Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 89
- SegmentHeader
- AyatText
- {180} أي: فرض الله عليكم يا معشر المؤمنين {إذا حضر أحدكم الموت}؛ أي: أسبابه كالمرض المشرف على الهلاك وحضور أسباب المهالك وكان قد {ترك خيراً }؛ وهو المال الكثير عرفاً فعليه أن يوصي لوالديه وأقرب الناس إليه بالمعروف على قدر حاله من غير سرف ولا اقتصار على الأبعد دون الأقرب، بل يرتبهم على القرب والحاجة ولهذا أتى فيه بأفعل التفضيل، وقوله: {حقًّا على المتقين}؛ دل على وجوب ذلك، لأن الحق هو الثابت، وقد جعله الله من موجبات التقوى. واعلم أن جمهور المفسرين يرون أن هذه الآية منسوخة بآية المواريث، وبعضهم يرى أنها في الوالدين والأقربين غير الوارثين، مع أنه لم يدل على التخصيص بذلك دليل، والأحسن في هذا أن يقال إن هذه الوصية للوالدين والأقربين مجملة ردها الله تعالى إلى العرف الجاري، ثم إن الله تعالى قدر للوالدين الوارثين وغيرهما من الأقارب الوارثين هذا المعروف في آيات المواريث بعد أن كان مجملاً، وبقي الحكم فيمن لم يرثوا من الوالدين الممنوعين من الإرث وغيرهما ممن حُجِب بشخص أو وصف، فإن الإنسان مأمور بالوصية لهؤلاء وهم أحق الناس ببره، وهذا القول تتفق عليه الأمة، ويحصل به الجمع بين القولَيْنِ المتقدِمَيْنِ، لأن كلاًّ من القائلَيْنِ بهما كلٌّ منهم لَحظَ مَلْحَظاً واختلف المورد، فبهذا الجمع يحصل الاتفاق والجمع بين الآيات، فإنه مهما أمكن الجمع كان أحسن من ادعاء النسخ الذي لم يدل عليه دليل صحيح.
- AyatMeaning
- [180] یعنی اے مومنوں کے گروہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے، یعنی جب موت کے اسباب، مثلاً مہلک مرض اور دیگر ہلاکت خیز اسباب قریب آجائیں تو اللہ تعالیٰ نے تم پر (وصیت) فرض کی ہے۔ ﴿ اِنْ تَرَكَ خَیْرًا ﴾ ’’اگر اس نے مال چھوڑا ہو‘‘ ’’خیر‘‘ عرف میں مال کثیر کو کہا جاتا ہے، پس اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے والدین اور ان لوگوں کے لیے جو سب سے زیادہ اس کی نیکی کے مستحق ہیں اپنے حال اور طاقت کے مطابق بغیر کسی اسراف کے، وصیت کرے۔ علاوہ ازیں قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر صرف دور کے رشتہ داروں کے لیے ہی وصیت نہ کرے، بلکہ وصیت کو ضرورت اور قرابت مندی کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دے، اسی لیے اسم تفضیل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ (یعنی اقربین جس کا مطلب یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ قریب ہے، وہ اتنا ہی زیادہ تمھارے مال میں استحقاق رکھتا ہے) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’’یہ حکم لازم ہے پرہیز گاروں پر‘‘ وصیت کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ وہ حق ثابت ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے موجبات تقویٰ میں شمار کیا ہے۔ جان لیجیے کہ جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کو میراث کی آیت نے منسوخ کر دیا ہے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں وصیت کا حکم والدین اور غیر وارث رشتہ داروں کے لیے ہے حالانکہ ایسی کوئی دلیل نہیں جو اس تخصیص پر دلالت کرتی ہو۔ اس ضمن میں بہترین رائے یہ ہے کہ یہ وصیت مجمل طور پر والدین اور قریبی رشتے داروں کے لیے ہے، پھر اس کو اللہ تعالیٰ نے عرف جاری کی طرف لوٹا دیا۔ پھر اس اجمالی حکم کے بعد اللہ تعالیٰ نے وارث والدین اور وارث رشتہ داروں کے لیے اس معروف کو آیات میراث میں مقدر فرما دیا (یعنی ان کے حصوں کا تعین فرما دیا) اور وصیت کا حکم ان والدین اور رشتہ داروں کے لیے باقی رہ گیا جو وراثت سے محروم ہو رہے ہوں تو وصیت کرنے والا ان کے حق میں وصیت کرنے پر مامور ہے۔ اور یہ لوگ اس کی نیکی کے سب سے زیادہ محتاج ہیں۔ اس قول پر تمام امت متفق ہو سکتی ہے اور اس سے سابقہ دونوں اقوال میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے کیونکہ دونوں فریقین نے اس آیت کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا اور اختلاف کا باعث بنے۔ اس تطبیق سے اتفاق اور دونوں آیات میں مطابقت حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ دونوں آیتوں میں جمع و تطبیق ممکن ہے اور دو آیتوں کے درمیان تطبیق نسخ کے اس دعوے سے بہتر ہے جس کی تائید میں کوئی صحیح دلیل نہ ہو۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [180
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF