Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
87
SegmentHeader
AyatText
{177} يقول تعالى: {ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب}؛ أي: ليس هذا هو البر المقصود من العباد فيكون كثرة البحث فيه والجدال من العناء الذي ليس تحته إلا الشقاق والخلاف، وهذا نظير قوله - صلى الله عليه وسلم -: «ليس الشديد بالصرعة إنما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب» ، ونحو ذلك، {ولكن البر من آمن بالله}؛ أي: بأنه إله واحد موصوف بكل صفة كمال منزَّه عن كلِّ نقص {واليوم الآخر}؛ وهو كل ما أخبر الله به في كتابه أو أخبر به الرسول مما يكون بعد الموت {والملائكة}؛ الذين وصفهم الله لنا في كتابه ووصفهم رسوله - صلى الله عليه وسلم -، {والكتاب}؛ أي: جنس الكتب التي أنزلها الله على رسله وأعظمها القرآن فيؤمن بما تضمنه من الأخبار والأحكام. {والنبيين}؛ عموماً، خصوصاً خاتمهم وأفضلهم محمد - صلى الله عليه وسلم - {وآتى المال}؛ وهو كل ما يتمول الإنسان من مال قليلاً كان أو كثيراً أي أعطى المال {على حبه}؛ أي: حب المال بين به أن المال محبوب للنفوس فلا يكاد يخرجه العبد، فمن أخرجه مع حبه له تقرباً إلى الله تعالى كان هذا برهاناً لإيمانه، ومن إيتاء المال على حبه أن يتصدق وهو صحيح شحيح يأمل الغنى ويخشى الفقر، وكذلك إذا كانت الصدقة عن قلة كان أفضل لأنه في هذه الحال يحب إمساكه لما يتوهمه من العُدْم والفقر، وكذلك إخراج النفيس من المال وما يحبه من ماله كما قال تعالى: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون}؛ فكل هؤلاء ممن آتى المال على حبه. ثم ذكر المنفق عليه وهم أولى الناس ببرِّك وإحسانك من الأقارب؛ الذين تتوجع لمصابهم وتفرح بسرورهم الذين يتناصرون ويتعاقلون، فمن أحسن البر وأوفقه تعاهد الأقارب بالإحسان المالي والقولي على حسب قربهم وحاجتهم، ومن {اليتامى}؛ الذين لا كاسب لهم وليس لهم قوة يستغنون بها، وهذا من رحمته تعالى بالعباد الدالة على أنه تعالى أرحم بهم من الوالد بولده، فالله قد أوصى العباد وفرض عليهم في أموالهم الإحسان إلى من فقد آباؤهم ليصيروا كمن لم يفقد والديه، ولأن الجزاء من جنس العمل فمن رحم يتيمَ غيره رُحِم يتيمه. {والمساكين}؛ وهم الذين أسكنتهم الحاجة وأذلهم الفقر فلهم حق على الأغنياء بما يدفع مسكنتهم أو يخففها بما يقدرون عليه وبما يتيسر. {وابن السبيل}؛ وهو الغريب المنقطع به في غير بلده. فحث الله عباده على إعطائه من المال ما يعينه على سفره لكونه مظنة الحاجة وكثرة المصارف، فعلى من أنعم الله عليه بوطنه وراحته وخوَّله من نعمته أن يرحم أخاه الغريب الذي بهذه الصفة على حسب استطاعته ولو بتزويده أو إعطائه آلة لسفره أو دفع ما ينوبه من المظالم وغيرها. {والسائلين}؛ أي: الذين تعرض لهم حاجة من الحوائج توجب السؤال، كمن ابتلي بأرش جناية أو ضريبة عليه من ولاة الأمور أو يسأل الناس لتعمير المصالح العامة كالمساجد والمدارس والقناطر ونحو ذلك فهذا له الحق وإن كان غنياً. {وفي الرقاب}؛ فيدخل فيه العتق والإعانة عليه وبذل مال للمكاتَب ليوفي سيده وفداء الأسراء عند الكفار أو عند الظلمة. {وأقام الصلاة وآتى الزكاة}؛ قد تقدم مراراً أن الله تعالى يقرن بين الصلاة والزكاة لكونهما أفضل العبادات، وأكمل القربات عبادات قلبية وبدنية ومالية، وبهما يوزن الإيمان ويعرف ما مع صاحبه من الإيقان، {والموفون بعهدهم إذا عاهدوا}؛ والعهد هو الالتزام بإلزام الله أو إلزام العبد لنفسه فدخل في ذلك حقوق الله كلها، لكون الله ألزم بها عباده والتزموها، ودخلوا تحت عهدتها ووجب عليهم أداؤها، وحقوق العباد التي أوجبها الله عليهم والحقوق التي التزمها العبد كالأيمان والنذور ونحو ذلك. {والصابرين في البأساء}؛ أي: الفقر لأن الفقير يحتاج إلى الصبر من وجوه كثيرة لكونه يحصل له من الآلام القلبية والبدنية المستمرة ما لا يحصل لغيره، فإن تنعم الأغنياء بما لا يقدر عليه تألم وإن جاع أو جاعت عياله تألم، وإن أكل طعاماً غير موافق لهواه تألم، وإن عري أو كاد تألم، وإن نظر إلى ما بين يديه وما يتوهمه من المستقبل الذي يستعد له تألم، وإن أصابه البرد الذي لا يقدر على دفعه تألم، فكل هذه ونحوها مصائب يؤمر بالصبر عليها والاحتساب ورجاء الثواب من الله عليها {والضراء}؛ أي: المرض على اختلاف أنواعه من حمى وقروح ورياح ووجع عضو حتى الضرس والإصبع ونحو ذلك فإنه يحتاج إلى الصبر على ذلك، لأن النفس تضعف والبدنَ يألم وذلك في غاية المشقة على النفوس، خصوصاً مع تطاول ذلك، فإنه يؤمر بالصبر احتساباً لثواب الله تعالى {وحين البأس}؛ أي: وقت القتال للأعداء المأمور بقتالهم، لأن الجلاد يشق غاية المشقة على النفس ويجزع الإنسان من القتل أو الجراح أو الأسر، فاحتيج إلى الصبر في ذلك احتساباً ورجاء لثواب الله تعالى الذي منه النصر والمعونة التي وعدها الصابرين. {أولئك}؛ أي: المتصفون بما ذكر من العقائد الحسنة والأعمال التي هي آثار الإيمان وبرهانه ونوره والأخلاق التي هي جمال الإنسان وحقيقة الإنسانية فأولئك {الذين صدقوا}؛ في إيمانهم لأن أعمالهم صدقت إيمانهم {وأولئك هم المتقون}؛ لأنهم تركوا المحظور وفعلوا المأمور، لأن هذه الأمور مشتملة على كل خصال الخير تضمناً ولزوماً لأن الوفاء بالعهد يدخل فيه الدين كله، ولأن العبادات المنصوص عليها في هذه الآية أكبر العبادات، ومن قام بها كان بما سواها أقوم، فهؤلاء [هم] الأبرار الصادقون المتقون. وقد علم ما رتب الله على هذه الأمور الثلاثة من الثواب الدنيوي والأخروي مما لا يمكن تفصيله في مثل هذا الموضع.
AyatMeaning
[177] ﴿ لَ٘یْسَ الْـبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْ٘مَشْ٘رِقِ وَالْ٘مَغْرِبِ﴾ ’’نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو‘‘ یعنی یہ وہ نیکی نہیں ہے جو بندوں سے مطلوب ہے جس کے بارے میں اس کثرت سے بحث و مباحثہ کی مشقت برداشت کی جائے جس سے سوائے دشمنی اور مخالفت کے کچھ اور جنم نہیں لیتا۔ یہ آیت رسول اللہeکی اس حدیث کی نظیر ہے جس میں آپ نے فرمایا: ’لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرَعَۃِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَالْغَضَبِ‘(صحیح البخاري، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حديث:6114) ’’طاقتور وہ نہیں جو کشتی میں طاقت ور ہے بلکہ حقیقی طاقت ور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔‘‘ ﴿ وَلٰكِنَّ الْـبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ﴾ ’’لیکن نیکی تو یہ ہے جو ایمان لایا اللہ پر‘‘ یعنی وہ اس بات پر ایمان لایا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود واحد ہے، وہ صفت کمال سے متصف اور ہر نقص سے پاک اور منزہ ہے۔ ﴿ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ ’’اور آخرت کے دن پر‘‘ یعنی وہ ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو انسان کو موت کے بعد پیش آئیں گی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یا اس کے رسولeنے خبر دی ہے۔ ﴿ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ﴾ ’’اور فرشتوں پر۔‘‘ فرشتے وہ ہستیاں ہیں جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے، نیز رسول اللہeنے بیان فرمایا ہے۔ ﴿ وَالْكِتٰبِ﴾ ’’اور کتاب پر‘‘ اس سے مراد جنس ہے، یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان لاتا ہے جو اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائی ہیں۔ ان میں سب سے عظیم کتاب قرآن مجید ہے۔ پس وہ ان تمام اخبار و احکام پر ایمان لاتا ہے جن پر یہ کتابیں مشتمل ہیں۔ ﴿ وَالنَّبِیّٖنَ﴾ ’’اور پیغمبروں پر‘‘ یعنی وہ تمام انبیاءoپر عام طور پر اور ان میں سب سے افضل اور خاتم الانبیاء محمد مصطفیeپر خاص طور پر ایمان لاتا ہے۔ ﴿ وَاٰتَى الْمَالَ﴾ ’’اور دیتا ہے وہ مال‘‘ مال کے زمرے میں ہر وہ چیز آتی ہے جو مال کے طور پر انسان اپنے لیے جمع کرتا ہے۔ خواہ یہ کم ہو یا زیادہ۔ ﴿ عَلٰى حُبِّهٖ﴾ ’’اس کی محبت کے باوجود‘‘ (حُبِّهٖ) میں ضمیر کا مرجع مال ہے۔ یعنی وہ مال کی محبت رکھنے کے باوجود مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ بھی واضح فرمایا کہ مال نفوس انسانی کو بہت محبوب ہوتا ہے۔ بندہ اسے مشکل ہی سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اس لیے جو کوئی اس مال سے محبت کے باوجود اس کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر خرچ کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی بہت بڑی دلیل ہے۔ مال سے محبت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ بندہ اس حال میں مال خرچ کرے کہ وہ صحت مند ہو، مال کا حریص ہو، فراخی کی امید رکھتا ہو اور محتاجی سے ڈرتا ہو۔ اسی طرح اگر قلیل مال میں سے صدقہ نکالا جائے تو یہ افضل ہے۔ کیونکہ بندے کی یہی وہ حالت ہے جب وہ مال کو اس وہم سے روکے رکھنا پسند کرتا ہے کہ کہیں وہ محتاج نہ ہو جائے۔ اسی طرح جب مال نفیس ہو اور وہ اس مال سے محبت کرتا ہو اور پھر بھی وہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَ٘نْ تَنَالُوا الْـبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّؔا تُحِبُّوْنَ﴾ (آل عمران : 3؍92) ’’تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔‘‘ پس یہ سب وہ لوگ ہیں جو مال سے محبت رکھنے کے باوجود اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن پر مال خرچ کیا جانا چاہیے۔ یہی لوگ تیری نیکی اور تیرے احسان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ﴿ ذَوِی الْ٘قُ٘رْبٰى﴾ ’’رشتے داروں کو‘‘ ان قریبی رشتہ داروں پر جن کے مصائب پر تو تکلیف، اور ان کی خوشی پر خوشی محسوس کرے جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور دیت ادا کرنے میں شریک ہوتے ہیں۔ پس بہترین نیکی یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ ان کے قرب اور ان کی حاجت کے مطابق مالی اور قولی احسان سے پیش آیا جائے۔ ﴿ وَالْ٘یَ٘تٰمٰى﴾ ’’اور یتیموں کو‘‘ ان یتیموں پر جن کا کوئی کمانے والا نہ ہو۔ اور نہ خود ان میں اتنی قوت ہو کہ وہ کما کر مستغنی ہو جائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عظیم رحمت ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحیم ہے جتنا باپ اپنی اولاد پر ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو وصیت کی ہے اور ان پر ان کے اموال میں فرض قرار دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ احسان اور بھلائی سے پیش آئیں حتی کہ وہ یوں محسوس کریں کہ گویا ان کے والدین فوت ہی نہیں ہوئے۔ کیونکہ عمل کا بدلہ عمل کی جنس ہی سے ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے یتیم پر رحم کرتا ہے تو اس کے یتیم کے سر پر بھی دست شفقت رکھا جاتا ہے۔ ﴿ وَالْمَسٰكِیْنَ﴾ ’’اور مسکینوں کو‘‘ مساکین وہ لوگ ہیں جن کو حاجت نے بے دست و پا اور فقر نے ذلیل کر دیا ہو۔ پس مال دار لوگوں پر ان کا اتنا حق ہے جس سے ان کی مسکینی دور ہو جائے یا کم از کم اس میں کمی ہو جائے۔ مال دار لوگ اپنی استطاعت کے مطابق اور جو کچھ ان کو میسر ہے اس سے ان کی مدد کریں۔ ﴿ وَابْنَ السَّبِیْلِ﴾ ’’اور مسافر کو‘‘ یہ اس اجنبی کو کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے شہر میں ہو اور وہ اپنے شہر سے کٹ کر رہ گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اجنبی مسافر کو اتنا مال عطا کریں جو سفر میں اس کا مددگار ہو۔ اس گمان پر کہ وہ حاجت مند ہے اور اس کے سفر کے مصارف بہت زیادہ ہیں۔ پس اس شخص پر، جسے اللہ تعالیٰ نے وطن سے اور اس کی راحت سے نوازا ہے اور اسے نعمتیں عطا کی ہیں، فرض ہے کہ وہ اپنے اس قسم کے غریب الوطن بھائی پر اپنی استطاعت کے مطابق ترس کھائے خواہ اسے زاد راہ عطا کر دے یا سفر کا کوئی آلہ (سواری وغیرہ) دے دے۔ یا اس کو پہنچنے والے مظالم وغیرہ کا ازالہ کر دے۔ ﴿ وَالسَّآىِٕلِیْ٘نَ۠﴾ ’’اور مانگنے والوں کو‘‘ سائلین وہ لوگ ہیں جن پر کوئی ایسی ضرورت آن پڑے جو ان کو سوال کرنے پر مجبور کر دے، مثلاً ایسا شخص جو کسی دیت کی ادائیگی میں مبتلا ہو گیا ہو یا حکومت کی طرف سے اس پر کوئی جرمانہ عائد کر دیا گیا ہو یا وہ مصالح عامہ کے لیے کوئی عمارت، مثلاً مسجد، مدرسہ اور پل وغیرہ تعمیر کروا رہا ہو۔ اس حوالے سے سوال کرنا اس کا حق ہے خواہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿ وَفِی الرِّقَابِ﴾ ’’اور گردنوں کے آزاد کرنے میں‘‘ غلاموں کو آزاد کرنا اور آزادی پر اعانت کرنا، مکاتب کو آزادی کے لیے مالی مدد دینا تاکہ وہ اپنے مالک کو ادائیگی کر سکے۔ جنگی قیدی جو کفار یا ظالموں کی قید میں ہوں۔ سب اس مد میں شامل ہیں۔ ﴿ وَاَقَامَ الصَّلٰ٘وةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ﴾ ’’اور قائم کرے وہ نماز اور ادا کرے زکاۃ‘‘ گزشتہ صفحات میں متعدد بار گزر چکا ہے کہ نماز اور زکٰوۃ کے سب سے افضل عبادت ہونے، تقرب الٰہی کا کامل ترین ذریعہ ہونے، اور قلبی ، بدنی اور مالی عبادت ہونے کی بنا پر ان دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ نماز اور زکٰوۃ ہی کے ذریعے سے ایمان کا وزن ہوتا ہے اور انھی سے معلوم کیا جاتا ہے کہ صاحب ایمان کتنے یقین کا مالک ہے۔ ﴿ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰؔهَدُوْا﴾ ’’اور وہ اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کرلیں‘‘ اللہ تعالیٰ یا خود بندے کی طرف سے لازم کیے ہوئے امر کا التزام کرنا عہد کہلاتا ہے۔ پس تمام حقوق اللہ اس میں داخل ہو جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ان کو لازم قرار دیا ہے اور وہ اس التزام کو قبول کر کے اس عہد میں داخل ہو گئے اور ان کا ادا کرنا ان پر فرض قرار پایا۔ نیز اس عہد میں وہ حقوق العباد بھی داخل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیا ہے اور اس میں وہ حقوق بھی شامل ہیں جن کو بندے اپنے آپ پر لازم قرار دے لیتے ہیں، مثلاً قسم اور نذر وغیرہ۔ ﴿ وَالصّٰؔبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ ﴾ ’’اور صبر کرنے والے ہیں وہ سختی میں‘‘ یعنی فقر اور محتاجی میں صبر کرتے ہیں، کیونکہ محتاج شخص بہت سے پہلوؤں سے صبر کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ دائمی طور پر ایسی قلبی اور بدنی تکالیف میں مبتلا ہوتا ہے جس میں کوئی اور شخص مبتلا نہیں ہوتا۔ اگر مال دار دنیاوی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں تو فقیر آدمی ان نعمتوں سے استفادے پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے رنج و الم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب وہ اور اس کے اہل و عیال بھوک کا شکار ہوتے ہیں تو اسے دکھ ہوتا ہے جب وہ کوئی ایسا کھانا کھاتا ہے جو اس کی چاہت کے مطابق نہ ہو، تب بھی اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ اگر وہ عریاں ہوتا ہے یا عریانی کی حالت کے قریب پہنچ جاتا ہے تو دکھ محسوس کرتا ہے۔ جب وہ اپنے سامنے کی یا مستقبل میں متوقع کسی چیز کو دیکھتا ہے، تو غم زدہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ سردی محسوس کرتا ہے جس سے بچنے پر وہ قادر نہیں ہوتا، تو اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ تمام چیزیں مصائب کے زمرے میں آتی ہیں جن پر صبر کرنے کا اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿ وَالضَّرَّآءِ ﴾ ’’اور تکلیف میں‘‘ یعنی مختلف قسم کے امراض، مثلاً بخار، زخم، ریح کا درد، کسی عضو میں درد کا ہونا حتی کہ دانت اور انگلی کا درد وغیرہ، ان تمام تکالیف میں بندہ صبر کا محتاج ہے، کیونکہ نفس کمزور ہوتا ہے اور بدن درد محسوس کرتا ہے اور یہ مرحلہ نفس انسانی کے لیے نہایت مشقت آزما ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب بیماری طول پکڑ جائے۔ پس اسے حکم ہے کہ وہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے۔ ﴿ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ﴾ ’’اور لڑائی کے وقت‘‘ یعنی ان دشمنوں سے لڑائی کے وقت جن سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ صبر و استقلال سے جواں مردی کا مظاہرہ نفس انسانی کے لیے نہایت گراں بار ہے اور انسان قتل ہونے، زخمی ہونے یا قید ہونے سے بہت گھبراتا ہے۔ پس وہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ پر ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبرکرنے کا سخت محتاج ہے جس کی طرف سے فتح و نصرت ہوتی ہے جس کا وعدہ اس نے صبر کرنے والوں کے ساتھ کر رکھا ہے۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہی‘‘ یعنی جو ان عقائد حسنہ اور اعمال صالحہ سے متصف ہیں جو ایمان کے آثار، اس کی برہان اور اس کا نور ہیں۔ اور ان اخلاق کے مالک ہیں جو انسان کا حسن و جمال اور انسانیت کی حقیقت ہے۔ ﴿الَّذِیْنَ صَدَقُوْا﴾ ’’جو سچے ہیں۔‘‘ یعنی یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں، کیونکہ ان کے اعمال ان کے ایمان کی تصدیق کرتے ہیں ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘مُتَّقُوْنَ﴾ ’’اور یہی لوگ متقی ہیں‘‘ کیونکہ انھوں نے محظورات کو ترک کر دیا اور مامورات پر عمل کیا، اس لیے کہ یہ امور تمام اچھی خصلتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں، چاہے ضمناً یا لزوماً، کیونکہ ایفائے عہد میں پورا دین ہی آجاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جن عبادات کی صراحت ہے، وہ سب عبادات سے اہم اور بڑی ہیں۔ اور جو ان عبادات کا التزام کرتا ہے وہ دیگر امور کو زیادہ آسانی سے سرانجام دے سکتا ہے۔ پس یہی لوگ نیک، سچے اور متقی ہیں۔ ان تین امور پر اللہ تعالیٰ نے جو دنیاوی اور اخروی ثواب مرتب کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے جس کی تفصیل اس مقام پر ممکن نہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[177
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List