Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 88
- SegmentHeader
- AyatText
- {178} يَمْتَنُّ تعالى على عباده المؤمنين بأنه فرض عليهم {القصاص في القتلى}؛ أي: المساواة فيه، وأن يقتل القاتل على الصفة التي قتل عليها المقتول، إقامة للعدل والقسط بين العباد، وتوجيه الخطاب لعموم المؤمنين فيه دليل على أنه يجب عليهم كلهم حتى أولياء القاتل حتى القاتل بنفسه إعانة ولي المقتول إذا طلب القصاص، ويمكنه من القاتل، وأنه لا يجوز لهم أن يحولوا بين هذا الحد، ويمنعوا الولي من الاقتصاص كما عليه عادة الجاهلية ومن أشبههم من إيواء المحدِثين. ثم بين تفصيل ذلك فقال: {الحر بالحر}؛ يدخل بمنطوقها الذكر بالذكر، والأنثى بالأنثى؛ والأنثى بالذكر والذكر بالأنثى، فيكون منطوقها مقدماً على مفهوم قوله الأنثى بالأنثى مع دلالة السنة على أن الذكر يقتل بالأنثى، وخرج من عموم هذا الأبوان وإن علوا فلا يقتلان بالولد لورود السنة بذلك مع أن في قوله: {القصاص}؛ ما يدل على أنه ليس من العدل أن يقتل الوالد بولده ولأن ما في قلب الوالد من الشفقة والرحمة ما يمنعه من القتل لولده إلا بسبب اختلال في عقله أو أذية شديدة جدًّا من الولد له، وخرج من العموم أيضاً الكافر بالسنة مع أن الآية في خطاب المؤمنين خاصة، وأيضاً فليس من العدل أن يقتل ولي الله بعدوه، {والعبد بالعبد}؛ ذكراً كان أو أنثى تساوت قيمهما أو اختلفت، ودل بمفهومها على أن الحر لا يقتل بالعبد لكونه غير مساوٍ له، {والأنثى بالأنثى}؛ أخذ بمفهومها بعض أهل العلم فلم يجز قتل الرجل بالمرأة، وتقدم وجه ذلك. وفي هذه الآية دليل على أن الأصل وجوب القود في القتل وأن الدية بدل عنه، فلهذا قال: {فمن عفي له من أخيه شيء}؛ أي: عفا ولي المقتول عن القاتل إلى الدية أو عفا بعض الأولياء فإنه يسقط القصاص وتجب الدية وتكون الخيرة في القود واختيار الدية إلى الولي، فإذا عفا عنه، وجب على الولي؛ أي ولي المقتول أن يتبع القاتل، {بالمعروف}؛ من غير أن يشق عليه ولا يحمله ما لا يطيق، بل يحسن الاقتضاء والطلب ولا يحرجه. وعلى القاتل {أداء إليه بإحسان}؛ من غير مطلٍ ولا نقص ولا إساءة فعلية أو قولية، فهل جزاء الإحسان إليه بالعفو إلا الإحسان بحسن القضاء، وهذا مأمور به في كل ما ثبت في ذمم الناس للإنسان مأمور من له الحق بالاتباع بالمعروف ومن عليه الحق بالأداء بالإحسان ، وفي قوله: {فمن عفي له من أخيه}؛ ترقيق وحث على العفو إلى الدية وأحسن من ذلك العفو مجاناً. وفي قوله: {أخيه}؛ دليل على أن القاتل لا يكفر لأن المراد بالأخوة هنا أخوة الإيمان فلم يخرج بالقتل منها ومن باب أولى أن سائر المعاصي التي هي دون الكفر لا يكفر بها فاعلها وإنما ينقص بذلك إيمانه، وإذا عفا أولياء المقتول أو عفا بعضهم احتقن دم القاتل وصار معصوماً منهم ومن غيرهم، ولهذا قال: {فمن اعتدى بعد ذلك}؛ أي: بعد العفو، {فله عذاب أليم}؛ أي في الآخرة، وأما قتله وعدمه فيؤخذ مما تقدم لأنه قتل مكافئاً له فيجب قتله بذلك، وأما من فسر العذاب الأليم بالقتل، وأن الآية تدل على أنه يتعين قتله ولا يجوز العفو عنه، وبذلك قال بعض العلماء، والصحيح الأول لأن جنايته لا تزيد على جناية غيره.
- AyatMeaning
- [178] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے مقتولین کے بارے میں قصاص، یعنی اس میں مساوات کو فرض کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ قاتل کو مقتول کے بدلے میں اسی طریقے سے قتل کیا جائے جس طریقے سے اس نے مقتول کو قتل کیا تھا، یہ بندوں کے درمیان عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اس خطاب کا رخ عام مومنوں کی طرف ہے، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان پر یہ فرض ہے حتی کہ قاتل کے اولیاء اور خود قاتل پر بھی کہ جب مقتول کا ولی قصاص کا مطالبہ کرے اور قاتل سے قصاص لینا ممکن ہو تو مقتول کے ولی کی مدد کی جائے اور یہ کہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس حد کے درمیان حائل ہوں اور مقتول کے وارث کو بدلہ لینے سے روکیں، جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی یا ان جیسے دیگر لوگ جو مجرموں کو پناہ دیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس قصاص کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ ﴾ ’’آزاد، بدلے آزاد کے‘‘ الفاظ کے اعتبار سے اس میں مرد، بدلے مرد کے، کا مفہوم بھی شامل ہے۔ ﴿ وَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى ﴾ ’’عورت، بدلے عورت کے۔‘‘ اس کا مطلب ہے مرد کے بدلے عورت اور عورت کے بدلے مرد۔ پس منطوق کلام، وَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى کے مفہوم پر مقدم ہو گا، اس لیے کہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا (اگر مرد عورت کا قاتل ہو گا) اس عموم سے والدین (اوپر تک) مستثنیٰ ہیں۔ لہٰذا بیٹے کے قتل کے قصاص میں والدین کو قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ استثناء سنت میں وارد ہوا ہے۔ نیز قصاص کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد دلالت کرتا ہے کہ بیٹے کے قتل کی پاداش میں باپ کو قتل کرنا انصاف نہیں۔ نیز اس لیے کہ باپ کا دل اپنے بیٹے کے لیے رحم اور شفقت سے لبریز ہوتا ہے جو اسے بیٹے کو قتل کرنے سے روکتا ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ باپ کے دماغ میں کوئی خلل ہو یا بیٹے کی طرف سے اسے نہایت سخت اذیت پہنچی ہو۔ سنت نبوی ہی کی رو سے اس عموم سے کافر بھی خارج ہے۔ نیز اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ خطاب خاص طور پر اہل ایمان کے لیے ہے۔ نیز یہ قرین انصاف بھی نہیں کہ اللہ کے دشمن کے بدلے اللہ تعالیٰ کے دوست کو قتل کیا جائے۔ اور غلام کے بدلے غلام کو قتل کیا جائے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ ان کی قیمت مختلف ہو یا برابر، مفہوم کلام یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ غلام آزاد کے مساوی نہیں ہوتا۔ بعض اہل علم نے (وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی) کے مفہوم سے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کرنا جائز نہیں۔ اور اس کی وجہ گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔ (کہ یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے) اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اصل، قتل میں قصاص کا واجب ہونا ہے (یعنی قتل کے بدلے میں قتل ضروری ہے) اور دیت تو قصاص کا بدل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ ﴾ ’’اگر اس (قاتل) کو اس کے (مقتول) بھائی سے کچھ معاف کردیا جائے۔‘‘ یعنی اگر مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر کے دیت قبول کر لے یا مقتول کے اولیاء میں سے کوئی شخص مقتول کو معاف کر دے تو اس صورت میں قصاص ساقط ہو جائے گا اور دیت واجب ہو جائے گی۔ قصاص میں اختیار ہو گا اور مقتول کا ولی قصاص کی بجائے دیت لے سکتا ہے۔ جب مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر دے تب اس پر واجب ہے کہ وہ قاتل سے معروف طریقے سے خون بہا کا مطالبہ کرے ﴿بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’معروف طریقے سے‘‘ یعنی ایسے طریقے سے کہ اس پر شاق نہ گزرے اور اتنا زیادہ مطالبہ نہ کرے جس کو ادا کرنے کی قاتل میں طاقت نہ ہو، بلکہ نہایت احسن طریقے سے قاتل سے دیت کا تقاضا کرے اور اسے تنگی میں مبتلا نہ کرے۔ ﴿ وَاَدَآءٌ اِلَیْهِ بِـاِحْسَانٍ ﴾ ’’اور احسان کے ساتھ اسے ادا کرنا چاہیے۔‘‘ یعنی قاتل پر واجب ہے کہ وہ ٹال مٹول، خون بہا میں کمی اور قولی یا فعلی تکلیف پہنچائے بغیر، بھلے طریقے سے دیت ادا کرے۔ معاف کر دینے کے احسان کا بدلہ یہ ہے کہ خون بہا کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے۔ انسان پر لوگوں کی جو ذمہ داریاں واجب ہیں ان میں یہی اصول مامور بہ ہے کہ جس نے کسی سے اپنا حق لینا ہے، وہ اس امر پر مامور ہے کہ وہ معروف طریقے سے حق کا مطالبہ کرے اور جس کے ذمے حق ہے وہ اسے بھلے طریقے سے ادا کرے۔ ﴿ فَ٘مَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ ﴾ میں نرمی اختیار کرنے اور قصاص معاف کر کے دیت قبول کرنے کی ترغیب ہے۔ اس سے بھی زیادہ احسن بات یہ ہے کہ کچھ لیے بغیر ہی قاتل کو معاف کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (اَخِیْهِ) اس بات کی دلیل ہے کہ قاتل کی تکفیر نہ کی جائے کیونکہ یہاں ’’اخوت‘‘ سے مراد اخوت ایمانی ہے۔ پس قتل کے ارتکاب سے قاتل دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہو گا۔ جب بات یہ ہے تو دیگر معاصی کا مرتکب، جو کفر سے کم تر ہیں، بطریق اولیٰ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہو گا البتہ اس سے اس کے ایمان میں کمی ضرور واقع ہو گی۔ اور جب مقتول کے اولیاء یا ان میں سے کوئی ایک قاتل کو معاف کر دے تو قاتل کا خون محفوظ ہو جاتا ہے اور وہ مقتول کے اولیا یا دیگر لوگوں کے قصاص لینے سے بچ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَ٘مَنِ اعْتَدٰؔى بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ ’’اگر کوئی اس کے بعد زیادتی کرتا ہے‘‘ یعنی معاف کر دینے کے بعد اگر کوئی شخص زیادتی کرتا ہے ﴿ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’تو (آخرت میں) اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘ رہا اس کو قتل کرنا یا نہ قتل کرنا تو یہ حکم گزشتہ آیت سے اخذ کیا جائے گا اور چونکہ (معاف کرنے کے بعد) اس نے قاتل کو محض بدلہ لینے کے لیے قتل کیا ہے، لہٰذا اس کے قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے ﴿ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ کی تفسیر ’’قتل‘‘ کی ہے۔ نیز ان کا موقف ہے کہ یہ آیت اس قاتل کا قتل متعین کرتی ہے اور اس کو معاف کرنا جائز نہیں۔ تو بعض اہل علم اس کے قائل ہیں۔ لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے، کیونکہ اس کا جرم دوسرے شخص کے جرم سے زیادہ نہیں ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [178
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF