Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 75
- SegmentHeader
- AyatText
- {153} أمر الله تعالى المؤمنين بالاستعانة على أمورهم الدينية والدنيوية {بالصبر والصلاة}؛ فالصبر هو حبس النفس وكفها على ما تكره، فهو ثلاثة أقسام: صبرها على طاعة الله حتى تؤديها، وعن معصية الله حتى تتركها، وعلى أقدار الله المؤلمة فلا تتسخطها. فالصبر هو المعونة العظيمة على كل أمر، فلا سبيل لغير الصابر أن يدرك مطلوبه، خصوصاً الطاعات الشاقة المستمرة فإنها مفتقرة أشد الافتقار إلى تحمل الصبر وتجرع المرارة الشاقة، فإذا لازم صاحبها الصبر فاز بالنجاح، وإن رده المكروه والمشقة عن الصبر والملازمة عليها لم يدرك شيئاً وحصل على الحرمان، وكذلك المعصية التي تشتد دواعي النفس ونوازعها إليها وهي في محل قدرة العبد، فهذه لا يمكن تركها إلا بصبر عظيم وكف لدواعي قلبه ونوازعها لله تعالى واستعانة بالله على العصمة منها فإنها من الفتن الكبار، وكذلك البلاء الشاق خصوصاً إن استمر، فهذا تضعف معه القوى النفسانية والجسدية ويوجد مقتضاها وهو التسخط إن لم يقاومها صاحبها بالصبر لله والتوكل عليه واللجْأ إليه والافتقار على الدوام، فعلمت أن الصبر محتاج إليه العبد، بل مضطر في كل حالة من أحواله، فلهذا أمر الله تعالى به وأخبر أنه {مع الصابرين}؛ أي: مع من كان الصبر لهم خلقاً وصفة وملكة بمعونته وتوفيقه وتسديده فهانت عليهم بذلك المشاق والمكاره وسهل عليهم كل عظيم وزالت عنهم كل صعوبة، وهذه معية خاصة تقتضي محبته ومعونته ونصره وقربه وهذه منقبة عظيمة للصابرين فلو لم يكن للصابرين فضيلة إلا أنهم فازوا بهذه المعية من الله لكفى بها فضلاً وشرفاً، وأما المعية العامة فهي معية العلم والقدرة كما في قوله تعالى: {وهو معكم أينما كنتم} وهذه عامة للخلق. وأمر تعالى بالاستعانة بالصلاة لأن الصلاة هي عماد الدين ونور المؤمنين، وهي الصلة بين العبد وبين ربه، فإذا كانت صلاة العبد صلاة كاملة مجتمعاً فيها ما يلزم فيها وما يسن، وحصل فيها حضور القلب الذي هو لبها فصار العبد إذا دخل فيها استشعر دخوله على ربه ووقوفه بين يديه موقف العبد الخادم المتأدب مستحضراً لكل ما يقوله وما يفعله مستغرقاً بمناجاة ربه ودعائه، لا جرم أن هذه الصلاة من أكبر المعونة على جميع الأمور، فإن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر، ولأن هذا الحضور الذي يكون في الصلاة يوجب للعبد في قلبه وصفاً وداعياً يدعوه إلى امتثال أوامر ربه واجتناب نواهيه، هذه هي الصلاة التي أمر الله أن نستعين بها على كل شيء.
- AyatMeaning
- [153] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیاوی امور میں صبر اور نماز سے مدد لیں۔ پس صبر، نفس کو روکنے اور ان امور سے باز رکھنے کا نام ہے جن کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ صبر کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا حتیٰ کہ اسے بجا لائے۔ (۲) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکنے پر صبر کرنا۔ یہاں تک کہ وہ اس نافرمانی کو ترک کر دے۔ (۳) تکلیف پہنچانے والی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر صبر کرنا اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کرنا۔ صبر سے ہر کام میں زبردست معونت حاصل ہوتی ہے لہٰذا بے صبر آدمی کے لیے ہرگز ممکن نہیں کہ وہ اپنا مقصد حاصل کر سکے، خاص طور پر دائمی مشقت سے بھرپور نیکیاں۔ کیونکہ اس قسم کی نیکیاں انتہائی صبر و تحمل اور مشقت کی تلخی برداشت کرنے کی محتاج ہوتی ہیں۔ ان نیکیوں کا مشتاق جب صبر کو لازم پکڑ لیتا ہے تو کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اور اگر ناپسندیدہ کام اور مشقت اسے صبر پر قائم نہ رکھ سکے تو اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا، صرف محرومی اس کا نصیب ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ گناہ جس کی طرف نفس انسانی کا داعیہ کشش رکھتا ہے اور اس گناہ کا ارتکاب اس کی قدرت میں بھی ہوتا ہے تو اس گناہ کا ترک کرنا صرف صبر عظیم، اللہ تعالیٰ کی خاطر قلب کے دواعی کے ترک کرنے اور اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ گناہ بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سخت مصائب اور آزمائشوں میں، خاص طور پر جبکہ یہ مصائب دائمی ہوں تب ان پے در پے مصائب سے جسمانی اورنفسانی قویٰ کمزور پڑ جاتے ہیں، اگر یہ شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر، توکل، اللہ تعالیٰ کی پناہ کے ذریعے سے اور اپنے آپ کو اللہ کا دائمی محتاج سمجھتے ہوئے ان کا مقابلہ نہیں کرے گا تو ناراضی اور غصہ اس پر غلبہ پا لیں گے۔ پس معلوم ہوا کہ صبر ایک ایسی چیز ہے جس کا بندہ محتاج بلکہ ہر حالت میں اس کی طرف مجبور ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے اور آگاہ کیا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے صبر کو اپنی عادت، وصف اور ملکہ بنا لیا ہے۔ تب ان لوگوں پر بڑی بڑی مشقتیں اور مصائب آسان ہو جاتے ہیں، ان پر ہر بڑا کام آسان اور ان سے ہر مشکل دور ہو جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص معیت ہے جو اس کی محبت، اس کی مدد، اس کی نصرت اور اس کے قرب کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ صبر کرنے والوں کی بہت بڑی مدح و منقبت ہے۔ اگر اہل صبر کی صرف یہی فضیلت ہوتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں کامیابی کی منزل پر پہنچ گئے تو شرف و فضیلت کے لیے یہی کافی ہے۔ رہی معیت عامہ تو یہ اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت کی معیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَهُوَ مَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ﴾ (الحدید: 57؍4) ’’اور تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمھارے ساتھ ہے‘‘ میں مذکور ہے اور یہ معیت تمام مخلوق کے لیے عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز سے مدد لینے کا حکم دیا ہے کیونکہ نماز دین کا ستون اور اہل ایمان کا نور ہے۔ نماز بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ جب بندۂ مومن کی نماز کامل ہو ، اس میں تمام لازمی امور اور سنن جمع ہوں، اس میں حضور قلب، جو نماز کا لب لباب ہے، حاصل ہو تو بندۂ مومن جب نماز میں داخل ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہوا ہے اور اپنے رب کے سامنے اس طرح کھڑا ہے جس طرح ایک مؤدب خادم غلام اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کہے اور جو کچھ کرے اس کا معنی اور مفہوم اس کے شعور میں حاضر ہو، وہ اپنے رب کے ساتھ مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مستغرق ہو، تو یقیناً یہ نماز تمام امور میں سب سے بڑی مددگار ہے کیونکہ نماز فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ یہ حضور قلب جو نماز کے اندر حاصل ہوتا ہے، بندے کے قلب میں ایسے وصف اور داعیے کا موجب بنتا ہے جو بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کی طرف دعوت دیتا ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہر چیز کے مقابلے میں اس سے مدد لیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [153
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF