Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 20
- SuraName
- تفسیر سورۂ طٰہٰ
- SegmentID
- 918
- SegmentHeader
- AyatText
- {52} فقال موسى: {علمُها عند ربِّي في كتابٍ لا يَضِلُّ ربِّي ولا ينسى}؛ أي: قد أحصى أعمالهم من خير وشرٍّ، وكتبه في كتابه ، وهو اللوح المحفوظ، وأحاط به علماً وخبراً؛ فلا يضلُّ عن شيء منها ولا ينسى ما عَلِمهُ منها، ومضمون ذلك أنَّهم قَدِموا إلى ما قدَّموه ولاقَوْا أعمالهم وسيجازَوْن عليها؛ فلا معنى لسؤالك واستفهامك يا فرعون عنهم؛ فتلك أمةٌ قد خلتْ، لها ما كسبتْ ولكم ما كسبتُم؛ فإنْ كان الدليل الذي أوردْناه عليك والآياتُ التي أريناكَها قد تحقَّقْتَ صدقَها ويقينَها، وهو الواقع؛ فانقدْ إلى الحقِّ، ودعْ عنك الكفر والظُّلم وكثرةَ الجدال بالباطل، وإن كنتَ قد شككت فيها أو رأيتَها غير مستقيمة؛ فالطريق مفتوحٌ، وبابُ البحث غير مغلقٍ، فَرُدَّ الدليل بالدليل والبرهان بالبرهان، ولن تَجِدَ لذلك سبيلاً ما دام الملوان ؛ كيف وقد أخبر الله عنه أنه جَحَدها مع استيقانها؛ كما قال تعالى: {وجَحَدوا بها واستيقَنَتْها أنفسُهم ظلماً وعلوًّا}، وقال موسى: {لقد علمتَ ما أنزلَ هؤلاءِ إلاَّ ربُّ السمواتِ والأرضِ بصائرَ}؟! فَعُلم أنه ظالمٌ في جداله، قصدُه العلوُّ في الأرض.
- AyatMeaning
- [52] موسیٰ u نے فرمایا: ﴿ قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْؔ كِتٰبٍ١ۚ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَى ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے برے تمام اعمال کو شمار کر کے اپنی کتاب، یعنی لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ علم و خبر کے اعتبار سے اس نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے کوئی چیز اس کے شمار کرنے اور لکھنے سے چھوٹتی نہیں اور نہ کوئی چیز اسے بھولتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے جو بھی اعمال آگے بھیجے ہیں قیامت کے روز انھیں ان اعمال کا سامنا کرنا ہو گا اور ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا… اس لیے اے فرعون! ان کے بارے میں تیرے اس سوال اور استفہام کا کوئی معنیٰ نہیں ۔ ’’وہ ایک امت تھی جو گزر گئی ان کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تم جو عمل کرو گے وہ تمھارے لیے ہے۔اس لیے وہ دلیل جو ہم نے تیرے سامنے پیش کی ہے اور وہ نشانیاں جو ہم تجھے دکھا چکے ہیں ، اگر تجھ پر ان کی صداقت متحقق ہو چکی ہے تو حق کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔ کفر، ظلم اور باطل کے ذریعے کثرت جدال کو چھوڑ دے اور اگر تجھے اس بارے میں کوئی شک ہے اور تجھے اس پر یقین نہیں ہے تو بحث کا دروازہ کھلا ہوا ہے، دلیل کا جواب دلیل سے اور برہان کا جواب برہان سے ہونا چاہیے اور جب تک دن رات باقی ہیں تو کبھی بھی ایسا نہیں کر سکے گا اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بارے میں خبر دی ہے کہ اس نے ان آیات کا ان کی صداقت کا قائل ہونے کے بعد انکار کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ﴾ (النمل:27؍14) ’’انھوں نے ان آیات کا، ان کا قائل ہونے کے بعد، ظلم اور تکبر کی بنا پر انکار کیا۔‘‘ موسیٰ u نے فرمایا: ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ ﴾ (بنی اسرائیل:17؍102) ’’تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں کیں ۔‘‘ تب معلوم ہوا کہ فرعون اپنی بحث و جدال میں ظلم کا مرتکب ہوا اور اس کا مقصد محض زمین میں تغلب کا حصول تھا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [52]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF