Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 20
- SuraName
- تفسیر سورۂ طٰہٰ
- SegmentID
- 919
- SegmentHeader
- AyatText
- {73} {إنَّا آمنَّا بِرَبِّنا لِيَغْفِرَ لنا خَطايانا}؛ أي: كُفْرَنا ومعاصينا؛ فإنَّ الإيمان مكفِّر للسيئاتِ، والتوبة تجبُّ ما قبلها. وقولهم: {وما أكْرَهْتَنا عليه من السحر}: الذي عارَضْنا به الحقَّ. هذا دليلٌ على أنهم غير مختارين في عملهم المتقدِّم، وإنما [أكرههم] فرعونُ إكراهاً. والظاهر ـ والله أعلم ـ أنَّ موسى لما وعظهم ـ كما تقدَّم في قوله: {ويلَكُم لا تَفْتروا على اللهِ كَذِباً فَيُسْحِتَكُم بعذابٍ} أثَّر معهم ووقع منهم موقعاً كبيراً، ولهذا تنازعوا بعد هذا الكلام والموعظة. ثمَّ إنَّ فرعونَ ألزمهم ذلك وأكرهَهَم على المكرِ الذي أجْرَوْه، ولهذا تكلَّموا بكلامه السابق قبل إتيانهم؛ حيث قالوا: {إنْ هذانِ لَساحِرانِ يُريدانِ أن يخرِجاكم من أرضِكُم بسِحْرِهما}، فَجَرَوا على ما سنَّه لهم وأكرههم عليه. ولعلَّ هذه النكتة التي قامت بقلوبهم من كراهتهم لمعارضة الحقِّ بالباطل، وفعلهم ما فعلوا على وجه الإغماضِ هي التي أثَّرت معهم ورحمهم الله بسببها، ووفَّقهم للإيمان والتوبة. {والله خيرٌ}: مما أوعدتنا من الأجر والمنزلة والجاه، {وأبقى}: ثواباً وإحساناً، لا ما يقول فرعون: {ولَتَعْلَمُنَّ أيُّنا أشدُّ عذاباً وأبقى}؛ يريد أنه أشد عذاباً وأبقى. وجميع ما أتى من قَصَص موسى مع فرعون يَذْكُرُ الله فيه إذا أتى على قصة السحرة أن فرعون توعدهم بالقطع والصلب ولم يذكر أنَّه فعل ذلك، ولم يأتِ في ذلك حديثٌ صحيح، والجزم بوقوعه أو عدمِهِ يتوقَّف على الدليل. والله أعلم بذلك وغيره، [ولكن توعده إياهم بذلك مع اقتداره، دليل على وقوعه، ولأنه لو لم يقع لذكره اللَّه، ولاتفاق الناقلين على ذلك].
- AyatMeaning
- [73] ﴿اِنَّـاۤ٘ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰؔنَا ﴾ ’’ہم اپنے رب پر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطائیں بخش دے۔‘‘ یعنی ہمارے کفر اور ہمارے گناہوں کو اس لیے کہ ایمان برائیوں کا کفارہ ہے اور توبہ پچھلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے ﴿وَمَاۤ اَكْرَهْتَنَا عَلَیْهِ مِنَ السِّحْرِ﴾ ’’اور اس جادو کو بھی معاف کردے جس پر تونے ہمیں مجبور کیا۔‘‘ یعنی وہ جس سے ہم نے حق کا مقابلہ کیا۔ جادو گروں کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ انھوں نے خود اختیاری سے جادو کا کام نہیں کیا تھا بلکہ فرعون نے ان کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ظاہر ہوتا ہے، واللہ اعلم، کہ جب موسیٰ u نے ان کو نصیحت کی جیسا کہ گزشتہ صفحات میں آپ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے ﴿ وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ ﴾ (طٰہ:20؍61) ’’ کم بختو! اللہ پر بہتان طرازی نہ کرو، ورنہ وہ کسی عذاب کے ذریعے سے تمھاری جڑ کاٹ دے گا۔‘‘ تو آپ کی نصیحت نے جادوگروں کو متاثر کیا اور ان کے دلوں میں جاگزین ہو گئی ، اس لیے موسیٰ u کی نصیحت کے بعد ان کے درمیان اختلاف اور تنازع پیدا ہوالیکن فرعون نے ان جادوگروں کو اس مکر و فریب پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کر دیا، اسی لیے انھوں نے جادو کے کرتب دکھانے سے پہلے فرعون کی بات دہرائی ﴿ اِنْ هٰؔذٰنِ لَسٰحِرٰؔنِ یُرِیْدٰؔنِ اَنْ یُّخْرِجٰؔكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا ﴾ یہ کہہ کر وہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گئے جس پر فرعون نے ان کو مجبور کیا تھا۔ شاید یہی نکتہ تھا کہ باطل کے ذریعے سے حق کی معارضت کی ناپسندیدگی ان کے دلوں میں جاگزیں ہو گئی تھی… انھوں نے جو کام سرانجام دیا وہ انھوں نے اغماض برتتے ہوئے سرانجام دیا… اسی نکتہ نے ان کے دلوں کو متاثر کیا، اس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کو ایمان اور توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔ انھوں نے کہا تو نے جو اجرو و منزلت اور عزت و جاہ کا ہم سے وعدہ کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ثواب بہتر ہے اور فرعون کے اس قول کی نسبت اللہ تعالیٰ کا ثواب اور احسان باقی رہنے والا ہے۔ ﴿ وَلَ٘تَ٘عْلَ٘مُنَّ اَ٘یُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابً٘ا وَّاَبْقٰى ﴾ فرعون کی مراد یہ تھی کہ اس کا عذاب زیادہ سخت اور باقی رہنے والا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں فرعون کے ساتھ موسیٰ u کا ذکر آیا ہے۔ وہاں جادوگروں کے واقعے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ فرعون نے جادوگروں کے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی دینے کی دھمکی دی تھی مگر یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اس نے اپنی اس دھمکی پر عمل کیا تھااور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کی تصریح آئی ہے۔ اس دھمکی پر عمل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا دلیل پر موقوف ہے (جو موجود نہیں ) واللہ تعالٰی أعلم مگر اس نے اپنے اقتدار کے بل بوتے پر ان کو جو دھمکی دی تھی، وہ اس پر عمل کی دلیل ہے۔ کیوں کہ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرما دیتا۔ ناقلین کا اس پر اتفاق ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [73]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF