Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 85
- SegmentHeader
- AyatText
- {173} ولما ذكر تعالى إباحة الطيبات ذكر تحريم الخبائث فقال: {إنما حرم عليكم الميتة}؛ وهي: ما مات بغير تذكية شرعية؛ لأن الميتة خبيثة مضرة لرداءتها في نفسها ولأن الأغلب أن تكون عن مرض فيكون زيادة مرض ، واستثنى الشارع من هذا العموم ميتة الجراد وسمك البحر فإنه حلال طيب {والدم}؛ أي: المسفوح كما قيد في الآية الأخرى {وما أهل به لغير الله}؛ أي ذبح لغير الله كالذي يذبح للأصنام والأوثان من الأحجار والقبور ونحوها، وهذا المذكور غير حاصر للمحرمات، وجيء به لبيان أجناس الخبائث المدلول عليه بمفهوم قوله: {طيبات}؛ فعموم المحرمات تستفاد من الآية السابقة من قوله: {حلالاً طيباً}؛ كما تقدم وإنما حرم علينا هذه الخبائث ونحوها لطفاً بنا وتنزيهاً عن المضر، ومع هذا {فمن اضطر}؛ أي ألجئ إلى المحرم بجوع وعدم أو إكراه {غير باغ}؛ أي: غير طالب للمحرم مع قدرته على الحلال أو مع عدم جوعه {ولا عاد}؛ أي: متجاوز الحد في تناول ما أبيح له اضطراراً فمن اضطر وهو غير قادر على الحلال، وأكل بقدر الضرورة فلا يزيد عليها {فلا إثم}؛ أي: جناح {عليه}؛ وإذا ارتفع الإثم رجع الأمر إلى ما كان عليه، والإنسان بهذه الحالة مأمور بالأكل بل منهيٌّ أن يلقي بيده إلى التهلكة وأن يقتل نفسه، فيجب إذاً عليه الأكل ويأثم إن ترك الأكل حتى مات فيكون قاتلاً لنفسه، وهذه الإباحة والتوسعة من رحمته تعالى بعباده، فلهذا ختمها بهذين الاسمين الكريمين المناسبين غاية المناسبة فقال: {إن الله غفورٌ رحيم}. ولما كان الحل مشروطاً بهذين الشرطين، وكان الإنسان في هذه الحالة ربما لا يستقصي تمام الاستقصاء في تحقيقها، أخبر [تعالى] أنه غفور، فيغفر [له] ما أخطأ فيه في هذه الحال خصوصاً، وقد غلبته الضرورة، وأذهبت حواسه المشقة. وفي هذه الآية دليل على القاعدة المشهورة «الضرورات تبيح المحظورات»، فكل محظور اضطر له الإنسان فقد أباحه له الملك الرحمن، فله الحمد والشكر أولاً وآخراً وظاهراً وباطناً.
- AyatMeaning
- [173] جب اللہ تعالیٰ نے طیبات کی اباحت کا ذکر فرمایا تو خبائث کی تحریم کا ذکر بھی فرما دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ ﴾ ’’اللہ نے تم پر صرف مردار حرام کیا‘‘ مردار سے مراد وہ جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح کیے بغیر مر جائے اور اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ مردار ناپاک اور خراب ہونے کی بنا پر ضرر رساں ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر مردار کسی بیماری سے مرتا ہے۔ پس وہ مرض میں اضافے ہی کا باعث ہوتا ہے۔ مردار کی حرمت کی عمومیت سے ٹڈی اور مچھلی مستثنی ہیں۔ یہ دونوں مردہ ہونے کی صورت میں بھی حلال اور طیب ہیں۔ ﴿ وَالدَّمَ ﴾ ’’اور خون‘‘ یعنی بہتا ہوا خون۔ اور یہ قید ایک اور آیت سے ثابت ہے (ملاحظہ کیجیے سورۃ الانعام؍145:مترجم) ﴿ وَمَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیا گیا ہو۔‘‘ مثلاً وہ جانور جو بتوں، استھانوں، پتھروں اور قبروں وغیرہ پر ذبح کیے گئے ہوں اور یہ مذکورہ انواع محرمات کے لیے خاص نہیں، بلکہ ان کو ان خبائث کی اجناس کے بیان کے لیے ذکر کیا گیا ہے جن کی حرمت پر ’’طیبات‘‘ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے۔ پس محرمات کی عمومیت گزشتہ آیت میں لفظ حَلَالًا طَیِّبًا سے مستفید ہوتی ہے، جیسا کہ پہلے گزرا۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور ان کے ضرر سے بچانے کے لیے یہ چیزیں ہم پر حرام ٹھہرائی ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی فرما دیا :﴿ فَ٘مَنِ اضْطُرَّ﴾ ’’جو کوئی ناچار ہوجائے۔‘‘ یعنی جو کوئی بھوک، موت کے خوف یا جبر و اکراہ کے باعث ان مذکورہ محرمات کو کھانے پر مجبور ہو جائے ﴿ غَیْرَ بَاغٍ ﴾ ’’نہ سرکشی کرنے والا ہو‘‘ یعنی سخت بھوکا نہ ہونے اور حلال کھانے پر قدرت رکھنے کے باوجود وہ حرام کھانے کا طلبگار نہ ہو۔ ﴿ وَّلَا عَادٍ ﴾ ’’اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو‘‘ یعنی اضطراری حالت میں جتنی مقدار میں اس کے لیے یہ حرام کھانا جائز ہے اس مقدار سے تجاوز نہ کرے۔ ﴿ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ﴾ ’’تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘ یعنی اضطراری حالت میں یہ محرمات تناول کرنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں اور جب گناہ اٹھ گیا تو معاملہ اسی (اباحت اصلی کی) حالت پر چلا گیا جو کہ تحریم سے پہلے تھی۔ انسان اس اضطراری حالت میں حرام کھانے پر مامور ہے، بلکہ اسے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور اپنے آپ کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے، تب اس پر حرام کھانا فرض ہے۔ اگر وہ اضطراری حالت میں حرام نہیں کھاتا اور مر جاتا ہے تو گناہ گار اور خودکشی کا مرتکب ہو گا۔ یہ اباحت اور وسعت اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کا اختتام اپنے ان دو اسمائے گرامی کے ساتھ کیا ہے جو غایت درجہ تک اس مضمون کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ چونکہ ان کی حلت ان دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اس حالت میں انسان بسا اوقات اچھی طرح تحقیق کرنے سے قاصر رہتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے پس اگر اس حالت میں اس سے خطا سرزد ہو جائے تو وہ بخش دے گا، خاص طور پر اس حالت میں جبکہ اس پر ضرورت غالب آجائے اور مشقت اس کے حواس کو مضمحل کر دے۔ اس آیت کریمہ میں مشہور فقہی قاعدہ (اَلضرورات تبیح المحظورات) ’’ضرورت حرام کو مباح کر دیتی ہے‘‘ کی دلیل ہے۔ پس ہر حرام چیز، جس کے استعمال کرنے پر انسان مجبور ہو جائے تو اس رحم کرنے والے مالک نے اس کے لیے اسے جائز ٹھہرا دیا ہے۔ پس اول و آخر اور ظاہری و باطنی طور پر ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر کی مستحق صرف اسی کی ذات اقدس ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [173
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF