتة في وقتٍ معلوم إلى أجل محتوم، يقضي العبادُ منها مآرِبَهم، وتقومُ بها منافِعُهم، وليستمتعوا وينتفعوا، ثم بعد هذا ستزول وتضمحلُّ ويفنيها الذي أوجدها ويُسكِّنُها الذي حركها، وينتقل المكلَّفون إلى دارٍ غير هذه الدار؛ يجدون فيها جزاء أعمالهم كاملاً موفراً، ويعلم أنَّ المقصود من هذه الدار أن تكون مزرعةً لدار القرار، وأنَّها منزلُ سفرٍ لا محلُّ إقامة.
- AyatMeaning
- [33,32] ﴿ وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا ﴾ یعنی آسمان کو اس زمین کے لیے چھت بنایا جس پر تم رہ رہے ہو ﴿ مَّحْفُوْظًا﴾ یعنی گرنے سے محفوظ۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ﴾ (فاطر:35؍41) ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں او زمین کو تھام رکھا ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو شیاطین کے سن گن لینے سے بھی محفوظ کر رکھا ہے۔ ﴿ وَّهُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ ﴾ یعنی وہ اس کی آیات سے غافل اور لہوولعب میں مبتلا ہیں ۔ یہ آسمان کی تمام نشانیوں کے لیے عام ہے، مثلاً:اس کی بلندی، کشادگی، عظمت، اس کے حسین رنگ، حیرت انگیز مہارت سے اس کی مضبوطی وغیرہ، نیز اس میں بہت سی دیگر نشانیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، مثلاً:ستارے، سیارے، روشن سورج اور چاند جو رات اور دن کے وجود کا باعث بنتے ہیں اور ہمیشہ سے اپنے افلاک میں تیر رہے ہیں ۔ اسی طرح ستارے اپنے اپنے فلک میں رواں دواں ہیں ۔ پس اس سبب سے بندوں کے مصالح پورے ہوتے ہیں ، مثلاً:گرمی سردی کا پیدا ہونا، موسموں کا تغیر و تبدل، جس سے بندے اپنی عبادات اور دیگر معاملات کا حساب رکھتے ہیں ، رات کے وقت راحت اور سکون پاتے ہیں اور دن کے وقت اپنی معاش کے حصول کے لیے زمین میں پھیل جاتے ہیں ۔ ان تمام امور کی تدبیر ایک دانا و بینا ہستی کر رہی ہے اور وہ نہایت توجہ سے اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے جس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک وقت مقرر اور حتمی مدت تک کے لیے بنایا ہے تاکہ اس دوران میں اپنے مصالح و منافع حاصل کر لیں اور فائدہ اٹھا لیں ۔ اس کے بعد یہ سب کچھ زائل ہو کر مضمحل ہو جائے گا اور وہ ہستی اسے فنا کے گھاٹ اتار دے گی جو اسے وجود میں لائی ہے، وہ ہستی اس کون و مکاں کو ساکن کر دے گی جس نے اس کو متحرک کیا ہے۔ مکلفین اس گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہو جائیں گے جہاں انھیں ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دنیا آخرت کے دائمی گھر کے لیے کھیتی ہے، یہ سفر کی ایک منزل ہے، مستقل قیام کی جگہ نہیں ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [33,
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF