Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
83
SegmentHeader
AyatText
{168} هذا خطاب للناس كلهم مؤمنهم وكافرهم، فامتن عليهم بأن أمرهم أن يأكلوا من جميع ما في الأرض من حبوب وثمار وفواكه وحيوانات حالة كونها {حلالاً}؛ أي: محللاً لكم تناوله ليس بغصب ولا سرقة ولا محصلاً بمعاملة محرمة أو على وجه محرم أو معيناً على محرم {طيباً}؛ أي: ليس بخبيث كالميتة والدم ولحم الخنزير والخبائث كلها. ففي هذه الآية دليل على أن الأصل في الأعيان الإباحة أكلاً وانتفاعاً وأن المحرم نوعان: إما محرم لذاته وهو الخبيث الذي هو ضد الطيب، وإما محرم لما عرض له وهو المحرم لتعلق حق الله أو حق عباده به، وهو ضد الحلال. وفيه دليل على أن الأكل بقدر ما يقيم البنية واجب يأثم تاركه لظاهر الأمر، ولما أمرهم باتباع ما أمرهم به إذ هو عين صلاحهم نهاهم عن اتباع {خطوات الشيطان}؛ أي: طرقه التي يأمر بها، وهي جميع المعاصي من كفر وفسوق وظلم، ويدخل في ذلك تحريم السوائب والحام ونحو ذلك، ويدخل فيه [أيضاً] تناول المأكولات المحرمة. {إنه لكم عدو مبين}؛ أي: ظاهر العداوة فلا يريد بأمركم إلا غشكم وأن تكونوا من أصحاب السعير، فلم يكتف ربنا بنهينا عن اتباع خطواته حتى أخبرنا وهو أصدق القائلين بعداوته الداعية للحذر منه، ثم لم يكتف بذلك حتى أخبرنا بتفصيل ما يأمر به، وأنه أقبح الأشياء، وأعظمها مفسدة، فقال:
AyatMeaning
[168] یہ خطاب مومن اور کافر تمام لوگوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر احسان فرمایا کہ انھیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ زمین سے پیدا ہونے والے ہر قسم کے اناج، پھل ، میوہ جات اور حیوانات اس حال میں کھائیں ﴿ حَلٰلًا﴾ کہ ان کا کھانا تمھارے لیے حلال ہو، وہ غصب شدہ مال ہو نہ چوری کیا ہوا، نہ حرام معاملے کے ذریعے سے اور نہ حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اور نہ کسی حرام امر پر اس سے مدد لی گئی ہو۔ ﴿ طَیِّبًا﴾ ’’پاکیزہ‘‘ یعنی وہ خبیث اور ناپاک نہ ہو، مثلاً مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور دیگر تمام ناپاک چیزیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے، کھانے اور فائدہ اٹھانے کے اعتبار سے۔ (یعنی ہر چیز اس وقت تک حلال ہے جب تک اس کی حرمت پر دلیل قائم نہ ہو۔) اور محرمات کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) مُحَرَّم لِذَاتِہٖ ۔ یعنی جو بذات خود حرام ہیں اور وہ ناپاک چیزیں ہیں جو پاکیزہ چیزوں کی ضد ہیں۔ (۲) حرام کرنے والے کسی سبب کے پیش آنے کی وجہ سے حرام ہونے والی چیزیں، یہ حقوق اللہ یا حقوق العباد کے تعلق کے حوالے سے حرام ہوتی ہیں۔ یہ حلال کی ضد ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ انسان پر کم از کم اتنی خوراک کھانا فرض ہے جس سے اس کا ڈھانچہ کھڑا رہ سکے۔ اس آیت کے ظاہری حکم کے مطابق کھانا ترک کرنا گناہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان امور کی اتباع کا حکم دیا جن کو بجا لانے کا اس نے حکم دیا ہے، کیونکہ ان میں ان کی بھلائی ہے، تو پھر ان کو شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے روکا ہے ﴿ خُطُوٰتِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ ﴾ ’’شیطان کے قدم‘‘ یعنی شیطان کے راستے جن پر چلنے کا وہ حکم دیتا ہے۔ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور دیگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے، نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔ ﴿ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ یعنی شیطان کی عداوت ظاہر ہے۔ وہ تمھیں محض دھوکے سے حکم دیتا ہے تاکہ تم جہنمی بن جاؤ۔ ہمارے پروردگار نے ہمیں صرف شیطان کے نقش قدم پر چلنے ہی سے منع نہیں کیا بلکہ اس نے یہ خبر بھی دی ہے۔۔۔ اور وہ سب سے زیادہ سچا ہے۔۔۔ کہ شیطان ہم سے عداوت رکھتا ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تفصیل کے ساتھ آگاہ بھی فرمایا کہ شیطان کن امور کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ شیطان جن امور کا حکم دیتا ہے وہ سب سے زیادہ قباحت کے حامل اور مفاسد میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
Vocabulary
AyatSummary
[168
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List