Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
18
SuraName
تفسیر سورۂ کہف
SegmentID
852
SegmentHeader
AyatText
{20} وذكروا المحذور من اطِّلاع غيرهم عليهم وظهورهم عليهم أنَّهم بين أمرين: إما الرَّجم بالحجارة فيقتلونهم أشنع قِتلة لِحِنْقهم عليهم وعلى دينهم، وإما أن يفتنوهم عن دينهم ويردُّوهم في ملَّتهم، وفي هذه الحال لا تفلحون أبداً، بل يخسرون في دينهم ودُنياهم وأخراهم. وقد دلَّت هاتان الآيتان على عدة فوائد: منها: الحثُّ على العلم وعلى المباحثة فيه؛ لكون الله بعثهم لأجل ذلك. ومنها: الأدب فيمن اشتبه عليه العلم أن يردَّه إلى عالمه، وأن يَقِفَ عند حدِّه. ومنها: صحة الوكالة في البيع والشراء وصحَّة الشركة في ذلك. ومنها: جواز أكل الطيِّبات والمطاعم اللَّذيذة إذا لم تخرُجْ إلى حدِّ الإسراف المنهيِّ عنه؛ لقوله: {فَلْيَنظُرْ أيُّها أزكى طعاماً فليأتِكُم برزقٍ منه}: وخُصوصاً إذا كان الإنسان لا يلائمه إلا ذلك، ولعلَّ هذا عمدة كثير من المفسِّرين القائلين بأنَّ هؤلاء أولاد ملوك؛ لكونهم أمروه بأزكى الأطعمة التي جرت عادة الأغنياء الكبار بتناولها. ومنها: الحثُّ على التحرُّز والاستخفاء والبعد عن مواقع الفتن في الدين واستعمال الكِتْمان في ذلك على الإنسان وعلى إخوانه في الدين. ومنها: شدة رغبة هؤلاء الفتية في الدين وفرارهم من كلِّ فتنةٍ في دينهم وتركُهم أوطانَهم في الله. ومنها: ذِكْر ما اشتمل عليه الشرُّ من المضارِّ والمفاسد الداعية لبغضِهِ وتركِهِ، وأنَّ هذه الطريقة هي طريقة المؤمنين المتقدِّمين والمتأخِّرين؛ لقولهم: {ولن تُفْلِحوا إذاً أبداً}.
AyatMeaning
[20] ان کے سامنے یہ اندیشہ تھا کہ لوگوں کو اگر ان کی اطلاع ہوگئی تو اس کے نتیجے میں ان کے ساتھ جو سلوک ہو گا وہ ان دو امور میں سے ایک ہو گا۔ یا تو وہ ان کو سنگسار کر کے نہایت برے طریقے سے ان کو قتل کردیں گے کیونکہ انھیں ان پر اور ان کے دین پر سخت غصہ ہے۔ یا انھیں تعذیب اور آزمائش میں مبتلا کر کے ان کو اپنے دین میں واپس لانے کی کوشش کریں گے اور اس حال میں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے بلکہ وہ اپنے دین، دنیا اور آخرت کے بارے میں سخت خسارے میں رہیں گے۔ یہ دو آیات کریمہ متعدد فوائد پر دلالت کرتی ہیں : (۱) حصول علم اور علمی مباحثہ پر ترغیب کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی کی خاطر اصحاب کہف کو دوبارہ زندہ کیا۔ (۲) جب بندے پر علم مشتبہ ہو جائے تو اس کا ادب یہ ہے کہ وہ اس علم کو اس شخص کی طرف لوٹا دے جو اس کا عالم ہے اور خود اپنی حد پر ٹھہر جائے۔ (۳) خریدوفروخت میں وکالت اور اس میں شراکت صحیح ہے۔ (۴) اچھی چیزیں اور لذیذ کھانے کھانا جائز ہے جبکہ ان میں اسراف نہ ہو جو ممنوع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ فَلْیَنْظُ٘رْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّؔنْهُ ﴾ ’’پس وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں سے ملتا ہے پس وہ تمھارے لیے وہیں سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آئے۔‘‘ خاص طور پر جبکہ انسان کو اس کے سوا کوئی اور کھانا موافق نہ آتا ہو۔ شاید یہی آیت کریمہ ان مفسرین کے قول کی بنیاد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اصحاب کہف بادشاہوں کی اولاد تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے کھانا لانے والے کو اچھا اور لذیذ کھانا لانے کا حکم دیا تھا کیونکہ خوشحال اور بڑے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ اچھا کھانا تناول کرتے ہیں ۔ (۵) جب دین میں ابتلا اور فتنہ کا موقع ہو تو اس سے بچنے، چھپنے اور فتنوں کی جگہوں سے دور رہنے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے دینی بھائیوں کو چھپائے۔ (۶) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو دین میں شدید رغبت تھی وہ اپنے دین کے بارے میں ہر قسم کے فتنہ سے دور بھاگتے تھے اور انھوں نے دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑ دیا تھا۔ (۷) ان آیات کریمہ میں اس شر کا ذکر ہے جو ضرر اور ان مفاسد پر مشتمل ہے جو اس کی ناپسندیدگی کا باعث اور اس کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور یہ کہ یہ طریقہ تمام متقدمین اور متاخرین اہل ایمان کا طریقہ ہے کیونکہ اہل کہف نے کہا تھا: ﴿ وَ لَ٘نْ تُفْلِحُوْۤا اِذًا اَبَدًا ﴾ اگر وہ تمھیں اپنی ملت میں واپس لوٹا دیں تو تم کبھی فلاح نہیں پاؤ گے۔
Vocabulary
AyatSummary
[20]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List