Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 81
- SegmentHeader
- AyatText
- {164} أخبر تعالى أن في هذه المخلوقات العظيمة آيات؛ أي: أدلة على وحدانية الباري وإلهيته وعظيم سلطانه ورحمته وسائر صفاته، ولكنها {لقوم يعقلون}؛ أي: لمن لهم عقول يعملونها فيما خلقت له، فعلى حسب ما منَّ الله على عبده من العقل ينتفع بالآيات ويعرفها بعقله وفكره وتدبره، ففي {خلق السموات}؛ في ارتفاعها واتساعها وإحكامها وإتقانها وما جعل الله فيها من الشمس والقمر والنجوم وتنظيمها لمصالح العباد وفي خلق {الأرض}؛ مهاداً للخلق يمكنهم القرار عليها والانتفاع بما عليها والاعتبار، ما يدل ذلك على انفراد الله تعالى بالخلق والتدبير وبيان قدرته العظيمة التي بها خلقها، وحكمته التي بها أتقنها وأحسنها ونظمها، وعلمه ورحمته التي بها أودع ما أودع من منافع الخلق ومصالحهم وضروراتهم وحاجاتهم، وفي ذلك أبلغ الدليل على كماله واستحقاقه أن يفرد بالعبادة لانفراده بالخلق والتدبير والقيام بشؤون عباده. وفي {اختلاف الليل والنهار}؛ وهو تعاقبهما على الدوام إذا ذهب أحدهما خلفه الآخر، وفي اختلافهما في الحر والبرد والتوسط، وفي الطول والقصر والتوسط، وما ينشأ عن ذلك من الفصول التي بها انتظام مصالح بني آدم وحيواناتهم، وجميع ما على وجه الأرض من أشجار ونوابت، كل ذلك بانتظام وتدبير وتسخير تنبهر له العقول، وتعجز عن إدراكه من الرجال الفحول ما يدل ذلك على قدرة مصرفها وعلمه وحكمته ورحمته الواسعة ولطفه الشامل وتصريفه وتدبيره الذي تفرد به وعظمته وعظمة ملكه وسلطانه ممّا يوجب أن يؤله ويعبد ويفرد بالمحبة والتعظيم والخوف والرجاء وبذل الجهد في محابه ومراضيه. وفي {الفلك التي تجري في البحر} وهي السفن والمراكب ونحوها مما ألهم الله عباده صنعتها وخلق لهم من الآلات الداخلية والخارجية ما أقدرهم عليها ثم سخر لها هذا البحر العظيم والرياح التي تحملها بما فيها من الركاب والأموال والبضائع التي هي من منافع الناس وبما تقوم مصالحهم وتنتظم معايشهم، فمن الذي ألهمهم صنعتها وأقدرهم عليها وخلق لهم من الآلات ما به يعملونها، أم من الذي سخر لها البحر تجري فيه بإذنه وتسخيره والرياح، أم من الذي خلق للمراكب البرية والبحرية النار والمعادن المعينة على حملها وحمل ما فيها من الأموال، فهل هذه الأمور حصلت اتفاقاً أم استقل بعملها هذا المخلوق الضعيف العاجز الذي خرج من بطن أمه لا علم له ولا قدرة، ثم خلق له ربه القدرة وعلمه ما يشاء تعليمه، أم المسخر لذلك رب واحد حكيم عليم لا يعجزه شيء ولا يمتنع عليه شيء. بل الأشياء قد دانت لربوبيته، واستكانت لعظمته، وخضعت لجبروته. وغاية العبد الضعيف أن جعله الله جزءاً من أجزاء الأسباب التي بها وجدت هذه الأمور العظام، فهذا يدل على رحمة الله وعنايته بخلقه، وذلك يوجب أن تكون المحبة كلها له والخوف والرجاء وجميع الطاعة والذل والتعظيم {وما أنزل الله من السماء من ماء}؛ وهو المطر النازل من السحاب {فأحيا به الأرض بعد موتها}؛ فأظهرت من أنواع الأقوات وأصناف النبات ما هو من ضرورات الخلائق التي لا يعيشون بدونها، أليس ذلك دليلاً على قدرة من أنزله وأخرج به ما أخرج ورحمته ولطفه بعباده وقيامه بمصالحهم وشدة افتقارهم وضرورتهم إليه من كل وجه؟ أَما يوجب ذلك أن يكون هو معبودهم وإلههم؟ أليس ذلك دليلاً على إحياء الموتى ومجازاتهم بأعمالهم؟ {وبث فيها}؛ أي في الأرض {من كلِّ دابة}؛ أي: نشر في أقطار الأرض من الدواب المتنوعة ما هو دليل على قدرته وعظمته ووحدانيته وسلطانه العظيم، وسخرها للناس ينتفعون بها بجميع وجوه الانتفاع: فمنها ما يأكلون من لحمه ويشربون من دره، ومنها ما يركبون، ومنها ما هو ساعٍ في مصالحهم وحراستهم، ومنها ما يعتبر به، ومنها أنه بث فيها من كل دابة فإنه سبحانه هو القائم بأرزاقهم المتكفل بأقواتهم، فما من دابة في الأرض إلا على الله رزقها ويعلم مستقرها ومستودعها. وفي {تصريف الرياح}؛ باردة وحارة وجنوباً وشمالاً وشرقاً ودبوراً وبين ذلك، وتارة تثير السحاب، وتارة تؤلف بينه، وتارة تلقحه، وتارة تدره، وتارة تمزقه، وتزيل ضرره، وتارة تكون رحمة، وتارة ترسل بالعذاب، فمن الذي صرفها هذا التصريف وأودع فيها من منافع العباد ما لا يستغنون عنه، وسخرها ليعيش فيها جميع الحيوانات وتصلح الأبدان والأشجار والحبوب والنوابت إلا العزيز الحكيم الرحيم اللطيف بعباده المستحق لكل ذلٍّ وخضوع ومحبةٍ وإنابة وعبادة، وفي تسخير السحاب بين السماء والأرض على خفته ولطافته يحمل الماء الكثير فيسوقه الله إلى حيث شاء فيحيي به البلاد والعباد ويروي التلول والوهاد وينزله على الخلق وقت حاجتهم إليه، فإذا كان يضرهم كثرته أمسكه عنهم فينزله رحمة ولطفاً ويصرفه عناية وعطفاً، فما أعظم سلطانه وأغزر إحسانه وألطف امتنانه، أليس من القبيح بالعباد أن يتمتعوا برزقه ويعيشوا ببره وهم يستعينون بذلك على مساخطه ومعاصيه، أليس ذلك دليلاً على حلمه وصبره وعفوه وصفحه وعظيم لطفه، فله الحمد أولاً وآخراً وباطناً وظاهراً. والحاصل أنه كلما تدبر العاقل في هذه المخلوقات، وتغلغل فكره في بدائع المبتدعات، وازداد تأمله للصنعة وما أودع فيها من لطائف البر والحكمة علم بذلك أنها خلقت للحق وبالحق، وأنها صحائف آيات وكتب دلالات على ما أخبر به الله عن نفسه ووحدانيته وما أخبرت به الرسل من اليوم الآخر، وأنها مسخرات ليس لها تدبير ولا استعصاء على مدبرها ومصرفها، فتعرف أن العالم العلوي والسفلي كلهم إليه مفتقرون وإليه صامدون، وأنه الغني بالذات عن جميع المخلوقات فلا إله إلا الله، ولا رب سواه.
- AyatMeaning
- [164] اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان عظیم مخلوقات میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت، اس کی عظیم قدرت، رحمت اور اس کی تمام صفات کے دلائل ہیں۔ لیکن یہ تمام دلائل صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان امور میں اپنی عقل استعمال کرتے ہیں جن کے لیے عقل پیدا کی گئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو جتنی عقل سے نوازا ہے وہ اتنا ہی آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی عقل اور تفکر و تدبر سے ان آیات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پس ﴿ فِیْ خَلْ٘قِ السَّمٰؔوٰؔتِ ﴾ ’’آسمانوں کے پیدا کرنے میں۔‘‘ یعنی آسمانوں کی بلندی، ان کی وسعت، ان کے محکم اور مضبوط ہونے میں، نیز ان آسمانوں میں سورج، چاند اور ستاروں کی تخلیق اور بندوں کے مصالح کے لیے ان کی منظم گردش میں۔ ﴿ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’اور زمین میں‘‘ یعنی مخلوق کے لیے فرش کے طور پر زمین کو پیدا کیا تاکہ وہ اس پر ٹھہر سکیں اور زمین اور جو کچھ اس کے اوپر ہے اس سے استفادہ کریں، نیز اس سے عبرت حاصل کریں کہ تخلیق اور تدبیر کائنات میں اللہ تعالیٰ ایک اور متفرد ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا بیان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو تخلیق کیا اور اس کی حکمت کا، جس کی بنا پر اس نے زمین کو محکم، حسین اور موزوں بنایا اور اس کی رحمت اور علم کا، جن کی بنا پر اس نے زمین کے اندر مخلوقات کے فائدے کی اشیاء اور ان کی حاجات و ضروریات ودیعت کیں اور اس میں اس کے کمال اور اس کے واحد لائق عبادت ہونے پر سب سے زیادہ مؤثر دلیل ہے، کیونکہ کائنات کی پیدائش اور اس کی تدبیر اور تمام بندوں کے معاملات کا انتظام کرنے میں وہ متفرد ہے (اس لیے عبادت کا تمام تر مستحق بھی صرف وہی ہے نہ کہ کوئی اور، جن کا کوئی حصہ پیدائش میں ہے نہ تدبیر میں اور نہ بندوں کے معاملات کے انتظام میں۔) ﴿ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ ﴾ ’’اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں۔‘‘ یعنی رات اور دن کا دائمی طور پر ایک دوسرے کے تعاقب میں رہنا۔ جب ان میں سے ایک گزر جاتا ہے تو دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آتا ہے ۔ گرمی، سردی اور معتدل موسم میں، دنوں کا لمبا اور چھوٹا اور متوسط ہونا اور ان کی وجہ سے موسموں میں تغیر و تبدل کا ہونا۔ جن کے ذریعے سے تمام بنی آدم، حیوانات اور روئے زمین کی تمام نباتات کا انتظام ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے انتظام، تدبیر اور تسخیر کے تحت ہو رہا ہے جسے دیکھ کر عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں اور بڑے بڑے عقل مند لوگ اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔ یہ چیز اس کائنات کی تدبیر کرنے والے کی قدرت، علم و حکمت رحمت واسعہ، لطف و کرم، اس کی اس تدبیر و تصرف، جس میں وہ اکیلا ہے، اس کی عظمت، اقتدار اور غلبہ پر دلالت کرتی ہے اور یہ اس بات کی موجب ہے کہ اس کو اِلٰہ مانا جائے اور اس کی عبادت کی جائے، صرف اسی سے محبت کی جائے، اسی کی تعظیم کی جائے، اسی سے ڈرا جائے، اسی سے امید رکھی جائے اور اس کے محبوب اور پسندیدہ اعمال میں جدوجہد کی جائے۔ ﴿ وَالْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ ﴾ ’’اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں چلتی ہیں‘‘ اس آیت کریمہ میں (فُلْک) سے مراد جہاز اور کشتیاں وغیرہ ہیں جن کی صنعت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں الہام کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے داخلی اور خارجی آلات تخلیق کیے اور ان کے استعمال پر انھیں قدرت عطا کی۔ پھر اس نے اس بحر بے کراں اور ہواؤں کو ان کے لیے مسخر کر دیا جو سمندروں میں اموال تجارت سمیت کشتیوں کو لیے پھرتی ہیں جن میں لوگوں کے لیے منفعت اور ان کی معاش کے انتظامات اور مصلحتیں ہیں۔ وہ کون ہے جس نے ان کشتیوں کی صنعت انھیں الہام کی اور ان کے استعمال پر انھیں قدرت عطا کی اور ان کے لیے وہ آلات پیدا کیے جن سے وہ کام لیتے ہیں؟ وہ کون ہے جس نے کشتیوں کے لیے بے پایاں سمندر کو مسخر کیا جس کے اندر یہ کشتیاں اللہ کے حکم اور اس کی تسخیر سے چلتی ہیں؟ اور وہ کون ہے جس نے ہواؤں کو مسخر کیا؟ وہ کون ہستی ہے جس نے بری اور بحری سفر کی سواریوں کے لیے آگ اور وہ معدنیات پیدا کیں جن کی مدد سے وہ سواریاں (فضاؤں اور سمندروں میں) چلتی اور ان کے مال و اسباب بھی اٹھائے پھرتی ہیں؟ کیا یہ تمام امور اتفاقاً حاصل ہو گئے یا یہ کمزور، عاجز مخلوق انھیں وجود میں لائی ہے۔ جو اپنی ماں کے پیٹ سے جب باہر آئی تو اسے علم تھا نہ قدرت؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے قدرت عطا کی ،پھر اسے ہر اس چیز کی تعلیم دی جس کی تعلیم دینا وہ چاہتا تھا۔ یا ان تمام چیزوں کو مسخر کرنے والا ایک اللہ ہی ہے جو حکمت اور علم والا ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی اور کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں۔ بلکہ تمام اشیاء اس کی ربوبیت کے سامنے سرنگوں، اس کی عظمت کے سامنے عاجز اور اس کے جبروت کے سامنے سرافگندہ ہیں۔ اور نحیف و نزار بندے کی انتہا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے جن کے ذریعے سے یہ بڑے بڑے کام سرانجام پاتے ہیں، پس یہ چیز اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر رحمت اور اس کی عنایت پر دلالت کرتی ہے۔ اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ تمام تر محبت، خوف، امید، ہر قسم کی اطاعت، تذلل، انکساری اور تعظیم صرف اسی کی ذات کے لیے ہو۔ ﴿ وَمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّؔآءٍ ﴾ ’’اور اس میں جو اللہ نے آسمان سے پانی اتارا‘‘ اس سے مراد وہ بارش ہے جو بادل سے برستی ہے ﴿ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ﴾ ’’پس اس کے ذریعے سے اس نے زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد، زندہ کر دیا‘‘ پس زمین نے مختلف قسم کی خوراک اور نباتات ظاہر کیں۔ جو مخلوق کی ضروریات زندگی میں شمار ہوتی ہیں، جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ کیا یہ اس ذات کی قدرت و اختیار کی دلیل نہیں جس نے یہ پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے زمین سے مختلف چیزیں پیدا کیں؟ کیا یہ اپنے بندوں پر اس کی رحمت اور اس کا لطف و کرم اور اپنے بندوں کے مصالح کا انتظام نہیں؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ بندے ہر لحاظ سے اس کے سخت محتاج ہیں؟ کیا یہ چیز واجب نہیں کرتی کہ ان کا معبود اور ان کا الہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہو؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا؟ ﴿ وَبَثَّ فِیْهَا ﴾ ’’اور پھیلائے اس میں‘‘ یعنی زمین کے اندر ﴿ مِنْ كُ٘لِّ دَآ بَّةٍ ﴾ ’’ہر قسم کے جانور‘‘ یعنی زمین کے چاروں طرف مختلف اقسام کے جانور پھیلائے، جو اس کی قدرت، عظمت، وحدانیت اور اس کے غلبے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو انسانوں کے لیے مسخر کر دیا جن سے وہ ہر پہلو سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پس وہ ان میں سے بعض جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں اور بعض جانوروں کا دودھ پیتے ہیں۔ بعض جانوروں پر سواری کرتے ہیں، بعض جانور ان کے دیگر مصالح اور چوکیداری کے کام آتے ہیں۔ بعض جانوروں سے عبرت پکڑی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے ہیں۔ وہی ان کے رزق کا انتظام کرتا ہے اور وہی ان کی خوراک کا کفیل ہے۔ ﴿ وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ﴾ (ھود : 11؍6) ’’زمین کے اندر پھرنے والا کوئی جانور نہیں مگر یہ کہ اللہ کے ذمے اس کا رزق ہے وہ اس کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور جہاں اسے سونپا جاتا ہے۔‘‘ ﴿ وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ﴾ ’’اور ہواؤں کے پھیرنے میں‘‘ یعنی ٹھنڈی، گرم، شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً اور ان کے درمیان ہواؤں کا چلنا، کبھی تو یہ ہوائیں بادل اٹھاتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو اکٹھا کرتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو باردار کرتی ہیں، کبھی یہ بادل برساتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو پھاڑکر انھیں تتر بتر کرتی ہیں، کبھی اس کے ضرر کو زائل کرتی ہیں، کبھی یہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں اور کبھی ان ہواؤں کو عذاب کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔ کون ہے وہ جو ان ہواؤں کو اس طرح پھیرتا ہے؟ کون ہے جس نے ان ہواؤں میں بندوں کے لیے مختلف منافع ودیعت کیے ہیں جن سے وہ بے نیاز نہیں ہو سکتے؟ اور ان ہواؤں کو مسخر کر دیا جن میں تمام جاندار اشیاء زندہ رہ سکیں اور بدنوں، درختوں، غلہ جات اور نباتات کی اصلاح ہو؟ یہ سب کچھ کرنے والا صرف وہ اللہ ہے جو غالب، حکیم اور نہایت مہربان ہے، اپنے بندوں پر لطف و کرم کرنے والا ہے، جو اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سامنے تذلل اور عاجزی کا اظہار کیا جائے، اسی سے محبت، اسی کی عبادت اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔ آسمان اور زمین کے درمیان بادل اپنے ہلکے اور لطیف ہونے کے باوجود بہت زیادہ پانی کو اٹھائے پھرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے اس بادل کو لے جاتا ہے پھر وہ اس پانی کے ذریعے سے زمین اور بندوں کو زندگی عطا کرتا اور ٹیلوں اور ہموار زمین کو سیراب کرتا ہے اور مخلوق پر اسی وقت بارش برساتا ہے جس وقت اس کو ضرورت ہوتی ہے۔ جب بارش کی کثرت انھیں نقصان پہنچانے لگتی ہے تو وہ اسے روک لیتا ہے۔ وہ بندوں پر لطف و کرم کے طور پر بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت اور شفقت سے بارش کو ان سے روک لیتا ہے۔ اس کا غلبہ کتنا بڑا، اس کی بھلائی کتنی عظیم اور اس کا احسان کتنا لطیف ہے!!۔ کیا یہ بندوں کے حق میں برائی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رزق سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کے احسان کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہیں، پھر وہ ان تمام چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کی معصیت پر مدد لیتے ہیں؟ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے حلم و صبر، عفو و درگزر اور اس کے عظیم لطف و کرم کی دلیل نہیں؟ پس اول و آخر اور ظاہرو باطن اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عقل مند شخص جب بھی ان مخلوقات میں غور و فکر اور انوکھی چیزوں میں سوچ بچار کرے گا، اور اللہ کی کاریگری میں اور اس میں جو اس نے احسان اور حکمت کے لطائف رکھے ہیں، ان میں جتنا زیادہ غوروفکر کرے گا۔ تو اسے معلوم ہو گا کہ یہ کائنات اس نے حق کے لیے اور حق کے ساتھ تخلیق کی ہے، نیز یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات، وحدانیت اور یوم آخرت کے نشانات اور دلائل ہیں، جس کے بارے میں اس نے اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے سامنے مسخر ہے، وہ اپنے تدبیر اور تصرف کرنے والے کے سامنے کوئی تدبیر اور نافرمانی نہیں کر سکتی۔ پس تجھے بھی معلوم ہو جائے گا کہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی اسی کے محتاج اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ بالذات تمام کائنات سے بے نیاز اور مستغنی ہے پس اس کے سوا کوئی الہ نہیں اور اس کے سوا کوئی رب نہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [164
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF