Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 14
- SuraName
- تفسیر سورۂ ابراہیم
- SegmentID
- 720
- SegmentHeader
- AyatText
- {22} أي: {وقال الشيطان}: الذي هو سببٌ لكلِّ شرٍّ يقع ووقع في العالم مخاطباً لأهل النار ومتبرئاً منهم، {لمَّا قُضِيَ الأمر}: ودخل أهلُ الجنةِ الجنةَ وأهلُ النارِ النارَ: {إنَّ الله وَعَدَكم وعدَ الحقِّ}: على ألسنة رسله فلم تطيعوه؛ فلو أطعتموه؛ لأدركتم الفوز العظيم. {ووعدتُكم}: الخير، {فأخلفتُكم}؛ أي: لم يحصُلْ ولن يحصُلَ لكم ما منَّيتكم به من الأماني الباطلة. {وما كان لي عليكُم من سلطانٍ}؛ أي: من حجة على تأييد قولي، {إلاَّ أن دعوتُكم فاستجبتُم لي}؛ أي: هذه نهاية ما عندي أني دعوتُكم إلى مُرادي وزيَّنته لكم فاستجبتُم لي اتِّباعاً لأهوائكم وشهواتكم؛ فإذا كانت الحال بهذه الصورة؛ {فلا تلوموني ولوموا أنفسكم}: فأنتم السبب وعليكم المدار في موجب العقاب. {ما أنا بمصرِخِكُم}؛ أي: بمغيثكم من الشدَّة التي أنتم بها، {وما أنتم بمصرخيَّ}: كلٌّ له قسطٌ من العذاب. {إنِّي كفرتُ بما أشركتمونِ من قبلُ}؛ أي: تبرأت من جعلكم لي شريكاً مع الله، فلست شريكاً لله، ولا تجب طاعتي. {إنَّ الظالمين}: لأنفسهم بطاعة الشيطان {لهم عذابٌ أليمٌ}: خالدين فيه أبداً. وهذا من لطف الله بعباده أن حذَّرهم من طاعة الشيطان، وأخبر بمداخلِهِ التي يدخل منها على الإنسان ومقاصدِهِ فيه، وأنه يقصدُ أن يدخله النيران. وهنا بيَّن لنا أنَّه إذا دخل النار وجندُه ؛ أنَّه يتبرَّأ منهم هذه البراءة، ويكفُر بشركِهِم، ولا ينبِّئك مثل خبيرٍ. واعلم أن الله ذكر في هذه الآية أنه ليس له سلطانٌ، وقال في آية أخرى: {إنَّما سُلْطانُهُ على الذين يَتَوَلَّوْنَهُ والذين هم به مشركونَ}؛ فالسلطان الذي نفاه عنه هو سلطان الحجَّة والدليل، فليس له حجَّة أصلاً على ما يدعو إليه، وإنما نهاية ذلك أن يُقيم لهم من الشُبَه والتزيينات ما به يتجرؤون على المعاصي، وأما السلطان الذي أثبته؛ فهو التسلُّط بالإغراء على المعاصي لأوليائه يؤزُّهم إلى المعاصي أزًّا، وهم الذين سلَّطوه على أنفسهم بموالاته والالتحاق بحزبه، ولهذا ليس له سلطان على الذين آمنوا وعلى ربِّهم يتوكَّلون.
- AyatMeaning
- [22] ﴿وَقَالَ الشَّ٘یْطٰنُ﴾ شیطان، جو دنیا میں واقع ہونے والی ہر برائی کا سبب ہے جہنمیوں سے براء ت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہو کر کہے گا: ﴿لَمَّا قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ ﴾ ’’جب فیصلہ ہو چکے گا سب امور کا‘‘ اور جنتی جنت میں داخل ہو جائیں گے اور جہنمی جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ﴾ ’’جو وعدہ اللہ نے کیا تھا وہ تو سچ تھا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی زبان پر تمھارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا مگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی، اگر تم نے اس کی اطاعت کی ہوتی تو تم فوز عظیم سے بہرہ ور ہوتے ﴿ وَوَعَدْتُّكُمْ ﴾ ’’اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا‘‘ بھلائی کا ﴿ فَاَخْلَفْتُكُمْ ﴾ ’’پس میں نے تم سے وعدہ خلافی کی‘‘ یعنی میں نے تمھیں جو جھوٹی آرزوئیں اور امیدیں دلائی تھیں وہ حاصل نہیں ہوئیں اور نہ کبھی حاصل ہوں گی۔ ﴿ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰ٘نٍ﴾ ’’اور میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا‘‘ میرے پاس کوئی دلیل اور اپنے قول کی کوئی تائید نہ تھی ﴿ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ﴾ ’’مگر یہ کہ میں نے تمھیں بلایا اور تم نے میری بات مان لی‘‘ یعنی میرے پاس زیادہ سے زیادہ جو اختیار تھا وہ یہ تھا کہ میں نے تمھیں اپنے مقصد کی طرف بلایا اور تمھارے سامنے اسے خوب آراستہ کیا، تم نے اپنی خواہشات نفس اور شہوات کی پیروی کرتے ہوئے میری دعوت پر لبیک کہا۔ جب صورت حال یہ ہے ﴿ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾ ’’تو تم مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ملامت کرو‘‘ پس موجب عذاب میں تم ہی پر دارومدار ہے اور تم ہی اس عذاب کا سبب ہو۔ ﴿ مَاۤ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ ﴾ ’’میں تمھاری فریاد کو نہیں پہنچ سکتا‘‘ یعنی جس شدت عذاب میں تم مبتلا ہو میں تمھاری مدد نہیں کر سکتا۔ ﴿ وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ﴾ ’’اور نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو‘‘ ہر ایک کے لیے اپنے اپنے حصے کا عذاب ہے ﴿ اِنِّیْ كَفَرْتُ بِمَاۤ اَشْرَؔكْتُمُوْنِ۠ مِنْ قَبْلُ﴾ ’’میں منکر ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا تھا اس سے پہلے‘‘ یعنی تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا تھا، میں اللہ تعالیٰ کا شریک نہ تھا اور تم پر میری اطاعت واجب نہ تھی پس میں تم سے بری الذمہ ہوں ﴿ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ﴾ بے شک شیطان کی اطاعت کر کے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ﴿ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’ان کے لیے درد ناک عذاب ہے‘‘ وہ اس عذاب میں ابدالآباد تک رہیں گے۔ اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے انھیں شیطان کی اطاعت سے ڈرایا اس نے شیطان کے مقاصد اور ان راستوں کی نشاندہی کردی ہے جہاں سے وہ داخل ہو کر انسان کو گمراہ کرتا ہے اس کا مقصد صرف انسان کو جہنم کی آگ میں جھونکنا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر واضح کر دیا ہے کہ جب شیطان اپنے لشکر سمیت جہنم میں داخل ہو گا تو وہ اپنے متبعین سے بریء الذمہ ہو جائے گا اور ان کے شرک سے صاف انکار کر دے گا۔ ﴿وَلَا یُنَبِّئُكَ مِثْ٘لُ خَبِیْرٍ﴾ (فاطر: 35؍14) ’’اور اللہ باخبر کی مانند تمھیں کوئی خبر نہیں دے سکتا۔‘‘ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شیطان کے پاس کوئی اختیار نہیں اور ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا ﴿اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْ٘رِكُوْنَ﴾ (النحل: 16؍100) ’’شیطان کا زور تو صرف انھی لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا والی اور سرپرست بناتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘ پس وہ ’’زور‘‘ اور ’’تسلط‘‘ جس کی اللہ تعالیٰ نے نفی کی ہے اس سے مراد حجت اور دلیل ہے، شیطان جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے، اس پر درحقیقت اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتا ہے کہ ان کو شبہات میں مبتلا کرے، گناہوں کو ان کے سامنے مزین اور آراستہ کرے، جن سے متاثر ہو کر وہ گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کرلیں ۔ رہا وہ ’’زور‘‘ جس کا اللہ تعالیٰ نے اثبات کیا ہے تو اس سے مراد وہ تسلط ہے جس کے بل پر وہ اپنے دوستوں کو گناہوں پر آمادہ کرتا ہے اور ان کو نافرمانیوں پر ابھارتا ہے۔ بندے شیطان سے موالات پیدا کر کے اور اس کے گروہ میں شامل ہو کر اس کو اپنے آپ پر مسلط کر لیتے ہیں ۔ اس لیے شیطان کا ان لوگوں پر کوئی زور نہیں چلتا جو ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [22]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF