Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
19
SuraName
تفسیر سورۂ مریم
SegmentID
888
SegmentHeader
AyatText
{34 ـ 35} أي: ذلك الموصوف بتلك الصفات عيسى ابن مريم من غير شكٍّ ولا مِريةٍ، بل {قول الحقِّ} وكلام الله الذي لا أصدقَ منه قيلاً ولا أحسن منه حديثاً؛ فهذا الخبر اليقينيُّ عن عيسى عليه السلام، وما قيل فيه ممَّا يخالفُ هذا؛ فإنَّه مقطوعٌ ببطلانه، وغايتُه أن يكون شكًّا من قائلِهِ لا علم له به، ولهذا قال: {الذي فيه يَمْتَرونَ}؛ أي: يشكُّون فيمارون بشكِّهم ويجادلون بِخَرْصِهِم؛ فمن قائل عنه: إنَّه الله، أو ابن الله، أو ثالث ثلاثة، تعالى الله عن إفكِهِم وتقوُّلهم علوًّا كبيراً؛ فـ {ما كان لله أن يتَّخذ من ولدٍ}؛ أي: ما ينبغي ولا يليق؛ لأنَّ ذلك من الأمور المستحيلة؛ لأنَّه الغنيُّ الحميد المالك لجميع الممالك؛ فكيف يتَّخذ من عبادِهِ ومماليكه ولداً. {سبحانه}؛ أي: تنزَّه وتقدَّس عن الولد والنقص، {إذا قضى أمراً}؛ أي: من الأمور الصغار والكبار؛ لم يمتنعْ عليه ولم يستصعبْ، {فإنما يقول له كن فيكون}؛ فإذا كان قدرُهُ ومشيئتُهُ نافذاً في العالم العلويِّ والسفليِّ، فكيف يكون له ولدٌ؟! وإذا كان، إذا أراد شيئاً؛ قال له: كنْ فيكونُ؛ فكيف يُسْتَبْعَدُ إيجاده عيسى من غير أب؟!
AyatMeaning
[35,34] یعنی حضرت عیسیٰu ان صفات سے متصف ہیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں بلکہ یہ قول حق اور اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس سے زیادہ سچی اور اچھی کسی اور کی بات نہیں ۔ پس حضرت عیسیٰu کی بابت دی ہوئی خبر، علم یقینی ہے اور اس کے خلاف جو کچھ کہا گیا ہے وہ قطعی طور پر باطل ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قائل کا محض شک ہے جو علم سے بے بہرہ ہے، اس لیے ارشاد فرمایا: ﴿ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ ﴾ ’’جس میں لوگ جھگڑتے ہیں ‘‘ یعنی شک کرتے ہیں اور شک کی بنیاد پر جھگڑتے اور اندازوں کی بنیاد پر بحث کرتے ہیں … ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰu اللہ ہیں یا اللہ کے بیٹے ہیں یا تین میں سے ایک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی افتراء پردازی سے بہت بلند اور بالاتر ہے۔ ﴿ مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّؔتَّؔخِذَ مِنْ وَّلَدٍ﴾ ’’نہیں لائق اللہ کے کہ پکڑے وہ اولاد‘‘ یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں کیونکہ یہ ایک امر محال ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور قابل ستائش ہے وہ تمام مملکتوں کا مالک ہے۔ پس وہ اپنے بندوں اور غلاموں کو کیسے اولاد بنا سکتا ہے؟ ﴿ سُبْحٰؔنَهٗ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر نقص اور بیٹے کی حاجت سے پاک اور مقدس ہے۔ ﴿ اِذَا قَ٘ضٰۤى اَمْرًا﴾ یعنی جب بھی اللہ تعالیٰ چھوٹے یا بڑے معاملے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ معاملہ اس کے لیے مشکل اور ممتنع نہیں ہوتا۔ ﴿ فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُوْنُ﴾ ’’تو وہ صرف یہی کہتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے‘‘ جب اس کی قدرت اور مشیت تمام عالم علوی اور سفلی پر نافذ ہے تو اس کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے؟ اور جب وہ کسی چیز کے وجود کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے (کُنْ) ’’ہو جا‘‘ (فَیَکُوْنُ) ’’تو وہ چیز ہو جاتی ہے۔‘‘ تب حضرت عیسیٰu کو بغیر باپ کے وجود میں لانا کون سا مشکل کام ہے؟
Vocabulary
AyatSummary
[35,
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List