Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 98
- SegmentHeader
- AyatText
- {196} يستدل بقوله: {وأتموا الحج والعمرة}؛ على أمور: أحدها وجوب الحج والعمرة وفرضيتهما. الثاني وجوب إتمامهما بأركانهما وواجباتهما التي قد دل عليها فعل النبي - صلى الله عليه وسلم -، وقوله: «خذوا عني مناسككم». الثالث أن فيه حجة لمن قال بوجوب العمرة. الرابع أن الحج والعمرة يجب إتمامهما بالشروع فيهما ولو كانا نفلاً. الخامس الأمر بإتقانهما وإحسانهما، وهذا قدر زائد على فعل ما يلزم لهما. السادس فيه الأمر بإخلاصهما {لله} تعالى. السابع أنه لا يخرج المحرم بهما بشيء من الأشياء حتى يكملهما، إلا بما استثناه الله وهو الحصر، فلهذا قال: {فإن أحصرتم}؛ أي: منعتم من الوصول إلى البيت لتكميلهما بمرض أو ضلالة أو عدو، ونحو ذلك من أنواع الحصر الذي هو المنع {فما استيسر من الهدي}؛ أي: فاذبحوا ما استيسر من الهدي وهو سبع بدنة أو سبع بقرة أو شاة يذبحها المحصر، ويحلق، ويحل من إحرامه بسبب الحصر كما فعل النبي - صلى الله عليه وسلم -، وأصحابه لما صدهم المشركون عام الحديبية ، فإن لم يجد الهدي فليصم بدله عشرة أيام كما في المتمتع ثم يحل. ثم قال تعالى: {ولا تحلقوا رؤوسكم حتى يبلغ الهديُ محله}؛ وهذا من محظورات الإحرام إزالة الشعر بحلق أو غيره لأن المعنى واحد من الرأس أو من البدن، لأن المقصود من ذلك، حصول الشعث والمنع من الترفه بإزالته وهو موجود في بقية الشعر، وقاس كثير من العلماء على إزالة الشعر تقليم الأظفار بجامع الترفه، ويستمر المنع مما ذكر حتى يبلغ الهدي محله وهو يوم النحر، والأفضل أن يكون الحلق بعد النحر كما تدل عليه الآية. ويستدل بهذه الآية على أن المتمتع إذا ساق الهدي لم يتحلل من عمرته قبل يوم النحر، فإذا طاف وسعى للعمرة أحرم بالحج، ولم يكن له إحلال بسبب سوق الهدي، وإنما منع تبارك وتعالى من ذلك لما فيه من الذل والخضوع لله والانكسار له والتواضع الذي هو عين مصلحة العبد، وليس عليه في ذلك من ضرر؛ فإذا حصل الضرر بأن كان به أذى من مرض ينتفع بحلق رأسه له أو قروح أو قمل ونحو ذلك، فإنه يحل له أن يحلق رأسه، ولكن يكون عليه فدية من صيام ثلاثة أيام، أو إطعام ستة مساكين ، أو نسك ما يجزي في أضحية فهو مخير، والنسك أفضل فالصدقة فالصيام، ومثل هذا، كل ما كان في معنى ذلك من تقليم الأظفار أو تغطية الرأس أو لبس المخيط أو الطيب؛ فإنه يجوز عند الضرورة مع وجوب الفدية المذكورة، لأن القصد من الجميع إزالة ما به يترفه. ثم قال تعالى: {فإذا أمنتم}؛ أي: بأن قدرتم على البيت من غير مانع عدو وغيره {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج}؛ بأن توصل بها إليه، وانتفع بتمتعه بعد الفراغ منها {فما استيسر من الهدي}؛ أي فعليه ما تيسر من الهدي، وهو ما يجزي في أضحية، وهذا دم نسك مقابلة لحصول النسكين له في سفرة واحدة، ولإنعام الله عليه بحصول الانتفاع بالمتعة بعد فراغ العمرة وقبل الشروع في الحج، ومثلها القِران لحصول النسكين له، ويدل مفهوم الآية على أن المفرد للحج ليس عليه هدي، ودلت الآية على جواز بل فضيلة المتعة وعلى جواز فعلها في أشهر الحج {فمن لم يجد}؛ أي الهدي أو ثمنه {فصيام ثلاثة أيام في الحج}؛ أول جوازها من حين الإحرام بالعمرة، وآخرها ثلاثة أيام بعد النحر، أيام رمي الجمار والمبيت بمنى، ولكن الأفضل منها أن يصوم السابع والثامن والتاسع {وسبعة إذا رجعتم}؛ أي: فرغتم من أعمال الحج، فيجوز فعلها في مكة، وفي الطريق، وعند وصوله إلى أهله. ذلك المذكور من وجوب الهدي على المتمتع {لمن لم يكن أهله حاضري المسجد الحرام}؛ بأن كان عنه مسافة قصر فأكثر أو بعيداً عنه عرفا، فهذا الذي يجب عليه الهدي لحصول النسكين له في سفر واحد، وأما من كان أهله من حاضري المسجد الحرام، فليس عليه هدي لعدم الموجب لذلك. {واتقوا الله}؛ أي: في جميع أموركم بامتثال أوامره واجتناب نواهيه، ومن ذلك امتثالكم لهذه المأمورات واجتناب هذه المحظورات المذكورة في هذه الآية {واعلموا أن الله شديد العقاب}؛ أي: لمن عصاه، وهذا هو الموجب للتقوى، فإن من خاف عقاب الله؛ انكف عما يوجب العقاب، كما أن من رجا ثواب الله؛ عمل لما يوصله إلى الثواب، وأما من لم يخف العقاب، ولم يرج الثواب؛ اقتحم المحارم، وتجرأ على ترك الواجبات.
- AyatMeaning
- [196] ﴿ وَاَتِمُّوا الْ٘حَجَّ وَالْ٘عُمْرَةَ ﴾ ’’اور پورا کرو حج اور عمرے کو‘‘ سے متعدد امور پر استدلال کیا جاتا ہے۔ (۱) حج اور عمرے کا وجوب اور ان کی فرضیت (۲) حج اور عمرے کو ان ارکان و واجبات کے ساتھ پورا کرنا جن کی طرف رسول اللہeکا فعل اور آپ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے :’خُذُوا عَنِّی مَنَاسِکَکُمْ‘ ’’اپنے مناسک حج مجھ سے اخذ کرو‘‘(سنن البيھقی:5؍125) (۳) اس آیت کریمہ سے ان علماء کی تائید ہوتی ہے جو عمرے کو واجب قرار دیتے ہیں۔ (۴) حج اور عمرہ کو، خواہ وہ نفلی ہی کیوں نہ ہوں جب شروع کر دیا جائے تو ان کا اتمام واجب ہے۔ (۵) حج اور عمرے کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے اور یہ چیز حج اور عمرے کے لازمی افعال سے قدر زائد ہے۔ (۶) اس میں حج اور عمرے کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (۷) حج اور عمرے کا احرام باندھنے والا ان کی تکمیل کیے بغیر احرام نہ کھولے سوائے اس صورت حال کے جس کواللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دیا ہے اور وہ ہے (کسی وجہ سے) محصور ہو جانا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ ﴾ ’’پس اگر تم روک دیے جاؤ‘‘ یعنی اگر تم کسی مرض یا راستہ بھول جانے یا دشمن کے روک لینے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے حج اور عمرہ کی تکمیل کے لیے بیت اللہ نہ پہنچ سکو تو فرمایا: ﴿ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ ﴾ ’’تو جیسی قربانی میسر ہو۔‘‘ یعنی (جو قربانی میسر ہو،) ذبح کرو۔ یہ قربانی اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک بکری ہے جسے مُحْصَر ذبح کرے گا۔ اس کے بعد وہ اپنا سر منڈوائے اور احرام کھول دے۔ جیسا کہ رسول اللہeاور صحابہ کرامyنے حدیبیہ والے سال کیا تھا جب مشرکین مکہ نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا۔ اگر مُحْصَر کو قربانی نہ ملے تو اس کے بدلے دس روزے رکھے جیسا کہ تمتع کرنے والے کے لیے ضروری ہے اور اس کے بعد احرام کھول کر حلال ہو جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُ٘وْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُ٘غَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ ﴾ ’’اور اپنے سروں کو نہ منڈواؤ، یہاں تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے کو پہنچ جائے‘‘ بالوں کو منڈوا کر یا کسی اور طریقے سے زائل کرنا احرام کے ممنوعات میں شمار ہوتا ہے۔ بال خواہ سر کے ہوں یا بدن کے کسی اور حصے کے، ان کو زائل کرنا منع ہے، کیونکہ احرام میں اصل مقصود بالوں کی پراگندگی اور ان کو زائل کر کے ان کی اصلاح کرنے کی ممانعت ہے اور وہ باقی بالوں میں بھی موجود ہے۔ بہت سے علماء نے زیب و زینت کے لیے ناخن ترشوانے کو بال منڈوانے پر قیاس کیا ہے اور مذکورہ تمام چیزیں اس وقت تک ممنوع ہیں جب تک کہ قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے اور اس سے مراد قربانی کا دن ہے اور افضل یہ ہے کہ قربانی کرنے کے بعد بال اتروائے جائیں جیسا کہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ تمتع کرنے والا جب اپنے ساتھ قربانی لے کر آیا ہو تو وہ قربانی کے دن سے قبل اپنے عمرے کا احرام نہ کھولے۔ پس تمتع کرنے والا جب عمرے کے طواف اور سعی سے فارغ ہو جائے تو حج کا احرام باندھ لے اور اپنے ساتھ قربانی لانے کی وجہ سے اس کے لیے احرام کھولنا جائز نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے (حَلْق) ’’بال مونڈنے‘‘ سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ اس میں عاجزی، اللہ کے لیے خضوع اور انکساری ہے جو کہ بندے کے لیے عین مصلحت ہے اور اس میں اس کے لیے کوئی نقصان بھی نہیں۔ اگر سر میں کسی مرض یا زخم یا جوؤں کی وجہ سے تکلیف ہو تو اس کے لیے سر کو منڈوانا جائز ہے البتہ فدیہ کے طور پر تین روزے رکھنا یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا جانور ذبح کرنا جو قربانی کے لیے جائز ہو واجب ہے۔ ان میں سے جو کام چاہے اسے کرنے کا اختیار ہے۔ قربانی سب سے افضل ہے، اس کے بعد صدقہ اور پھر روزے۔ اسی طرح کے حالات میں اگر ناخن تراشنے، سر ڈھانپنے، سلا ہوا کپڑا پہننے یا خوشبو لگانے کی ضرورت لاحق ہو تو ضرورت کے وقت ایسا کرنا جائز ہے، البتہ مذکورہ بالا فدیہ کی مانند فدیہ دینا واجب ہے۔ اس تمام صورت میں اصل مقصد آسودگی کے مظاہر سے دور رہنا ہے۔ پھر فرمایا: ﴿ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ ﴾ ’’پس جب تم امن میں ہو جاؤ‘‘ یعنی جب تم دشمن وغیرہ کی رکاوٹ کے بغیر بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہو ﴿ فَ٘مَنْ تَ٘مَتَّ٘عَ بِالْ٘عُمْرَةِ اِلَى الْ٘حَجِّ ﴾ ’’پس جو حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔‘‘ یعنی جو عمرہ کو حج کے ساتھ ملا دے اور عمرہ سے فارغ ہو کر اپنے تمتع سے فائدہ اٹھائے ﴿ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ ﴾ ’’تو وہ جیسی قربانی میسر ہوکرے۔‘‘ یعنی اس پر واجب ہے کہ وہ قربانی دے جو میسر ہو اور وہ ایسا جانور ذبح کرے جو قربانی کے لیے جائز ہو۔ یہ قربانی، حج کی قربانی ہے جو ان دو عبادات کے مقابلے میں ہے جو اسے ایک ہی سفر میں حاصل ہوئیں، علاوہ ازیں یہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکرانہ ہے جو اسے عمرہ سے فراغت کے بعد اور مناسک حج شروع کرنے سے پہلے تمتع سے استفادہ کرنے کی صورت میں حاصل ہوئی۔ اور اسی کی مثل حج قران ہے، کیونکہ اس میں بھی (حج تمتع کی طرح) دو عبادات کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ مفرد حج کرنے والے شخص پر قربانی واجب نہیں۔ آیت کریمہ تمتع کے جواز بلکہ تمتع کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، نیز اس پر بھی کہ حج کے مہینوں میں تمتع جائز ہے۔ ﴿ فَ٘مَنْ لَّمْ یَجِدْ ﴾ ’’پس جو شخص نہ پائے‘‘ یعنی جس کے پاس قربانی یا اس کی قیمت موجود نہ ہو ﴿ فَصِیَامُ ثَلٰ٘ثَةِ اَیَّامٍ فِی الْ٘حَجِّ ﴾ ’’تو تین روزے رکھنے ہیں حج کے دنوں میں‘‘ ان روزوں کا پہلا جواز تو یہ ہے کہ انھیں عمرہ کے احرام کے ساتھ ہی رکھا جائے اور ان کا آخری وقت یوم النحر کے بعد کے تین دن ہیں، رمی جمار اور منی میں شب باشی کے ایام، البتہ افضل یہ ہے کہ یہ روزے ساتویں، آٹھویں اور نویں ذوالحج کو رکھے جائیں۔ ﴿ وَسَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ﴾ ’’اور سات (روزے) اس وقت جب تم گھر لوٹو‘‘ یعنی جب تم اعمال حج سے فارغ ہو جاؤ تو ان روزوں کو مکہ مکرمہ میں رکھنا بھی جائز ہے، واپسی سفر کے دوران راستے میں اور گھر پہنچ کر بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی تمتع کرنے والے پر قربانی کا واجب ہونا ﴿ لِمَنْ لَّمْ یَكُ٘نْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ ’’اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں‘‘ یعنی یہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو نمازقصر کرنے یا اس سے زیادہ فاصلے پر رہتا ہو یا اتنا دور رہتا ہو جسے عرف میں دور سمجھا جاتا ہو۔ اس شخص پر ایک ہی سفر میں دو عبادات کے ثواب کے حصول کی بنا پر قربانی واجب ہے۔ جو کوئی مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے پاس رہتا ہے، تو اس پر عدم موجب کی بنا پر قربانی واجب نہیں۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرو‘‘ یعنی اپنے تمام امور میں، اس کے اوامر کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتے ہوئے۔ اسی زمرے میں حج کے ان اوامر کی اطاعت اور ان ممنوعات سے اجتناب ہے جو کہ اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں۔ ﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ’’اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو سخت سزا دیتا ہے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ یہی (خوف عذاب) تقویٰ کا موجب ہے کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہے وہ ان تمام امور سے اجتناب کرتا ہے جو عذاب کے موجب ہیں۔ جیسے جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا ہے وہ ایسے کام کرتا ہے جو ثواب کے موجب ہیں اور جو کوئی عذاب سے نہیں ڈرتا اور ثواب کی امید نہیں رکھتا وہ حرام میں گھس جاتا ہے اور فرائض کو چھوڑ دینے کی جرأت کا مرتکب ہوتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [196
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF