Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 77
- SegmentHeader
- AyatText
- {155} أخبر تعالى أنه لا بد أن يبتليَ عباده بالمحن ليتبين الصادق من الكاذب والجازع من الصابر، وهذه سنته تعالى في عباده، لأن السراء لو استمرت لأهل الإيمان ولم يحصل معها محنة لحصل الاختلاط الذي هو فساد، وحكمة الله تقتضي تمييز أهل الخير من أهل الشر، هذه فائدة المحن لا إزالة ما مع المؤمنين من الإيمان ولا ردهم عن دينهم، فما كان الله ليضيع إيمان المؤمنين. فأخبر في هذه الآية أنه سيبتلي عباده، {بشيء من الخوف}؛ من الأعداء، {والجوع}؛ أي: بشيء يسير منهما لأنه لو ابتلاهم بالخوف كله أو الجوع لهلكوا، والمحن تمحص لا تهلك، {ونقص من الأموال}؛ وهذا يشمل جميع النقص المعتري للأموال من جوائح سماوية وغرق وضياع وأخذ الظلمة للأموال من الملوك الظلمة وقطاع الطريق وغير ذلك {والأنفس}؛ أي: ذهاب الأحباب من الأولاد والأقارب والأصحاب، ومن أنواع الأمراض في بدن العبد أو بدن من يحبه، {والثمرات}؛ أي: الحبوب وثمار النخيل والأشجار كلها والخضر ببرد أو برَد أو حرق أو آفة سماوية من جراد ونحوه، فهذه الأمور لا بد أن تقع لأن العليم الخبير أخبر بها فوقعت كما أخبر، فإذا وقعت انقسم الناس قسمين: جازعين وصابرين. فالجازع حصلت له المصيبتان، فوات المحبوب وهو وجود هذه المصيبة وفوات ما هو أعظم منها وهو الأجر بامتثال أمر الله بالصبر ففاز بالخسارة والحرمان ونقص ما معه من الإيمان، وفاته الصبر والرضا والشكران وحصل له السخط الدال على شدة النقصان. وأما من وفقه الله للصبر عند وجود هذه المصائب فحبس نفسه عن التسخط قولاً وفعلاً واحتسب أجرها عند الله وعلم أن ما يدركه من الأجر بصبره أعظم من المصيبة التي حصلت له، بل المصيبة تكون نعمة في حقه لأنها صارت طريقاً لحصول ما هو خير له وأنفع منها، فقد امتثل أمر الله وفاز بالثواب، فلهذا قال تعالى: {وبشر الصابرين}؛ أي: بشرهم بأنهم يوفون أجرهم بغير حساب، فالصابرون هم الذين فازوا بالبشارة العظيمة والمنحة الجسيمة، ثم وصفهم بقوله:
- AyatMeaning
- [155] اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اپنے بندوں کو مصائب و محن کے ذریعے سے آزماتا ہے تاکہ سچے اور جھوٹے، صابر اور بے صبر کے درمیان فرق واضح ہو جائے۔ اپنے بندوں کے معاملے میں یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ کیونکہ اگر اہل ایمان ہمیشہ خوشحالی سے لطف اندوز ہوں انھیں کبھی مصائب ومحن کا سامنا نہ ہو تو فساد واقع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اہل خیر اہل شر میں سے علیحدہ ہوں۔ یہ آزمائش کا فائدہ ہے۔ اس سے اہل ایمان کا وہ ایمان زائل نہیں ہوتا جو انھیں عطا کیا گیا ہے اور نہ آزمائش انھیں دین سے ہٹاتی ہے، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ پس اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے گا ﴿بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ ﴾ ’’کسی قدر خوف سے‘‘ یعنی دشمنوں کے خوف سے ﴿وَالْجُوْعِ ﴾ ’’اور بھوک سے‘‘ یعنی بھوک اور دشمنوں کے خوف کے ذریعے سے کچھ نہ کچھ انھیں ضرور آزمائے گا۔ کیونکہ اگراللہ تعالیٰ نے انھیں مکمل بھوک اور خوف میں مبتلا کر دیا تو وہ ہلاک ہو جائیں گے۔ اور آزمائش اور امتحان ہلاک کرنے کی غرض سے نہیں آتا بلکہ اس کا مقصد پاک صاف کرنا ہوتا ہے۔ ﴿وَنَقْ٘صٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ﴾ ’’اور کچھ مالوں کی کمی سے‘‘ اس میں وہ تمام کمی اور گھاٹا شامل ہے جو اہل ایمان کو آفات سماوی، سیلاب یا سمندر میں غرق ہونے، ظالم حکومتوں کے مال چھین لینے اور راہزن ڈاکوؤں کے ڈاکہ ڈالنے کی وجہ سے پیش آتا ہے۔ ﴿وَالْاَنْفُ٘سِ ﴾ ’’اور جانوں کی کمی سے‘‘ اولاد، عزیز و اقارب اور دوستوں کو فوت کر کے، خود بندۂ مومن یا اس کے کسی عزیز کو بیماری لاحق کر کے ان کو آزماتا ہے۔ ﴿وَالثَّ٘مَرٰتِ﴾ ’’اور پھلوں کی کمی سے‘‘ ژالہ باری، سردی، آگ لگنے، آفات سماوی اور ٹڈی دل کے ذریعے سے غلہ جات، کھجوروں، سبزیوں اور تمام پھلدار درختوں کو نقصان پہنچا کر ہم ضرور آزمائیں گے۔ ان تمام آزمائشوں کا آنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ علیم و خبیر نے ان کے بارے میں خبر دی ہے۔ اور یہ آزمائشیں اسی طرح واقع ہوئیں۔ جب یہ مصائب و محن واقع ہوئے، تو لوگ دو اقسام میں منقسم ہو گئے۔ (۱) بے صبری کا مظاہرہ کرنے والے۔ (۲) صبر کرنے والے۔ بے صبر شخص کو دو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، محبوب چیز سے محروم ہونا اور وہ اس مصیبت کا وجود ہے۔دوسرا اس سے بھی زیادہ بڑی چیز سے محروم ہونا یعنی اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے ثواب کا حاصل نہ کرنا۔ چنانچہ خسارہ، حرماں نصیبی اور ایمان میں کمی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ صبر، رضا اور شکر سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے ناراضی حاصل ہوتی ہے جو شدت نقصان پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے ان مصائب ومحن کے وقت صبر سے نوازا اور اس نے اپنے آپ کو قولاً اور فعلاً اللہ پر اظہار برہمی سے روکے رکھا۔ پھر اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب کی امید رکھی اور اسے یہ بھی علم ہے کہ صبر کرنے سے اسے جو ثواب حاصل ہو گا، وہ اس مصیبت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جس کا اسے سامنا ہے۔ بلکہ یہ مصیبت اس کے حق میں نعمت ہے کیونکہ یہ مصیبت اس کے لیے اس بھلائی اور فائدے کے حصول کا باعث بنی ہے جو اس مصیبت سے زیادہ بہتر ہے۔ پس اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور ثواب کا مستحق قرار پایا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَبَشِّ٘رِ الصّٰؔبِرِیْنَؔ﴾ ’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادو۔‘‘ یعنی انھیں خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی حساب کے ان کو پورا پورا اجر دے گا۔ پس اہل صبر وہ لوگ ہیں جن کو عظیم بشارت اور بہت بڑے انعام سے نوازا گیا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان صابرین کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
- Vocabulary
- AyatSummary
- [155
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF