Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
90
SegmentHeader
AyatText
{184} ولما ذكر أنه فرض عليهم الصيام أخبر أنه أيام معدودات أي قليلة في غاية السهولة ثم سهل تسهيلاً آخر فقال: {فمن كان منكم مريضاً أو على سفر فعدة من أيام أخر}؛ وذلك للمشقة في الغالب رخص الله لهما في الفطر، ولما كان لا بد من حصول مصلحة الصيام لكل مؤمن أمرهما أن يقضياه في أيام أخر إذا زال المرض وانقضى السفر وحصلت الراحة، وفي قوله: {فعدة من أيام}؛ فيه دليل على أنه يقضي عدد أيام رمضان كاملاً كان أو ناقصاً وعلى أنه يجوز أن يقضي أياماً قصيرة باردة عن أيام طويلة حارة كالعكس، وقوله: {وعلى الذين يطيقونه}؛ أي: يطيقون الصيام {فدية}؛ عن كل يوم يفطرونه {طعام مسكين}؛ وهذا في ابتداء فرض الصيام لما كانوا غير معتادين للصيام وكان فرضه حتماً فيه مشقة عليهم دَرَّجَهم الربُّ الحكيم بأسهل طريق، وخَيَّرَ المطيق للصوم بين أن يصوم وهو أفضل أو يطعم ولهذا قال: {وأن تصوموا خير لكم}؛ ثم بعد ذلك جعل الصيام حتماً على المطيق، وغير المطيق يفطر ويقضيه في أيام أُخَر، وقيل: وعلى الذين يطيقون؛ أي يتكلفونه، ويشق عليهم مشقة غير محتملة كالشيخ الكبير، فدية عن كل يوم مسكين، وهذا هو الصحيح.
AyatMeaning
[184] چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اہل ایمان پر روزے فرض کر دیے، اس لیے یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ گنتی کے چند روزے ہیں۔ سہولت کی خاطر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور سہولت عطا کر دی ،چنانچہ فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ ’’پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرلے۔‘‘ چونکہ غالب طور پر مریض کو اور مسافر کو دوران سفر مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو روزہ چھوڑنے کی رخصت عطا کر دی ہے۔ چونکہ روزے کی منفعت و مصلحت کا حصول ہر مومن کا مطلوب و مقصود ہے، اس لیے مریض اور مسافر کو حکم دیا کہ جب مرض جاتا رہے اور سفر ختم ہو جائے اور انسان کو راحت حاصل ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کے دنوں کی گنتی کی قضا دی جائے خواہ رمضان پورا ہو یا ناقص۔ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ گرمیوں کے طویل دنوں کی قضا سردیوں کے چھوٹے دنوں میں دی جا سکتی ہے اور اس کے برعکس چھوٹے دنوں کی قضا بڑے دنوں میں دی جا سکتی ہے۔ ﴿ وَعَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ ﴾ ’’اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہوں۔‘‘ یعنی جو روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ روزہ نہ رکھیں ، تو وہ ﴿ فِدْیَةٌ ﴾ فدیہ دیں ﴿ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ ﴾ ’’ایک مسکین کا کھانا۔‘‘ یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ یہ حکم روزوں کے فرض ہونے کی ابتدا میں تھا ،چونکہ انھیں روزے رکھنے کی عادت نہیں تھی اور روزے ان پر فرض تھے، تاہم اس میں ان کے لیے مشقت تھی، اس لیے رب حکیم نے نہایت آسان طریقے کے ساتھ انھیں اس راستے پر لگایا اور روزے کی طاقت رکھنے والے کو اللہ نے اختیار دے دیا کہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ مگر روزہ رکھنا افضل ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ ﴾ ’’اگر تم روزہ رکھو تو تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر اس مسلمان پر روزہ رکھنا فرض کر دیا جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور طاقت نہ رکھنے والے شخص کو روزہ چھوڑنے اور دوسرے دنوں میں اس کی قضا دینے کی رخصت دے دی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ﴿ وَعَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ ﴾ کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو بہت تکلیف سے روزہ رکھتے ہیں، یعنی وہ روزے کی مشقت کے متحمل نہیں، جیسے بہت بوڑھا وغیرہ تو وہ روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور یہی مسلک صحیح ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[184
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List