Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
19
SuraName
تفسیر سورۂ مریم
SegmentID
896
SegmentHeader
AyatText
{61} ثم ذكر أنَّ الجنَّة التي وعدهم بدخولها ليست كسائر الجنات، وإنما هي {جَنَّاتِ عدنٍ}؛ أي: جنات إقامةٍ لا ظعن فيها ولا حِوَل ولا زوال، وذلك لسعتها وكثرة ما فيها من الخيرات والسرور والبهجة والحبور. {التي وَعَدَ الرحمن عباده بالغيب}؛ أي: التي وَعَدَها الرحمن، أضافها إلى اسمه الرحمن؛ لأنَّها فيها من الرحمة والإحسان ما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خَطَرَ على قلب بشر، وسماها تعالى رَحْمَتَهُ، فقال: {وأمَّا الذين ابيضَّت وجوهُهم ففي رحمةِ الله هم فيها خالدونَ}. وأيضاً؛ ففي إضافتها إلى رحمته ما يدلُّ على استمرار سرورها، وأنَّها باقيةٌ ببقاء رحمتِهِ التي هي أثرُها وموجَبُها. والعبادُ في هذه الآية المرادُ عبادُ إلهيَّته، الذين عَبَدوه والتزموا شرائِعَه، فصارت العبوديَّة وصفاً لهم؛ كقوله: {وعبادُ الرحمن}، ونحوه؛ بخلاف عباده المماليك فقط، الذين لم يعبُدوه؛ فهؤلاء وإنْ كانوا عبيداً لربوبيَّته لأنَّه خلقهم ورزقهم ودبَّرهم؛ فليسوا داخلين في عبيد إلهيَّته، العبوديَّة الاختيارية التي يُمْدَحُ صاحبها، وإنَّما عبوديَّتهم عبوديَّة اضطرارٍ لا مدح لهم فيها. وقوله: {بالغيب}: يُحتمل أن تكون متعلِّقة بوعد الرحمن، فيكون المعنى على هذا: أنَّ الله وَعَدَهم إيَّاها وعداً غائباً لم يشاهِدوه، ولم يَرَوْه فآمنوا بها، وصدَّقوا غيبها، وسَعَوا لها سَعْيها مع أنَّهم لم يَرَوْها؛ فكيف لو رأوها؛ لكانوا أشدَّ لها طَلَباً وأعظم فيها رغبةً وأكثر لها سعياً، ويكون في هذا مدحٌ لهم بإيمانهم بالغيبِ، الذي هو الإيمان النافع. ويُحتمل أن تكونَ متعلِّقة بعبادِهِ؛ أي: الذين عبدوه في حال غيبهم وعدم رؤيتهم إيَّاه؛ فهذه عبادتُهم ولم يروه؛ فلو رأوه؛ لكانوا أشدَّ له عبادةً وأعظم إنابةً وأكثر حبًّا وأجلَّ شوقاً. ويحتمل أيضاً أنَّ المعنى: هذه الجناتُ التي وَعَدَها الرحمن عبادَه من الأمورِ التي لا تدرِكُها الأوصاف ولا يعلمُها أحدٌ إلاَّ الله؛ ففيه من التشويق لها والوصف المجمل ما يهيجُ النفوسَ، ويزعِجُ الساكن إلى طلبها، فيكون هذا مثل قوله: {فلا تعلم نفسٌ ما أخْفِيَ لهم من قُرَّةِ أعيُنٍ جزاءً بما كانوا يعملون}. والمعاني كلُّها صحيحةٌ ثابتةٌ، ولكن الاحتمال الأوَّل أولى؛ بدليل قوله: {إنَّه كان وعدُهُ مأتِيًّا}: لا بدَّ من وقوعه؛ فإنَّه لا يُخْلِفُ الميعاد، وهو أصدق القائلين.
AyatMeaning
[61] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ جنت جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے عام باغات کی مانند نہیں بلکہ وہ تو ﴿ جَنّٰتِ عَدْنٍ﴾ ’’ہمیشہ قیام والی جنتیں ہیں ‘‘ جہاں نازل ہونے والے کبھی کوچ کریں گے نہ کہیں اور منتقل ہوں گے اور نہ ان کی نعمتیں زائل ہوں گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ جنتیں بہت وسیع ہوں گی اور ان میں بے شمار نعمتیں ، مسرتیں ، رونقیں اور خوش کن چیزیں ہوں گی۔ ﴿الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَیْبِ ﴾ یعنی جس کا رحمان نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنے اسم مبارک (الرحمان) کی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ ان میں ایسی رحمتیں اور ایسا حسن سلوک ہو گا کہ ان کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے تصور میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنی رحمت سے موسوم فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْهُهُمْ فَ٘فِیْ رَحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ (آل عمران:3؍107) ’’اور جن کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف ان کی اضافت، ان کی مسرتوں کے دوام پر دلالت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بقاء کے ساتھ یہ بھی باقی رہیں گی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار اور اس کی موجبات میں شمار ہوتی ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں (عباد) سے مراد اس کی الوہیت کے معتقد وہ بندے ہیں جو اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی شریعت کا التزام کرتے ہیں ۔ پس عبودیت ان کا وصف بن جاتی ہے، مثلاً: (عباد الرحمن) وغیرہ بخلاف ان بندوں کے جو ملک کے اعتبار سے تو اس کے بندے ہیں مگر اس کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ بندے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بندے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا، وہ ان کو رزق عطا کرتا ہے اور ان کی تدبیر کرتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے بندے نہیں اور اس کی عبودیت اختیاری کے تحت نہیں آتے جس کو اختیار کرنے والا قابل مدح ہے۔ ان کی عبودیت تو عبودیت اضطراری ہے جو قابل مدح نہیں ۔ ارشاد مقدس ﴿بِالْغَیْبِ﴾ میں یہ احتمال ہے کہ ﴿وَعَدَ الرَّحْمٰنُ﴾ سے متعلق ہو تب اس احتمال کی صورت میں یہ معنیٰ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ ان جنتوں کا غائبانہ وعدہ کیا ہے جن کا انھوں نے مشاہدہ کیا ہے نہ ان کو دیکھا ہے، وہ ان پر ایمان لائے، غائبانہ ان کی تصدیق کی اور ان کے حصول کے لیے کوشاں رہے، حالانکہ انھوں نے ان کو دیکھا ہی نہیں اور اگر وہ ان کو دیکھ لیتے تب ان کا کیا حال ہوتا، اس صورت میں ان کی شدید طلب رکھتے ہیں ، ان میں بہت زیادہ رغبت رکھتے اور ان کے حصول کے لیے سخت کوشش کرتے۔ اس میں ان کے ایمان بالغیب کی بنا پر ان کی مدح ہے، یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ دیتا ہے، نیز اس امر کا احتمال بھی ہے کہ (بالغیب) (عبادہ) سے متعلق ہو یعنی وہ لوگ جنھوں نے حالت غیب میں اور اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس کی عبادت کی۔ ان کی عبادت کا یہ حال ہے حالانکہ انھوں نے اس کو دیکھا نہیں اگر وہ اس کو دیکھ لیتے تو وہ اس کی بہت زیادہ عبادت کرتے اور اس کی طرف بہت زیادہ رجوع کرتے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ان کے اندر بہت زیادہ محبت اور اشتیاق ہوتا۔ اس کا یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جنتیں ، جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے، ان کا تعلق ایسے امور کے ساتھ ہے جو اوصاف کے دائرۂ ادراک سے باہر ہیں ۔ جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔پس اس آیت کریمہ میں جنت کے لیے شوق ابھارا گیا ہے، نیز آیت کریمہ میں بیان کردہ مجمل وصف نفوس کو اس کے حصول اور ساکن کو اس کی طلب میں متحرک کرتا ہے اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَ٘فْ٘سٌ مَّاۤ اُخْ٘فِیَ لَهُمْ مِّنْ قُ٘رَّةِ اَعْیُنٍ١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ:32؍17) ’’کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں ان کے لیے آنکھوں کی کون سی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔‘‘ مذکورہ تمام معانی صحیح اور ثابت ہیں ۔ البتہ پہلا احتمال زیادہ صحیح ہے اوراس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِیًّا﴾ ’’بے شک اس کا وعدہ آنے والا ہے۔‘‘ یعنی یہ ضرور ہوکر رہے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ وہ سب سے زیادہ سچی ہستی ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[61]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List