Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 18
- SuraName
- تفسیر سورۂ کہف
- SegmentID
- 858
- SegmentHeader
- AyatText
- {28} يأمر تعالى نبيَّه محمداً - صلى الله عليه وسلم -، وغيره أسوته في الأوامر والنواهي أن يصبر نفسه مع المؤمنين العُبَّاد المنيبين. {الذين يَدْعونَ ربَّهم بالغداة والعشيِّ}؛ أي: أول النهار وآخره؛ يريدون بذلك وجه الله، فوصفهم بالعبادة والإخلاص فيها؛ ففيها الأمر بصحبة الأخيار ومجاهدة النفس على صحبتهم ومخالطتهم، وإنْ كانوا فقراء؛ فإنَّ في صحبتهم من الفوائد ما لا يُحصى. {ولا تَعْدُ عيناك عنهم}؛ أي: لا تجاوزهم بصرك وترفع عنهم نظرك؛ {تريد زينةَ الحياةِ الدُّنيا}؛ فإنَّ هذا ضارٌّ غير نافع، قاطعٌ عن المصالح الدينيَّة؛ فإنَّ ذلك يوجب تعلُّق القلب بالدُّنيا، فتصير الأفكار والهواجس فيها، وتزول من القلب الرغبةُ في الآخرة؛ فإنَّ زينة الدُّنيا تروق للناظر وتَسْحَر القلب ، فيغفل القلب عن ذكر الله، ويُقْبِلُ على اللَّذَّات والشهوات، فيضيع وقته، وينفرط أمره، فيخسر الخسارة الأبديَّة والندامة السرمديَّة، ولهذا قال: {ولا تُطِعْ من أغْفَلْنا قلبه عن ذكرنا}: غَفَلَ عن الله فعاقبه بأن أغْفَلَه عن ذكره، {واتَّبَع هواه}؛ أي: صار تبعاً لهواه؛ حيث ما اشتهتْ نفسُه فعله، وسعى في إدراكه، ولو كان فيه هلاكه وخُسرانه؛ فهو قد اتَّخذ إلهه هواه؛ كما قال تعالى: {أفرأيتَ مَنِ اتَّخذ إلهه هواه وأضلَّه الله على علم ... } الآية. {وكان أمرُهُ}؛ أي: مصالح دينه ودنياه {فُرُطاً}؛ أي: ضائعة معطَّلة؛ فهذا قد نهى الّله عن طاعته؛ لأن طاعته تدعو إلى الاقتداء به، ولأنَّه لا يدعو إلاَّ لما هو متَّصف به. ودلَّت الآية على أنَّ الذي ينبغي أن يُطاع، ويكون إماماً للناس مَن امتلأ قلبُه بمحبَّة الله، وفاض ذلك على لسانه، فلهج بذكر الله، واتَّبع مراضي ربِّه، فقدَّمها على هواه، فحفظ بذلك ما حَفِظَ من وقته، وصلحت أحوالُه، واستقامت أفعاله، ودعا الناس إلى ما منَّ الله به عليه؛ فحقيقٌ بذلك أن يُتَّبع، ويُجعل إماماً. والصبر المذكور في هذه الآية هو الصبر على طاعة الله، الذي هو أعلى أنواع الصبر، وبتمامه يتمُّ باقي الأقسام. وفي الآية استحبابُ الذِّكر والدُّعاء والعبادة طرفي النهار؛ لأنَّ الله مدحهم بفعله، وكلُّ فعل مَدَحَ الله فاعله؛ دلَّ ذلك على أن الله يحبُّه؛ وإذا كان يحبه فإنَّه يأمر به ويرغِّب فيه.
- AyatMeaning
- [28] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe کو اور دوسروں کو، جو اوامر و نواہی میں آپ کے نمونہ پر عمل پیرا ہیں ، حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مومنوں کے ساتھ جوڑے رکھیں جو اللہ کے بندے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں ۔ ﴿ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰؔوةِ وَالْ٘عَشِیِّ ﴾ ’’جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح وشام‘‘ یعنی دن کے پہلے اور آخری حصے میں ، اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی بندگی اور اس میں ان کے اخلاص کو بیان کیا ہے۔ پس اس آیت کریمہ میں حکم دیا گیا ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے، ان کی صحبت اختیار کرنے اور ان کے ساتھ اختلاط میں نفس کے ساتھ مجاہدہ کیا جائے۔ خواہ یہ نیک لوگ فقرا ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ ان کی صحبت میں اتنے فوائد ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ﴿ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ﴾ ’’اور تمھاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں ۔‘‘ یعنی آپe کی نظریں ان سے تجاوز کریں نہ آپ اپنی نظروں کو ان سے ہٹائیں۔ ﴿ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’دنیا کی زندگی کی رونق کی تلاش میں ‘‘ کیونکہ یہ چیز نقصان دہ ہے اس میں کوئی فائدہ نہیں یہ تمام دینی مصالح کی قاطع ہے یہ دنیا سے دل کے تعلق کی موجب بنتی ہے، دل میں اندیشے اور وسوسے جاگزیں ہو جاتے ہیں اور دل سے آخرت کی رغبت زائل ہو جاتی ہے۔ دنیا کی زیب و زینت دیکھنے والے کو بہت خوش کن نظر آتی ہے، قلب پر جادو کر دیتی ہے جس سے قلب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو کر لذات و شہوات میں مگن ہو جاتا ہے تب وہ اپنے وقت کو ضائع کرکے اپنے معاملے میں کوتاہی کا شکار ہوتا ہے۔ وہ دائمی خسارے میں پڑ جاتا ہے اور ابدی ندامت اس کا نصیب بن جاتی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَا تُ٘طِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا﴾ ’’اس شخص کا کہنا نہ مانیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو سزا دی کہ اسے اپنے ذکر سے غافل کر دیا۔ ﴿ وَاتَّ٘بَعَ هَوٰىهُ ﴾ ’’اور وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگ گیا‘‘ اس کے نفس نے جو چاہا وہ کیا اور اس کو پالینے کی کوشش کرنے لگا خواہ اس میں اس کی ہلاکت اور اس کے لیے خسارہ ہی کیوں نہ ہو۔ پس اس نے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیا جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّؔخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ ﴾ (الجاثیۃ:45؍23) ’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کر دیا۔‘‘ ﴿ وَؔكَانَ اَمْرُهٗ﴾ ’’اور اس کا کام ہے‘‘ یعنی اس کے دین و دنیا کے مصالح ﴿ فُ٘رُطًا ﴾ ’’حد سے نکل جانا‘‘ یعنی ضائع اور معطل ہونے والے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کی اطاعت سے روکا ہے کیونکہ اس کی اطاعت اس کی پیروی کرنے کی دعوت دیتی ہے، نیز اس لیے کہ وہ صرف اسی چیز کی طرف دعوت دیتا ہے جس سے وہ خود متصف ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ وہی شخص اطاعت کے لائق اور لوگوں کا امام بننے کے قابل ہے جس کا دل محبت الٰہی سے لبریز ہو اور اس کی زبان پر محبت الٰہی کا فیضان ہو، وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہو، اپنے رب کی رضا کی پیروی کرتا ہو اور اسے اپنے نفس کی خواہشات پر مقدم رکھتا ہو۔ پس اس طرح وہ اپنے وقت کی حفاظت کرے گا، اس کے تمام احوال درست اور تمام افعال ٹھیک ہو جائیں گے۔ وہ لوگوں کو اس چیز کی طرف دعوت دے گا جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کیا ہے۔ پس یہ شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے اور اس کو امام بنایا جائے۔ آیت مقدسہ میں جس صبر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر ہے۔ یہ صبر کی بلند ترین قسم ہے اس کی تکمیل سے صبر کی باقی تمام اقسام کی تکمیل ہوتی ہے۔ آیت مبارکہ سے ذکر الٰہی، دعا اور دن کے دونوں حصوں میں عبادت کا استحباب مستفاد ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل پر ان کی مدح کی ہے اور جس فعل پر اللہ تعالیٰ فاعل کی مدح کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس فعل کو پسند کرتا ہے تو اس کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [28]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF