Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
73
SegmentHeader
AyatText
{150} {وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره}؛ وقال: {وإنه للحق من ربك}؛ أكده بأن، واللام لئلا يقع لأحد فيه أدنى شبهة، ولئلا يظن أنه على سبيل التشهي لا الامتثال، {وما الله بغافل عما تعملون}؛ بل هو مطلع عليكم في جميع أحوالكم فتأدبوا معه وراقبوه بامتثال أوامره واجتناب نواهيه، فإن أعمالكم غير مغفول عنها بل مجازون عليها أتم الجزاء إن خيراً فخير وإن شرًّا فشر، وقال هنا: {لئلا يكون للناس عليكم حجة}؛ أي: شرعنا لكم استقبال الكعبة المشرفة لينقطع عنكم احتجاج الناس من أهل الكتاب والمشركين، فإنه لو بقي مستقبلاً لبيت المقدس لتوجهت عليه الحجة، فإن أهل الكتاب يجدون في كتابهم أن قبلته المستقرة هي الكعبة البيت الحرام، والمشركين يرون أن من مفاخرهم هذا البيت العظيم، وأنه من ملة إبراهيم، وأنه إذا لم يستقبله محمد - صلى الله عليه وسلم -، توجهت نحوه حججهم، وقالوا كيف يدَّعي أنه على ملة إبراهيم وهو من ذريته وقد ترك استقبال قبلته، فباستقبال القبلة قامت الحجة على أهل الكتاب والمشركين وانقطعت حججهم عليه، إلا من ظلم منهم؛ أي: من احتج منهم بحجة هو ظالم فيها وليس لها مستند إلا اتباع الهوى والظلم؛ فهذا لا سبيل إلى إقناعه والاحتجاج عليه، وكذلك لا معنى لجعل الشبهة التي يوردونها على سبيل الاحتجاج محلا يؤبه لها ولا يلقى لها بال، فلهذا قال تعالى: {فلا تخشوهم}؛ لأن حجتهم باطلة، والباطل كاسمه مخذول، مخذول صاحبه، وهذا بخلاف صاحب الحقِّ فإن للحق صولة وعزًّا يوجب خشية من هو معه، وأمر تعالى بخشيته التي هي رأس كل خير، فمن لم يخشَ الله؛ لم ينكف عن معصيته، ولم يمتثل أمره. وكان صرف المسلمين إلى الكعبة مما حصلت فيها فتنة كبيرة أشاعها أهل الكتاب والمنافقون والمشركون وأكثروا فيها من الكلام والشبه، فلهذا بسطها الله تعالى، وبينها أكمل بيان، وأكدها بأنواع من التأكيدات التي تضمنتها هذه الآيات. منها: الأمر بها ثلاث مرات مع كفاية المرة الواحدة. ومنها: أن المعهود أن الأمر إما أن يكون للرسول فتدخل فيه الأمة [تبعاً] أو للأمة عموماً، وفي هذه الآية أمر فيها الرسول بالخصوص في قوله: {فول وجهك}؛ والأمة عموماً في قوله: {فولوا وجوهكم}. ومنها: أنه ردَّ فيه جميع الاحتجاجات الباطلة التي أوردها أهل العناد وأبطلها شبهة شبهة كما تقدم توضيحها. ومنها: أنه قطع الأطماع من اتباع الرسول قبلة أهل الكتاب. ومنها: قوله: {وإنه للحق من ربك}؛ فمجرد إخبار الصادق العظيم كافٍ شافٍ، ولكن مع هذا قال: {وإنه للحق من ربك}. ومنها: أنه أخبر وهو العالم بالخفيات أن أهل الكتاب متقرر عندهم صحة هذا الأمر، ولكنهم يكتمون هذه الشهادة مع العلم. ولما كان توليته لنا إلى استقبال القبلة نعمة عظيمة وكان لطفه بهذه الأمة ورحمته لم يزل يتزايد وكلما شرع لهم شريعة فهي نعمة عظيمة قال: {ولأتم نعمتي عليكم}؛ فأصل النعمة الهداية لدينه بإرسال رسوله وإنزال كتابه، ثم بعد ذلك النعم المتممات لهذا الأصل لا تعد كثرة ولا تحصر منذ بعث الله رسوله إلى أن قرب رحيله من الدنيا وقد أعطاه الله من الأحوال والنعم وأعطى أمته ما أتم به نعمته عليه وعليهم وأنزل الله عليه {اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً}؛ فلله الحمد على فضله الذي لا نبلغ له عدًّا فضلاً عن القيام بشكره، {ولعلكم تهتدون}؛ أي: تعلمون الحق وتعملون به، فالله تبارك وتعالى من رحمته بالعباد قد يسَّر لهم أسباب الهداية غاية التيسير ونبههم على سلوك طرقها وبينها لهم أتم تبيين حتى أن من جملة ذلك أنه يقيض للحق المعاندين له فيجادلون فيه فيتضح بذلك الحق وتظهر آياته وأعلامه، ويتضح بطلان الباطل وأنه لا حقيقة له، ولولا قيامه في مقابلة الحق لربما لم يتبين حاله لأكثر الخلق وبضدها تتبين الأشياء، فلولا الليل ما عرف فضل النهار، ولولا القبيح ما عرف فضل الحسن، ولولا الظلمة ما عرف منفعة النور، ولولا الباطل ما اتضح الحق اتضاحاً ظاهراً. فلله الحمد على ذلك.
AyatMeaning
[150] ﴿وَحَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ﴾ ’’اور تم جہاں بھی ہو، تو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لو۔‘‘ فرمایا: ﴿وَاِنَّهٗ لَلْ٘حَقُّ مِنْ رَّبِّكَ﴾ ’’اور یہ یقیناً آپ کے رب کی طرف سے حق ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے (اِنَّ) اور (لام) استعمال کر کے اس کو موکد کر دیا ہے تاکہ اس میں کسی کے لیے ادنیٰ سے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے اور کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ یہ محض خواہش ہے اس میں اطاعت مطلوب نہیں۔ ﴿وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّؔا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور اللہ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے‘‘ بلکہ وہ تمھیں تمھارے تمام احوال میں دیکھ رہا ہے، اس لیے اس کا ادب کرو اور اس سے ڈرتے ہوئے اس کے اوامر پر عمل کرو اور اس کی نواہی سے اجتناب کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں بلکہ تمھارے اعمال کی کامل جزا دی جائے گی۔ اگر اچھے اعمال ہیں تو اچھی جزا ہو گی اور اگر برے اعمال ہیں تو ان کی جزا بری ہو گی۔ ﴿لِئَلَّا یَكُ٘وْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْكُمْ حُجَّةٌ﴾ ’’اس لیے کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں۔‘‘ یعنی ہم نے تمھارے لیے کعبہ شریف کو اس لیے قبلہ قرار دیا ہے تاکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب کے لیے تم پر کوئی حجت نہ رہے۔ کیونکہ اگر بیت المقدس کو قبلہ کے طور پر باقی رکھا ہوتا تو یہ استقبال کعبہ کے خلاف حجت ہوتی، کیونکہ اہل کتاب اپنی کتاب میں پڑھتے ہیں کہ نبی آخر الزمانeکا مستقل قبلہ، کعبہ یعنی بیت الحرام ہو گا اور مشرکین مکہ سمجھتے تھے کہ یہ عظیم گھر ان کے مفاخر میں شمار ہوتا ہے اور یہ ملت ابراہیم کامرکز ہے اور جب رسول اللہeکعبہ شریف کو قبلہ نہیں بنائیں گے تو مشرکین کے پاس آپ کے خلاف حجت ہو گی۔ وہ کہیں گے کہ محمد(e) ملت ابراہیم پر ہونے کا کیسے دعویٰ کرتا ہے جبکہ اس نے ابراہیمuکی اولاد ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کو قبلہ نہیں بنایا۔ پس بیت اللہ کو قبلہ بنانے سے اہل کتاب اور مشرکین دونوں پر حجت قائم ہو گئی اور آپ پر وہ جو حجت قائم کر سکتے تھے، وہ منقطع ہو گئی۔ ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ﴾ ’’مگر ان میں سے جو ظالم ہیں۔‘‘ یعنی ان میں جو کوئی دلیل دیتا ہے وہ اس بارے میں ظلم کا ارتکاب کرتا ہے اس کے پاس کوئی سند اور کوئی دلیل نہیں سوائے ظلم اور خواہشات نفس کی پیروی کے، لہٰذا آپ کے خلاف حجت قائم کرنے کی کوئی راہ نہیں۔ اسی طرح اس شبہ کی پروا کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں جسے یہ لوگ حجت کے طور پر وارد کرتے ہیں۔ اس کی طرف دھیان ہی نہ دیا جائے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلَا تَخْشَوْهُمْ﴾ ’’تم ان سے مت ڈرو‘‘ کیونکہ ان کی حجت باطل ہے اور باطل اپنے نام کی مانند بے کار اور فاسد ہے۔ باطل اور باطل پرست مدد اور تائید سے محروم ہیں۔ صاحب حق کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حق کا رعب اور عزت ہے۔ حق جس کے ساتھ ہے وہ اس کی خشیت کا موجب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی خشیت کا حکم دیا ہے جو ہر بھلائی کی بنیاد ہے پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا وہ اس کی نافرمانی سے نہیں بچ سکتا اور نہ اس کی اطاعت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں نے بیت اللہ کو قبلہ بنایا تو اس سے انھیں بہت بڑے فتنے کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے خوب خوب اشاعت کی اور اس بارے میں انھوں نے اعتراضات اور شبہات کی بھرمار کر دی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت بسط و شرح اور کامل طریقے سے اس مسئلہ کوبیان کیا ہے اور مختلف قسم کی تاکیدات سے اس کو موکد کیا جو ان آیات کریمہ میں بیان ہوئی ہیں، مثلاً: (۱) استقبال کعبہ کا تین مرتبہ حکم دیا گیا ہے جبکہ صرف ایک ہی مرتبہ کافی تھا۔ (۲) اس میں خصوصی بات یہ ہے کہ حکم یا تو رسول اللہeکے لیے ہے اور امت اس میں داخل ہے یا یہ حکم امت کے لیے عام ہے۔ اس آیت کریمہ میں خصوصی طور پر صرف رسول اللہeکو استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا ﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ﴾ اور امت کو اس آیت میں استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا ﴿فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ﴾ (۳) اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ان تمام باطل دلائل کا رد کیا ہے جو کہ معاندین نے پیش کیے تھے اور ایک ایک شبہہ کا ابطال کیا۔ جیسا کہ اس کی توضیح گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔ (۴) اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت امیدوں کو ختم کر دیا کہ رسول اللہeاہل کتاب کے قبلے کی پیروی کریں گے۔ (۵) اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿وَاِنَّهٗ لَلْ٘حَقُّ مِنْ رَّبِّكَ﴾ ایک عظیم سچے شخص کا خبر دینا ہی کافی ہوتا ہے مگر بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاِنَّهٗ لَلْ٘حَقُّ مِنْ رَّبِّكَ﴾ ’’یہ یقیناً آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔‘‘ (۶) اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا، اور وہ عالم الغیب ہے، کہ اہل کتاب کے ہاں استقبال کعبہ کے معاملہ کی صحت متحقق ہے مگر یہ لوگ علم رکھنے کے باوجود اس گواہی کو چھپاتے ہیں۔ جب بیت اللہ شریف کی طرف تحویل قبلہ ایک عظیم نعمت ہے اور اس امت پر اللہ تعالیٰ کا بے پایاں لطف و کرم ہے جو بڑھتا ہی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے لیے کوئی کام مشروع کرتا ہے تو یہ ایک عظیم نعمت ہوتی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَلِاُتِمَّؔ نِعْمَتِیْ عَلَیْكُمْ﴾ یہ تحویل کا حکم اس لیے دیا گیا ہے ’’تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں۔‘‘ اصل نعمت تو دین کی ہدایت ہے جو وہ اپنا رسول بھیج کر اور اپنی کتاب نازل کر کے عطا کرتا ہے اس کے بعد دیگر تمام نعمتیں اس نعمت کی تکمیل کرتی ہیں۔ یہ نعمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا حصر و شمار ممکن نہیں۔ رسول اللہeکی بعثت سے لے کر اس دنیائے فانی سے آپ کی رحلت تک اللہ تعالیٰ ان نعمتوں سے نوازتا رہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو احوال اور نعمتیں عطا کیں اور اس نے آپ کی امت کو وہ کچھ دیا جس سے آپ پر اور آپ کی امت پر اتمام نعمت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ آپ پر نازل فرمائی ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَؔكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدہ : 5؍3) ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ ہی اپنے اس فضل و کرم پر حمد و ثنا کا مستحق ہے۔ اس فضل و کرم پر اس کا شکر ادا کرنا تو کجا ہم تو اس کو شمار تک نہیں کر سکتے۔ ﴿وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ﴾ ’’اور تاکہ تم راہ راست پر چلو۔‘‘ یعنی شاید کہ تم حق کو جانو اور پھر اس پر عمل کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے ہدایت کے اسباب بے حد آسان فرما دیے اور ہدایت کے راستوں پر چلنے کے بارے میں آگاہ فرما دیا اور ان کے لیے اس ہدایت کو پوری طرح واضح کر دیا۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل عناد کو حق کی مخالفت پر مقرر کر دیتا ہے، چنانچہ وہ حق کے بارے میں جھگڑتے ہیں، جس سے حق واضح، حق کی نشانیاں اور علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور باطل کا بطلان ثابت ہو جاتا ہے اور یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ باطل کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر باطل حق کے مقابلے میں کھڑا نہ ہو تو بسا اوقات اکثر مخلوق پر باطل کا حال واضح نہ ہو۔ اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ اگر رات نہ ہوتی تو دن کی فضیلت کا اعتراف نہ ہوتا۔ اگر قبیح اور بدصورت نہ ہو تو خوبصورت کی فضیلت معلوم نہیں ہو سکتی، اگر اندھیرا نہ ہو تو روشنی کے فوائد کو نہیں پہچانا جا سکتا، اگر باطل نہ ہو تو حق واضح طور پر ظاہر نہیں ہو سکتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[150
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List