Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 17
- SuraName
- تفسیر سورۂ اسراء
- SegmentID
- 826
- SegmentHeader
- AyatText
- {60} {وإذ قلنا لك إنَّ ربَّك أحاط بالناس}: علماً وقدرةً؛ فليس لهم ملجأ يلجؤون إليه ولا ملاذٌ يلوذون به عنه، وهذا كافٍ لمن له عقلٌ في الانكفاف عما يكرهه الله الذي أحاط بالناس، {وما جَعَلْنا الرؤيا التي أرَيْناك}: أكثر المفسرين على أنَّها ليلة الإسراء، {والشجرةَ الملعونةَ}: التي ذكرت {في القرآن}: وهي شجرة الزقُّوم التي تَنْبُتُ في أصل الجحيم. والمعنى: إذا كان هذان الأمران قد صارا فتنةً للناس، حتى استلجَّ الكفَّار بكفرهم وازداد شرُّهم، وبعض مَن كان إيمانُهُ ضعيفاً رجع عنه، بسبب أنَّ ما أخبرهم به من الأمور التي كانت ليلة الإسراء، ومن الإسراء من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى كان خارقاً للعادة، والإخبار بوجود شجرةٍ تَنْبُتُ في أصل الجحيم أيضاً من الخوارق؛ فهذا الذي أوجب لهم التكذيب؛ فكيفَ لو شاهدوا الآيات العظيمة والخوارق الجسيمة؟! أليس ذلك أولى أن يزداد بسببه شرُّهم؛ فلذلك رحمهم الله وصرفها عنهم. ومن هنا تعلمُ أنَّ عدم التصريح في الكتاب والسنة بذكر الأمورِ العظيمة التي حَدَثَتْ في الأزمنة المتأخِّرة أولى وأحسن؛ لأنَّ الأمور التي لم يشاهِدِ الناس لها نظيراً ربَّما لا تقبلها عقولُهم، [لو أُخْبِرُوا بها قبل وُقُوعِها] فيكون ذلك ريباً في قلوب بعض المؤمنين ومانعاً يمنعُ من لم يدخُل الإسلام ومنفراً عنه، بل ذكر الله ألفاظاً عامَّة تتناول جميع ما يكون. والله أعلم. {ونخوِّفُهم}: بالآيات، {فما يزيدهم}: التخويف {إلاَّ طغياناً كبيراً}: وهذا أبلغ ما يكون في التحلِّي بالشرِّ ومحبَّته وبغض الخير وعدم الانقياد له.
- AyatMeaning
- [60] ﴿ وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ﴾ ’’اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و قدرت سے لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔ پس ان کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں جہاں یہ چھپ سکیں اور کوئی پناہ گاہ نہیں جہاں اللہ سے بھاگ کر پناہ لے سکیں اور یہ چیز عقل مند کے لیے ان امور سے باز رہنے کے لیے کافی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں جس نے تمام لوگوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ ﴿ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْیَ٘ا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾ ’’اور نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو آپ کو دکھایا مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے۔‘‘ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے مراد شب معراج ہے۔ ﴿ وَالشَّجَرَةَ الْ٘مَلْعُوْنَةَ فِی الْ٘قُ٘رْاٰنِ﴾ ’’اور (ایسے ہی) وہ درخت جس پر قرآن میں پھٹکار ہے‘‘ جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے اور اس سے مراد زقوم (تھوہر) کا پودا ہے جو جہنم کی تہہ سے اگتا ہے… معنی یہ ہے کہ یہ دونوں امور لوگوں کے لیے آزمائش بن گئے یہاں تک کہ کفار اپنے کفر پر جم گئے اور ان کا شر اور زیادہ ہو گیا جب آپ نے ان کو بعض امور کے بارے میں آگاہ فرمایا جن کا آپ نے معراج کی رات مشاہدہ فرمایا تھا اور آپ نے خبر دی تھی کہ ’’مجھے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا‘‘ جو ایک خارق عادت واقعہ تھا تو بعض کمزور ایمان مومن اپنے ایمان سے پھر گئے۔ زقوم کے پودے کے بارے میں خبر دینا، جو جہنم کی تہہ سے اگتا ہے، یہ بھی ایک خارق عادت معاملہ ہے جو ان کے لیے تکذیب کا موجب بنا۔ پس اگر وہ اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں اور بڑے بڑے خارق عادت واقعات کا مشاہدہ کر لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ اور اس کے سبب سے ان کے شر میں اضافہ نہ ہو جاتا؟ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے ان خوارق کو ان سے ہٹا دیا۔ یہیں سے آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ بڑے بڑے امور کا قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ مذکور نہ ہونا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے کیونکہ وہ امور جن کی نظیر کا لوگوں نے مشاہدہ نہ کیا ہو بسا اوقات ان کی عقل ان کو قبول نہیں کر پاتی اور یوں یہ چیز بعض اہل ایمان کے دلوں میں شکوک و شبہات کا باعث بنتی ہے اور ایسا مانع (رکاوٹ) بن جاتی ہے جو لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتی ہے اور ان کو اسلام سے متنفر کرتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے عام الفاظ استعمال كيے ہیں جو تمام امور کو شامل ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ﴿ وَنُخَوِّفُهُمْ١ۙ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا ﴾ ’’اور ہم ان کو ڈراتے ہیں (نشانیوں کے ساتھ) تو وہ ان کو بڑی شرارتوں میں زیادہ ہی کرتی ہیں ۔‘‘ تخویف ان کی سرکشی کو اور زیادہ بڑھا دیتی ہے اور شر کی محبت اور خیر سے بغض رکھنے اور خیر کی عدم پیروی کے بارے میں یہ بلیغ ترین پیرایہ ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [60]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF