Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 18
- SuraName
- تفسیر سورۂ کہف
- SegmentID
- 861
- SegmentHeader
- AyatText
- {35 ـ 36} ثم لم يكفِهِ هذا الافتخار على صاحبه، حتى حَكَمَ بجهله وظلمه، وظنَّ لما دخل جنته، {فقال ما أظنُّ أن تبيدَ}؛ أي: تنقطعَ وتضمحلَّ {هذه أبداً}: فاطمأنَّ إلى هذه الدنيا، ورضي بها، وأنكر البعث، فقال: {وما أظنُّ الساعة قائمةً ولئن رُدِدتُّ إلى ربِّي}: على ضرب المثل؛ {لأجِدَنَّ خيراً منها مُنْقَلَباً}؛ أي: ليعطيني خيراً من هاتين الجنتين! وهذا لا يخلو من أمرين: إمَّا أن يكون عالماً بحقيقة الحال، فيكون كلامُهُ هذا على وجه التهكُّم والاستهزاء، فيكون زيادةَ كفرٍ إلى كفرِهِ. وإما أن يكون هذا ظنَّه في الحقيقة، فيكون من أجهل الناس وأبخسهم حظًّا من العقل؛ فأيُّ تلازم بين عطاء الدُّنيا وعطاء الآخرة حتى يظنَّ بجهله أنَّ من أُعْطِي في الدنيا أُعْطِيَ في الآخرة؟! بل الغالب أنَّ الله تعالى يَزْوي الدُّنيا عن أوليائِهِ وأصفيائِهِ، ويوسِّعها على أعدائه، الذين ليس لهم في الآخرة نصيبٌ. والظاهر أنَّه يعلم حقيقة الحال، ولكنَّه قال هذا الكلام على وجه التهكُّم والاستهزاء؛ بدليل قوله: {وَدَخَلَ جنَّته وهو ظالمٌ لنفسِهِ}: فإثْبات أنَّ وصفه الظلم في حال دخوله الذي جرى منه من القول ما جرى، يدلُّ على تمرُّده وعناده.
- AyatMeaning
- [36,35] پھر اس نے صرف اپنے ساتھی پر فخر کے اظہار ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی جہالت اور ظلم کی بنا پر حکم لگایا اور جب وہ اپنے باغ میں داخل ہوا تو اس نے اپنے گمان کو الفاظ کا پیرایہ دیا: ﴿قَالَ مَاۤ اَظُ٘نُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰؔذِهٖۤ اَبَدًا﴾ ’’اس نے کہا، میں نہیں خیال کرتا کہ یہ (باغ) کبھی تباہ ہو۔‘‘ یعنی یہ باغ کبھی ختم اور مضمحل نہ ہو گا۔ وہ اس دنیا پر مطمئن ہو کر اسی پر راضی ہو گیا اور اس نے آخرت کا انکار کر دیا، کہنے لگا: ﴿ وَّمَاۤ اَظُ٘نُّ السَّاعَةَ قَآىِٕمَةً١ۙ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ﴾ ’’اور نہیں خیال کرتا میں کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا‘‘ یعنی فرض کیا قیامت قائم ہوتی ہے ﴿ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّؔنْهَا مُنْقَلَبًا ﴾ ’’تو پاؤں گا اس سے بہتر وہاں پہنچ کر‘‘ یعنی اللہ مجھے ان باغوں سے بہتر ٹھکانا عطا کرے گا، اس کی یہ بات دو امور سے خالی نہیں : (۱) یا تو وہ حقیقت حال کا علم رکھتا ہے تب اس کا یہ کلام ٹھٹھے اور تمسخر کے طور پر ہے یہ اس کے کفر میں اضافے کا باعث ہے۔ (۲) یا وہ حقیقت میں یہی سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا تب وہ دنیا کا جاہل ترین شخص اور عقل سے بے بہرہ ہے۔ دنیا کی عطا اور آخرت کی عطا میں کون سا تلازم ہے کہ کوئی جاہل شخص اپنی جہالت کی بنا پر یہ سمجھے کہ جسے اس دنیا میں عطا کر دیا گیا ہے اسے آخرت میں بھی عطا کیا جائے گا بلکہ غالب طور پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء اور خاص بندوں سے دنیا کو دور ہٹا دیتا اور اپنے دشمنوں کو دنیا عطا کرتا ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو حقیقت کا علم تھا مگر اس نے بات محض ٹھٹھے اور تمسخر کے طور پر کہی تھی اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَدَخَلَ جَنَّتَهٗ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ﴾ ’’اور وہ اپنے باغ میں گیا، جبکہ وہ اپنے ساتھ ظلم کر رہا تھا‘‘ پس باغ میں داخل ہوتے وقت اس سے صادر ہونے والے کلمات سے اس کے وصف ظلم کا اثبات، اس کے تمرد اور عناد پر دلالت کرتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [36,
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF