Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 21
- SuraName
- تفسیر سورۂ انبیاء
- SegmentID
- 948
- SegmentHeader
- AyatText
- {22} فالمشرك يَعْبُدُ المخلوق الذي لا ينفع ولا يضرُّ، ويدعُ الإخلاص لله الذي له الكمالُ كلُّه وبيده الأمرُ والنفعُ والضرُّ، وهذا من عدم توفيقه وسوء حظِّه وتوفُّر جهله وشدَّة ظلمِهِ؛ فإنَّه لا يصلحُ الوجود إلاَّ على إله واحدٍ؛ كما أنَّه لم يوجد إلا بربٍّ واحد، ولهذا قال: {لو كان فيهما}؛ أي: في السماواتِ والأرض، {آلهةٌ إلاَّ الله لفسدتا}: في ذاتهما، وفَسَدَ مَنْ فيهما من المخلوقات. وبيانُ ذلك: أنَّ العالم العلويَّ والسفليَّ على ما يُرى في أكمل ما يكون من الصَّلاح والانتظام، الذي ما فيه خللٌ ولا عيبٌ ولا ممانعةٌ ولا معارضةٌ، فدلَّ ذلك على أن مدبِّره واحدٌ وربَّه واحدٌ وإلهه واحدٌ؛ فلو كان له مدبِّران وربَّان أو أكثر من ذلك؛ لاختلَّ نظامُه وتقوَّضت أركانُه؛ فإنهما يتمانعان ويتعارضان، وإذا أراد أحدُهما تدبير شيء وأراد الآخر عدمه؛ فإنَّه محالٌ وجود مرادهما معاً، ووجود مراد أحدِهِما دونَ الآخر يدلُّ على عَجْزِ الآخر وعدم اقتدارِهِ، واتفاقُهما على مرادٍ واحدٍ في جميع الأمور غيرُ ممكنٍ؛ فإذاً يتعيَّن أن القاهر الذي يوجدُ مرادُهُ وحدَه من غير ممانع ولا مدافع هو الله الواحد القهَّار، ولهذا ذكر الله دليل التمانع في قوله: {ما اتَّخَذَ اللهُ من ولدٍ وما كان معه من إلهٍ إذاً لَذَهَبَ كلُّ إلهٍ بما خَلَقَ ولَعَلا بعضُهم على بعض سبحانَ اللهِ عما يصفون}، ومنه على أحد التأويلين قوله تعالى: {قُل لو كانَ معه آلهةٌ كما يقولون إذاً لابْتَغَوا إلى ذي العرشِ سبيلاً. سبحانَهُ وتعالى عمَّا يقولونَ علوًّا كبيراً}؛ ولهذا قال هنا: {فسبحان الله}؛ أي: تنزَّه وتقدَّس عن كلِّ نقص لكماله وحده، {ربِّ العرشِ}: الذي هو سقف المخلوقات وأوسعها وأعظمها؛ فربوبيَّته ما دونَه من باب أولى، {عما يصِفونَ}؛ أي: الجاحدون الكافرون من اتِّخاذ الولد والصاحبة، وأن يكون له شريكٌ بوجهٍ من الوجوه.
- AyatMeaning
- [22] پس مشرک مخلوق کی عبادت کرتا ہے جو کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کو ترک کر دیتا ہے جو تمام کمالات کا مالک ہے اور تمام معاملات اور نفع و نقصان اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں ۔ یہ توفیق سے محرومی، اس کی بدقسمتی، اس کی جہالت کی فراوانی اور اس کے ظلم کی شدت ہے۔ یہ وجود کائنات صرف ایک ہی الٰہ کے لیے درست اور لائق ہے اور اس وجود کائنات میں صرف ایک ہی رب موجود ہے، اس لیے فرمایا ﴿ لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ ﴾ اگر ہوتے زمین اور آسمان میں ﴿ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ﴾ ’’کئی معبود اللہ کے سوا تو یہ دونوں درہم برہم ہو جاتے۔‘‘خود زمین و آسمان فساد کا شکار ہو جاتے اور زمین و آسمان میں موجود تمام مخلوق میں فساد برپا ہو جاتا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی… جیسا کہ نظر آ رہا ہے بہترین اور کامل ترین انتظام کے تحت چل رہے ہیں جس میں کوئی خلل ہے نہ عیب، جس میں کوئی اختلاف ہے نہ معارضہ… پس کائنات کا یہ انتظام دلالت کرتا ہے کہ ان کی تدبیر کرنے والا، ان کا رب اور ان کا معبود ایک ہے۔ اگر اس کائنات کی تدبیر کرنے والے اور اس کے رب دو یا دو سے زیادہ ہوتے تو اس کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا اور اس کے تمام ارکان منہدم ہو جاتے کیونکہ دونوں معبود ایک دوسرے کے معارض ہوتے اور ایک دوسرے کے انتظام سے مزاحم ہوتے۔ جب ان دو خداؤں میں سے ایک خدا کسی چیز کی تدبیر کا ارادہ کرتا اور دوسرا اس کو معدوم کرنے کا ارادہ کرتا تو بیک وقت دونوں کی مراد کا وجود میں آنا محال ہوتا اور دونوں میں سے کسی ایک کی مراد کا پورا ہونا دوسرے کے عجز اور اس کے عدم اقتدار پر دلالت کرتا ہے اور تمام معاملات میں کسی ایک مراد پر دونوں کا متفق ہونا ناممکن ہے، تب یہ حقیقت متعین ہو گئی کہ وہ غالب و قاہر ہستی جس اکیلی ہی کی مراد بغیر کسی مانع کے وجود میں آتی ہے، وہ اللہ واحد و قہار ہے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمانع کی دلیل یہ بیان فرمائی۔ ﴿مَا اتَّؔخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰ٘هٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُ٘لُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ سُبْحٰؔنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ﴾ (المومنون:23؍91) ’’ا للہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ کوئی دوسرا معبود ہی اس کی خدائی میں اس کے ساتھ شریک ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوق کو لے کر علیحدہ ہو جاتا اور غالب آنے کے لیے ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے۔ جن اوصاف سے تم اسے موصوف کر رہے ہو اللہ ان سے پاک ہے۔‘‘ اور ایک تفسیر کے مطابق درج ذیل آیت بھی اسی تمانع کی دلیل ہے۔ ﴿ قُ٘لْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْ٘عَرْشِ سَبِیْلًا۰۰سُبْحٰؔنَهٗ وَ تَ٘عٰ٘لٰ٘ى عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا كَبِیْرًؔا ﴾ (بنی اسرائیل:17؍42، 43) ’’کہہ دیجیے اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں تو عرش کے مالک تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ ضرور تلاش کرتے، وہ پاک اور بلند و بالاہے ان باتوں سے جو یہ مشرکین کہہ رہے ہیں ۔‘‘ اسی لیے فرمایا: ﴿فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ایک اور منزہ ہے ہر نقص سے کیونکہ وہ اکیلا کمال کا مالک ہے ﴿ رَبِّ الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’رب ہے عرش کا۔‘‘ وہ عرش جو مخلوقات کی چھت، تمام مخلوقات سے زیادہ وسیع اور سب سے بڑا ہے، لہٰذا اس سے کمتر مخلوق کے لیے اس کا رب ہونا تو طریق اولیٰ کے باب سے ہے۔ ﴿ عَمَّا یَصِفُوْنَ ﴾ یعنی یہ منکرین حق اور کفار جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور بیوی ہے، کسی بھی لحاظ سے اس کا کوئی شریک ہے۔ان سب باتوں سے وہ پاک ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [22]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF