Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
20
SuraName
تفسیر سورۂ طٰہٰ
SegmentID
916
SegmentHeader
AyatText
{44} {فقولا له قولاً ليِّناً}؛ أي: سهلاً لطيفاً برفق ولينٍ وأدبٍ في اللفظ من دون فحش ولا صَلَف ولا غِلْظَةٍ في المقال أو فظاظةٍ في الأفعال. {لعلَّه}: بسبب القول اللين {يَتَذَكَّر}: ما ينفعه فيأتيه {أو يَخْشى}: ما يضرُّه فيتركه؛ فإنَّ القول الليِّن داعٍ لذلك، والقول الغليظ منفِّرٌ عن صاحبه، وقد فُسِّر القول الليِّن في قوله: {فَقُلْ هل لك إلى أن تَزَكَّى. وأهدِيَك إلى ربِّك فتَخْشى}؛ فإنَّ في هذا الكلام من لطف القول وسهولتِهِ وعدم بشاعته ما لا يخفى على المتأمِّل؛ فإنَّه أتى بـ {هل} الدالَّة على العرض والمشاورة، التي لا يشمئزُّ منها أحدٌ، ودعاه إلى التزكِّي والتطهُّر من الأدناس، التي أصلها التطهُّر من الشرك، الذي يقبله كلُّ عقل سليم، ولم يقلْ: أزكيك، بل قال: {تزكَّى}: أنت بنفسك، ثم دعاه إلى سبيل ربِّه الذي ربَّاه وأنعم عليه بالنِّعم الظاهرة والباطنة، التي ينبغي مقابلتها بشكرها وذكرها، فقال: {وأهدِيَك إلى ربِّك فتَخْشى}، فلما لم يقبلْ هذا الكلام الليِّن الذي يأخُذُ حسنُه بالقلوب؛ عُلِمَ أنَّه لا ينجعُ فيه تذكيرٌ، فأخذه الله أخذ عزيز مقتدر.
AyatMeaning
[44] ﴿ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا﴾ لفظی آداب کا خیال رکھتے ہوئے، نرمی کے ساتھ نہایت سہل اور لطیف بات کیجیے، فحش گوئی، ڈینگیں مارنے، سخت الفاظ اور درشت افعال سے پرہیز کیجیے۔ ﴿ لَّعَلَّهٗ﴾ شاید وہ اس نرم گوئی کے سبب سے ﴿ یَتَذَكَّـرُ ﴾ نصیحت پکڑے جو اس کو فائدہ دے اور وہ اس پر عمل کرنے لگے ﴿اَوْ یَخْشٰى ﴾ اور نقصان دہ چیز سے ڈرے اور اسے ترک کر دے کیونکہ نرم گوئی اس کی طرف دعوت دیتی ہے اور سخت گوئی لوگوں کو اس سے متنفر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’نرم گوئی‘‘ کی اپنے ارشاد میں تفسیر بیان کی ہے۔ ﴿ فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰۤى اَنْ تَزَؔكّٰى ۙ۰۰وَاَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى ﴾ (النزعت:79؍18،19) ’’اور اس سے کہیے کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے اور میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے؟‘‘ کیونکہ اس قول میں جو نرمی اور آسانی پنہاں ہے اور سختی اور درشتی سے جس طرح پاک ہے، غور کرنے والے پر مخفی نہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے (ھل) کا لفظ استعمال کیا ہے جو ’’عرض‘‘ اور ’’مشاورت‘‘ پر دلالت کرتا ہے جس سے کوئی شخص نفرت نہیں کرتا اور اسے ہر قسم کی گندگی سے تطہیر اور تزکیہ کی طرف بلایا ہے۔ جس کی اصل شرک کی گندگی سے تطہیر ہے جسے ہر عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا (اُزَکِّیکَ) ’’میں تجھے پاک کروں ‘‘ بلکہ فرمایا: (تَزَکّٰی) یعنی ’’تو خود پاک ہو جائے۔‘‘ پھر موسیٰ u نے اسے اس کے رب کی طرف بلایا جس نے اس کی پرورش کی اور اسے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا جن پر شکر اور ذکر کرنا چاہیے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَاَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى ﴾ (النازعات:79؍19) ’’اور تاکہ میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے۔‘‘ جب فرعون نے اس کلام نرم و نازک کو قبول نہ کیا، جس کا حسن دلوں کو پکڑ لیتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کو وعظ و نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے اسے اسی طرح پکڑلیا جس طرح ایک غالب اور مقتدر ہستی پکڑتی ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[44]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List