Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 76
- SegmentHeader
- AyatText
- {154} لما ذكر تبارك وتعالى الأمر بالاستعانة بالصبر على جميع الأحوال ذكر نموذجاً مما يستعان بالصبر عليه وهو الجهاد في سبيله وهو أفضل الطاعات البدنية وأشقها على النفوس لمشقته في نفسه ولكونه مؤدياً للقتل وعدم الحياة التي إنما يرغب الراغبون في هذه الدنيا لحصول الحياة ولوازمها، فكل ما يتصرفون به فإنه سعيٌ لها ودفع لما يضادها. ومن المعلوم أن المحبوب لا يتركه العاقل إلا لمحبوب أعلى منه وأعظم، فأخبر تعالى أن من قتل في سبيله بأن قاتل في سبيل الله لتكون كلمة الله هي العليا ودينه الظاهر لا لغير ذلك من الأغراض فإنه لم تفته الحياة المحبوبة بل حصل له حياة أعظم وأكمل مما تظنون وتحسبون، فالشهداء {أحياء عند ربهم يرزقون. فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم ألاَّ خوف عليهم ولا هم يحزنون. يستبشرون بنعمة من الله وفضل وأن الله لا يضيع أجر المؤمنين}؛ فهل أعظم من هذه الحياة المتضمنة للقرب من الله تعالى وتمتعهم برزقه البدني في المأكولات والمشروبات اللذيذة والرزق الروحي وهو الفرح وهو الاستبشار وزوال كل خوف وحزن وهذه حياة برزخية أكمل من الحياة الدنيا، بل قد أخبر النبي - صلى الله عليه وسلم - أن أرواح الشهداء في أجواف طير خضر ترد أنهار الجنة، وتأكل من ثمارها وتأوي إلى قناديل معلقة بالعرش. وفي هذه الآية أعظم حث على الجهاد في سبيل الله وملازمة الصبر عليه، فلو شعر العباد بما للمقتولين في سبيل الله من الثواب لم يتخلف عنه أحد، ولكن عدم العلم اليقيني التام هو الذي فتر العزائم وزاد نوم النائم وأفات الأجور العظيمة والغنائم، لم لا يكون كذلك والله تعالى قد {اشترى من المؤمنين أنفسهم وأموالهم بأن لهم الجنة يقاتلون في سبيل الله فيقتلون ويقتلون}؛ فوالله لو كان للإنسان ألف نفس تذهب نفساً فنفساً في سبيل الله لم يكن عظيماً في جانب هذا الأجر العظيم. ولهذا لا يتمنى الشهداء بعدما عاينوا من ثواب الله وحسن جزائه إلا أن يُرَدُّوا إلى الدنيا؛ حتى يقتلوا في سبيله مرة بعد مرة. وفي الآية دليل على نعيم البرزخ وعذابه كما تكاثرت بذلك النصوص.
- AyatMeaning
- [154] چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام احوال میں صبر سے مدد لینے کا حکم دیا ہے اس لیے اس نے ایک نمونہ ذکر فرمایا ہے جس میں صبر سے مدد لی جاتی ہے۔ اور وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے جو سب سے افضل بدنی عبادت ہے۔ اپنی مشقت کی وجہ سے یہ نفوس انسانی پر سب سے زیادہ گراں گزرتی ہے نیز یہ عبادت نفوس انسانی پر اس لیے بھی گراں ہے کہ اس کا نتیجہ موت اور عدم حیات ہے اور زندگی ایک ایسی چیز ہے کہ لوگ اس دنیا میں زندگی اور اس کے لوازم کے حصول میں رغبت رکھتے ہیں۔ پس ہر وہ چیز جس میں لوگ تصرف کرتے ہیں اس کے حصول کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور اس کی ضد کو دور کیا جاتا ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ عقل مند شخص اپنی محبوب چیز کو اس وقت ہی چھوڑتا ہے جب اسے اس سے بڑی اور اس سے بہتر کوئی اور محبوب چیز حاصل ہونے کی امید ہو۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس وجہ سے قتل ہو جاتا ہے کہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا تاکہ اللہ کا کلمہ بلند اور اس کا دین غالب ہو اور اس کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہ ہو۔ تو وہ اپنی محبوب زندگی کو کھو نہیں دیتا بلکہ اسے اس زندگی سے زیادہ عظیم اور کامل زندگی حاصل ہو جاتی ہے جس کا تم گمان اور تصور کر سکتے ہو۔ پس شہداء وہ ہیں جن کا ذکر یوں آیا ہے ﴿ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُ٘وْنَۙ۰۰فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۙ وَیَسْتَبْشِرُوْنَ۠ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْ١ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۘ۰۰ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ١ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران : 3؍169۔171) ’’وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا کیا اس پر وہ خوش ہیں اور جو پیچھے رہ گئے اور (شہید ہو کر) ان کے ساتھ نہ مل سکے ان کے بارے میں خوش ہو رہے ہیں کہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ وہ اللہ کی نعمتوں، اس کے فضل اور اس بات پر خوش ہو رہے ہوں گے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ کیا اس سے بھی بڑی کوئی اور زندگی ہے جو قرب الٰہی، اس کے بدنی رزق، مثلاً لذیذ ماکولات و مشروبات سے تمتع اور روحانی رزق، مثلاً فرحت، خوشی اورعدم حزن و غم کو متضمن ہے؟ یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے زیادہ کامل ہے۔ بلکہ رسول اللہeنے اس زندگی کے بارے میں ان الفاظ میں آگاہ فرمایا: ’’شہداء کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے جوف (پیٹ) میں جنت کی نہروں سے پانی پینے کے لیے وارد ہوتی ہیں جنت کے پھل کھاتی ہیں اور ان قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں۔‘‘(صحیح مسلم، الإمارہ ، باب بیان أن أرواح الشھداء في الجنۃ ….. الخ، حديث:1887 و مسند احمد:1؍166) اس آیت میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے اور اس میں صبر کا دامن پکڑے رکھنے کی بڑی ترغیب ہے۔ پس اگر بندوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے کا کتنا ثواب ہے تو کوئی شخص جہاد سے پیچھے نہ رہے مگر کامل علم یقینی کا فقدان، عزائم کو کمزور، نیند میں مدہوش شخص کی نیند میں اور اضافہ اور غنیمتیں اور بہت بڑا ثواب حاصل کرنے سے محروم کر دیتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کا جان و مال خرید لیا ہے فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ١ؕ یُقَاتِلُوْنَؔ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَؔ وَیُقْتَلُوْنَؔ﴾ (التوبہ : 9؍111) ’’اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں (کافروں کو) قتل کرتے ہیں اور قتل ہو جاتے ہیں۔‘‘ اللہ کی قسم! اگر انسان کو ہزار جانیں عطا کی گئی ہوں اور وہ ایک ایک کر کے سب جانیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے تب بھی اس اجر عظیم کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے شہداء جب اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس بہترین جزا اور ثواب کا مشاہدہ کر لیں گے تو دنیا کی طرف لوٹائے جانے کی تمنا کریں گے تاکہ وہ اللہ کے راستے میں بار بار قتل ہوں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ برزخ میں انسان کو آرام اور عذاب ملتا ہے جیسا کہ بکثرت نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [154
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF