Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
14
SuraName
تفسیر سورۂ ابراہیم
SegmentID
713
SegmentHeader
AyatText
{1 ـ 2} يخبر تعالى أنه أنزل كتابه على رسوله محمد - صلى الله عليه وسلم -؛ لنفع الخلق؛ ليخرج الناس من ظلمات الجهل والكفر والأخلاق السيِّئة وأنواع المعاصي إلى نور العلم والإيمان والأخلاق الحسنة. وقوله: {بإذن ربِّهم}؛ أي: لا يحصل منهم المراد المحبوب لله إلا بإرادةٍ من الله ومعونة؛ ففيه حثٌّ للعباد على الاستعانة بربهم. ثم فسَّر النور الذي يهديهم إليه هذا الكتاب، فقال: {إلى صراط العزيز الحميد}؛ أي: الموصل إليه وإلى دار كرامته، المشتمل على العلم بالحقِّ والعمل به. وفي ذكر العزيز الحميد بعد ذكر الصراط الموصل إليه إشارة إلى أنَّ مَنْ سَلَكه؛ فهو عزيزٌ بعزِّ الله، قويٌّ ولو لم يكن له أنصار إلاَّ الله، محمودٌ في أموره، حسن العاقبة، وليدلَّ ذلك على أنَّ صراطَ الله من أكبر الأدلَّة على ما لله من صفات الكمال ونعوت الجلال، وأنَّ الذي نصبه لعباده عزيزُ السلطان حميدٌ في أقواله وأفعاله وأحكامه، وأنه مألوهٌ معبودٌ بالعبادات التي هي منازل الصراط المستقيم، وأنه كما أن له ملك السماوات والأرض خلقاً ورزقاً وتدبيراً؛ فله الحكم على عباده بأحكامه الدينيَّة؛ لأنَّهم ملكه، ولا يَليق به أن يترُكَهم سدىً. فلما بيَّن الدليل والبرهان؛ توعَّد مَن لم يَنْقَدْ لذلك، فقال: {وويلٌ للكافرين من عذابٍ شديدٍ}: لا يقدَّر قَدْره، ولا يوصَفُ أمره.
AyatMeaning
[2,1] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتاہے کہ اس نے مخلوق کے فائدے کے لیے اپنے رسول محمد مصطفیe پر کتاب نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو کفر و جہالت، اخلاق بد اور مختلف اقسام کے گناہوں کی تاریکی سے نکال کر علم و ایمان اور اخلاق حسنہ کی روشنی میں لے جائے اور فرمایا ﴿ بِـاِذْنِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’ان کے رب کے حکم سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبوب مراد صرف اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اس کی مدد ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں بندوں کے لیے ترغیب ہے کہ وہ اپنے رب سے مدد طلب کریں ، پھر اللہ نے اس ’’نور‘‘ کی تفسیر بیان فرمائی جس کی طرف یہ کتاب راہنمائی کرتی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿اِلٰى صِرَاطِ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ﴾ ’’غالب اور قابل تعریف (اللہ) کے راستے کی طرف۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے عزت و تکریم والے گھر تک پہنچانے والا راستہ، جو حق کے علم اور اس پر عمل کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچانے والے راستے کا ذکر کرنے کے بعد ﴿ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ﴾کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو کوئی اس راستے پر گامزن ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کوئی اعوان و انصار نہ ہوں ، تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے غلبے کے ساتھ غالب اور طاقتور ہے، وہ اپنے تمام امور میں قابل ستائش اور اچھے انجام کا مالک ہے۔ نیز یہ اس بات پر دلالت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا راستہ، اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور نعوت جلال پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ اور جس نے اپنے بندوں کے لیے یہ راستہ مقرر کیا ہے، وہ غالب، قوت والا، اپنے اقوال و افعال اور احکام میں قابل ستائش ہے۔ وہ معبود ہے اور تمام عبادات کا مستحق ہے یہ عبادات اس صراط مستقیم کی منازل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ، تخلیق،رزق اور تدبیر کے اعتبار سے جس طرح آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اسی طرح وہ اپنے بندوں پر احکام دینی بھی نافذ کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی ملکیت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں کہ وہ ان کو بے فائدہ چھوڑ دے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دلیل اور برہان واضح کر دی تو اس نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو اس کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے چنانچہ فرمایا: ﴿وَوَیْلٌ لِّ٘لْ٘كٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ﴾ ’’اور ہلاکت ہے کافروں کے لیے سخت عذاب کی صورت میں ‘‘ یعنی اس کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے نہ اس کا وصف بیان کیا جا سکتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[2,1
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List