Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 16
- SuraName
- تفسیر سورۂ نحل
- SegmentID
- 786
- SegmentHeader
- AyatText
- {96} فآثِروا ما يبقى على ما يفنى؛ فإنَّ الذي {عندكم}: ولو كَثُر جدًّا لا بدَّ أن ينفدَ ويفنى، {وما عند الله باقٍ}: ببقائِهِ، لا يفنى ولا يزول؛ فليس بعاقل من آثر الفاني الخسيس على الباقي النفيس، وهذا كقولِهِ تعالى: {بل تؤثِرون الحياةَ الدُّنيا والآخرة خيرٌ وأبقى}. {وما عندَ الله خيرٌ للأبرار}. وفي هذا الحث والترغيب على الزُّهد في الدنيا، خصوصاً الزُّهد المتعيِّن، وهو الزُّهد فيما يكون ضرراً على العبد ويوجب له الاشتغال عما أوجب الله عليه وتقديمه على حقِّ الله؛ فإنَّ هذا الزُّهد واجبٌ. ومن الدواعي للزُّهد أن يقابلَ العبد لَذَّاتِ الدُّنيا وشهواتها بخيرات الآخرة؛ فإنَّه يجد من الفرق والتفاوت ما يدعوه إلى إيثار أعلى الأمرين، وليس الزُّهد الممدوح هو الانقطاع للعبادات القاصرة؛ كالصلاة والصيام والذِّكْر ونحوها، بل لا يكون العبدُ زاهداً زهداً صحيحاً حتَّى يقوم بما يقدِرُ عليه من الأوامر الشرعيَّة الظاهرة والباطنة، ومن الدعوة إلى الله وإلى دينه بالقول والفعل؛ فالزهدُ الحقيقيُّ هو الزهد فيما لا ينفعُ في الدين والدُّنيا، والرغبةُ والسعي في كلِّ ما ينفع. {ولنجزينَّ الذين صبروا}: على طاعة الله وعن معصيته، وفَطَموا أنفسَهم عن الشهوات الدنيويَّة المضرَّة بدينهم؛ {أجْرَهم بأحسنِ ما كانوا يعملون}: الحسنةُ بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف إلى أضعاف كثيرة؛ فإنَّ الله لا يضيع أجر من أحسن عملاً.
- AyatMeaning
- [96] پس انھوں نے باقی رہنے والی چیز کو ختم ہو جانے والی چیز پر ترجیح دی ہے۔ ﴿مَا عِنْدَكُمْ﴾ ’’جو کچھ تمھارے پاس ہے‘‘ خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو ﴿یَنْفَدُ﴾ ’’وہ ختم (ہو کر فنا) ہو جائے گا‘‘ ﴿ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَ٘اقٍ﴾ ’’اور جو اللہ کے پاس ہے، وہ باقی رہے گا‘‘ کیونکہ وہ خود باقی رہنے والا ہے، اسے فنا اور زوال نہیں ۔ پس وہ شخص عقل مند نہیں جو فانی اور خسیس چیز کو ہمیشہ رہنے والی نفیس چیز پر ترجیح دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاٞۖ۰۰وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى﴾ (الاعلیٰ : 87؍ 16۔ 17) ’’مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔‘‘ ﴿وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ﴾ (آل عمران : 3؍ 198) ’’اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لیے بہتر ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی ترغیب دی گئی ہے، خاص طور پر زہد متعین اور اس سے مراد ان چیزوں میں بے رغبتی اور ان سے پہلو بچانا ہے جو بندے کے لیے ضرر رساں ہیں اور اس بات کی موجب ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی واجب کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ کر ان دنیاوی چیزوں میں مشغول ہو جائے اور حقوق اللہ پر ان دنیاوی چیزوں کو ترجیح دینے لگے، اس لیے کہ یہ زہد فرض ہے۔ زہد کے اسباب میں سے ایک داعیہ (سبب) یہ ہے کہ بندہ دنیا کی ناپائیدار لذات و شہوات کا آخرت کی بھلائیوں کے ساتھ تقابل کرے۔ وہ ان کے درمیان بہت بڑا فرق اور تفاوت پائے گا اور یہ تفاوت اسے بلند تر چیز کو ترجیح دینے پر آمادہ کرے گا۔ اور عبادات ، مثلاً: نماز، روزے اور ذکر اذکار وغیرہ پر توجہ مرکوز کر کے دنیا سے منقطع ہوجانا، زہد ممدوح نہیں ہے بلکہ صحیح معنوں میں زاہد بننا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ بندہ مقدور بھر شریعت کے ظاہری اور باطنی احکام کی تعمیل نہ کرے اور قول و فعل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت نہ دے۔ پس حقیقی زہد یہ ہے کہ بندہ ہر اس چیز سے منہ موڑ لے جس کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں اور ہر اس چیز کے حصول کے لیے رغبت کے ساتھ کوشش کرے جو دین و دنیا میں فائدہ مند ہے۔ ﴿ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا﴾ ’’اور ہم بدلے میں دیں گے صبر کرنے والوں کو‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے اور اس نافرمانی سے باز رہ کر صبر کرتے ہیں اور دنیاوی شہوات سے منہ موڑ لیتے ہیں جو ان کے دین کے لیے مضر ہیں ۔ ﴿ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’ان کے اعمال کا نہایت اچھا بدلہ۔‘‘ یعنی نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ تک۔ کیونکہ جو کوئی نیک کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [96]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF