Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 18
- SuraName
- تفسیر سورۂ کہف
- SegmentID
- 879
- SegmentHeader
- AyatText
- {107} أي: {إنَّ الذين آمنوا}: بقلوبهم، {وعملوا الصالحات}: بجوارحهم، وشمل هذا الوصف جميع الدين؛ عقائده وأعماله، أصوله وفروعه الظاهرة والباطنة؛ فهؤلاء على اختلاف طبقاتهم من الإيمان والعمل الصالح، {لهم جناتُ الفردوس}: يُحتمل أن المراد بجنات الفردوس أعلى الجنة ووسطها وأفضلها، وأنَّ هذا الثواب لمن كمَّل الإيمان والعمل الصالح، وهم الأنبياء والمقرَّبون، ويُحتمل أن يُراد بها جميع منازل الجنان، فيشمل هذا الثواب جميع طبقات أهل الإيمان من المقرَّبين والأبرار والمقتصدين؛ كلٌّ بحسب حاله، وهذا [أَوْلى] المعنيين؛ لعمومه، ولذكر الجنة بلفظ الجمع المضاف إلى الفردوس، وأنَّ الفردوس يُطلق على البستان المحتوي على الكرم أو الأشجار الملتفَّة، وهذا صادق على جميع الجنة؛ فجنَّة الفردوس نُزُلٌ وضيافةٌ لأهل الإيمان والعمل الصالح، وأيُّ ضيافة أجلُّ وأكبر وأعظم من هذه الضيافة، المحتوية على كلِّ نعيم للقلوب والأرواح والأبدان؟! وفيها ما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعينُ، من المنازل الأنيقة والرياض الناضرة والأشجار المثمرة والطيور المغرِّدة المشجية والمآكل اللذيذة والمشارب الشهيَّة والنساء الحسان والخدم والولدان والأنهار السارحة والمناظر الرائقة والجمال الحسيِّ والمعنويِّ والنعمة الدائمة، وأعلى ذلك وأفضله وأجلُّه التنعُّم بالقرب من الرحمن ونيل رضاه الذي هو أكبر نعيم الجنان، والتمتُّع برؤية وجهه الكريم وسماع كلام الرءوف الرحيم فلله تلك الضيافة؛ ما أجلها وأجملها وأدومها وأكملها! وهي أعظم من أن يحيطَ بها وصفُ أحدٍ من الخلائق، أو تخطر على القلوب؛ فلو عَلِمَ العبادُ بعض ذلك النعيم علماً حقيقياً يصل إلى قلوبهم لطارت إليها قلوبُهم بالأشواق، ولتقطَّعت أرواحهم من ألم الفراق، ولساروا إليها زرافاتٍ ووحداناً، ولم يؤثروا عليها دنيا فانيةً ولذاتٍ منغصةً متلاشيةً، ولم يفوِّتوا أوقاتاً تذهب ضائعةً خاسرةً، يقابل كلَّ لحظة منها من النعيم من الحقب آلافٌ مؤلَّفة، ولكنَّ الغفلة شملت، والإيمان ضَعُف، والعلم قلَّ، والإرادة وَهَتْ ، فكان ما كان؛ فلا حول ولا قوَّةَ إلاَّ بالله العليِّ العظيم.
- AyatMeaning
- [107] یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے اور اپنے جوارح سے نیک عمل کیے اور یہ وصف تمام دین، یعنی اس کے عقائد و اعمال اور اس کے ظاہری اور باطنی اصول و فروع سب کو شامل ہے۔ تمام اہل ایمان کو، ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کے مراتب کے مطابق، جنت فردوس کے مختلف طبقات عطا ہوں گے۔ ’’جنات الفرودس‘‘ میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ اس سے مراد جنت کا بلند ترین ، بہترین اور افضل درجہ ہو اور یہ ثواب ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کی تکمیل کی اور وہ ہیں انبیائے کرام اور مقربین۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے جنت کی تمام منازل اور اس کے تمام درجے مراد ہوں اور یہ ثواب جنت کے تمام طبقات، یعنی مقربین، ابرار اور متوسطین ان کے حسب حال سب کوشامل ہو اور یہی معنیٰ زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ معنی عام ہے، نیز اس لیے کہ جنت کو جمع کے لفظ کے ساتھ ’’فردوس‘‘ کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں فردوس کا اطلاق اس باغ پر ہوتا ہے جو انگور کی بیلوں اور گنجان درختوں پر مشتمل ہو تب یہ لفظ تمام جنت پر صادق آتا ہے۔ پس جنت فردوس ان لوگوں کے لیے مہمانی اور ضیافت کی جگہ ہے جنھوں نے ایمان لانے کے بعد نیک عمل کیے۔ اس ضیافت سے بڑی، زیادہ عظیم اور زیادہ جلیل القدر کون سی ضیافت ہو سکتی ہے جو قلب و روح اور بدن کے لیے ہر نعمت پر مشتمل ہے۔ اس میں ہر وہ نعمت موجود ہے جس کی نفس خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی، مثلاً:خوبصورت گھر، سرسبز باغات، پھل دار درخت، سحرانگیز گیت، گاتے ہوئے پرندے، لذید ماکولات و مشروبات، خوبصورت بیویاں ، خدمت گزار لڑکے، بہتی ہوئی نہریں ، دلکش مناظر، حسی اور معنوی حسن و جمال اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ۔ اس سے بھی افضل اور جلیل القدر نعمت، رحمٰن کا تقرب، اس کی رضا کا حصول جو کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دیدار اور رؤف و رحیم کے کلام سے لطف اندوز ہونا … اللہ کی قسم! یہ ضیافت کتنی جلیل القدر کتنی خوبصورت، ہمیشہ رہنے والی اور کتنی کامل ہو گی۔ یہ ضیافت اس سے بہت بڑی ہے کہ مخلوق میں سے کوئی شخص اس کا وصف بیان کر سکے یا دلوں میں اس کے تصور کا گزر ہو سکے۔ اگر بندوں کو ان میں سے کچھ نعمتوں کا حقیقی علم حاصل ہو کر ان کے دلوں میں جاگزیں ہو جائے تو دل شوق سے اڑنے لگیں گے، جدائی کے درد سے روح لخت لخت ہو جائے گی اور بندے اکیلے اکیلے اور گروہ در گروہ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ وہ اس کے مقابلے میں دنیائے فانی اور اس کی ختم ہو جانے والی لذات کو کبھی بھی ترجیح نہیں دیں گے۔ وہ اپنے اوقات کو ضائع نہیں کریں گے کہ یہ اوقات خسارے اور ناکامی کا باعت بنیں کیونکہ اس جنت کا ایک لمحہ دنیا کی ہزاروں سال کی نعمتوں کے برابر ہے۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ غفلت نے گھیر رکھا ہے، ایمان کمزور پڑ گیا اور ارادہ اضمحلال کا شکار ہو گیا ہے، پس اس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا، فلاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم.
- Vocabulary
- AyatSummary
- [107
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF