Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 16
- SuraName
- تفسیر سورۂ نحل
- SegmentID
- 788
- SegmentHeader
- AyatText
- {102} ولهذا ذكر تعالى حكمته في ذلك، فقال: {قل نَزَّلَه رُوحُ القُدُس}: وهو جبريلُ الرسول المقدَّس المنزَّه عن كلِّ عيب وخيانةٍ وآفةٍ، {بالحقِّ}؛ أي: نزوله بالحقِّ، وهو مشتملٌ على الحقِّ في أخباره وأوامره ونواهيه؛ فلا سبيل لأحدٍ أن يَقْدَحَ فيه قدحاً صحيحاً؛ لأنَّه إذا عُلِمَ أنَّه الحقُّ؛ عُلِمَ أنَّ ما عارَضَه وناقَضَه باطلٌ. {ليثبِّتَ الذين آمنوا}: عند نزول آياتِهِ وتوارُدِها عليهم وقتاً بعد وقتٍ؛ فلا يزال الحقُّ يصلُ إلى قلوبهم شيئاً فشيئاً، حتى يكون إيمانهم أثبتَ من الجبال الرواسي. وأيضاً؛ فإنَّهم يعلمون أنَّه الحقُّ، وإذا شرع حكماً من الأحكام، ثم نَسَخَه؛ علموا أنه أبدله بما هو مثلُه أو خيرٌ منه لهم، وأنَّ نسخَه هو المناسب للحكمة الربانيَّة والمناسبة العقليَّة. {وهدىً وبشرى للمسلمين}؛ أي: يهديهم إلى حقائق الأشياء، ويبيِّن لهم الحقَّ من الباطل والهدى من الضَّلال، ويبشِّرهم أنَّ لهم أجراً حسناً ماكثين فيه أبداً. وأيضاً؛ فإنه كلَّما نزل شيئاً فشيئاً؛ كان أعظم هدايةً وبشارةً لهم مِنْ لو أتاهم جملةً واحدةً وتفرَّق الفكرُ فيه، بل يُنْزِلُ الله حكماً وتارة أكثر؛ فإذا فهِموه وعَقَلوه وعَرَفوا المراد منه وتروَّوْا منه؛ أنزل نظيره ... وهكذا. ولذلك بلغ الصحابة رضي الله عنهم به مبلغاً عظيماً، وتغيَّرت أخلاقهم وطبائعهم، وانتقلوا إلى أخلاق وعوائد وأعمال فاقوا بها الأوَّلين والآخرين، وكان أعلى وأولى لمن بعدَهم أن يتربَّوا بعلومه، ويتخلَّقوا بأخلاقه، ويستضيئوا بنورِهِ في ظُلمات الغيِّ والجهالات، ويجعلوه إمامهم في جميع الحالات. فبذلك تستقيم أمورهم الدينيَّة والدنيويَّة.
- AyatMeaning
- [102] اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ﴾ ’’کہہ دیجیے! اس کو روح القدس نے اتارا‘‘ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرشتے جناب جبریلu ہیں جو نہایت مقدس اور ہر عیب، خیانت اور آفت سے پاک ہیں ۔ ﴿مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ﴾ ’’آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس کی خبریں اور اس کے اوامر و نواہی حق پر مشتمل ہیں ۔ پس کسی کے لیے گنجائش نہیں کہ اس میں بامعنی جرح و قدح کر سکے کیونکہ جب اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ حق ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ جو چیز اس کے متناقض اور معارض ہے، وہ باطل ہے۔ ﴿ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’تاکہ ثابت کرے ایمان والوں کو‘‘ وقتاً فوقتاً اس کی آیات کے نزول اور ان پر توارد کے وقت۔ اور یوں رفتہ رفتہ حق ان کے دلوں میں جا گزیں ہو کر پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے کیونکہ انھیں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ حق ہے اور جب اللہ تعالیٰ کوئی حکم مشروع کر کے اسے منسوخ کر دیتا ہے تو انھیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو اسی جیسے یا اس سے بہتر کسی اور حکم سے بدل دیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ کا کسی حکم کو منسوخ کرنا حکمت ربانی اور عقلی مناسبت رکھتا ہے۔ ﴿ وَهُدًى وَّبُشْرٰؔى لِلْ٘مُسْلِمِیْنَ۠ ﴾ ’’اور ہدایت اور خوش خبری ہے واسطے مسلمانوں کے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اشیاء کے حقائق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے، ان کے سامنے باطل میں سے حق اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرتا ہے اور وہ انھیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے، نیز اللہ تعالیٰ کا اپنے احکام کو رفتہ رفتہ نازل کرنا اہل ایمان کے لیے زیادہ ہدایت اور بشارت کا باعث بنتا ہے۔ یک بارگی نازل کرنے سے فکر تفرق اور تشتت کا شکار ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ حکم اور بشارت کو زیادہ کثرت سے نازل کرتا ہے۔ جب اہل ایمان ایک حکم کو سمجھ کر اس کی فہم حاصل کر لیتے ہیں ، انھیں اس کی مراد کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ اس کے مفاہیم و معانی سے خوب سیراب ہو جاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ اس جیسا ایک اور حکم نازل کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامy کتاب اللہ پر عمل کر کے بہت بڑے مقام پر پہنچ گئے، ان کی عادات اور طبائع بدل گئیں اور انھوں نے ایسے اخلاق، عادتیں اور اعمال اختیار کر لیے جن کی بنا پر وہ تمام اولین و آخرین سے بڑھ گئے۔ ان کے بعد آنے والوں کے لیے زیادہ مناسب یہی ہے کہ وہ کتاب اللہ کے علوم کے ذریعے سے اپنی تربیت کریں ، اس کے اخلاق کو اپنائیں ، گمراہی اور جہالتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اس کے نور سے روشنی حاصل کریں اور تمام حالات میں اس کو اپنا راہنما بنائیں پس اس طرح ہی ان کے دینی اور دنیاوی معاملات درست رہیں گے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [102
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF