Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 4
- SegmentHeader
- AyatText
- {8 ـ 9} واعلم أن النفاق هو إظهار الخير وإبطان الشر، ويدخل في هذا التعريف النفاق الاعتقادي والنفاق العملي؛ فالنفاق العملي؛ كالذي ذكر النبي - صلى الله عليه وسلم - في قوله: «آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان»؛ وفي رواية «وإذا خاصم فجر». وأما النفاق الاعتقادي المخرج عن دائرة الإسلام؛ فهو الذي وصف الله به المنافقين في هذه السورة وغيرها، ولم يكن النفاق موجوداً قبل هجرة النبي - صلى الله عليه وسلم - من مكة إلى المدينة ولا بعد الهجرة، حتى كانت وقعة بدر وأظهر الله المؤمنين وأعزهم؛ فذل من في المدينة ممن لم يسلم، فأظهر الإسلامَ بعضُهم خوفاً ومخادعة؛ ولتحقن دماؤهم وتسلم أموالهم، فكانوا بين أظهر المسلمين في الظاهر أنهم منهم، وفي الحقيقة ليسوا منهم. فمن لطف الله بالمؤمنين أن جَلا أحوالهم، ووصفهم بأوصاف يتميزون بها لئلا يغتر بهم المؤمنون، ولينقمعوا أيضاً عن كثير من فجورهم، قال تعالى: {يحذر المنافقون أن تنزل عليهم سورة تنبئهم بما في قلوبهم}؛ فوصفهم الله بأصل النفاق فقال: {وَمِنَ النَّاسِ مَن يقُولُ آمنَّا باللَّهِ وبِاليومِ الآخِرِ وَمَا هُم بمؤمنين}؛ فإنهم يقولون بألسنتهم ما ليس في قلوبهم فأكذبهم الله بقوله: {وما هُم بمؤمنين}؛ لأن الإيمان الحقيقي ما تواطأ عليه القلب واللسان، وإنما هذا مخادعة لله ولعباده المؤمنين، والمخادعة: أن يظهر المخادع لمن يخادعه شيئاً، ويبطن خلافه لكي يتمكن من مقصوده ممن يخادع، فهؤلاء المنافقون سلكوا مع الله وعباده هذا المسلك؛ فعاد خداعهم على أنفسهم، وهذا من العجائب ؛ لأن المخادع إما أن ينتج خداعه ويحصل له مقصوده أو يسلم لا له ولا عليه، وهؤلاء عاد خداعهم على أنفسهم ، فكأنهم يعملون ما يعملون من المكر لإهلاك أنفسهم وإضرارها وكيدها؛ لأن الله لا يتضرر بخداعهم شيئاً، وعباده المؤمنين لا يضرهم كيدهم شيئاً، فلا يضر المؤمنين أن أظهر المنافقون الإيمان؛ فسلمت بذلك أموالهم، وحقنت دماؤهم، وصار كيدهم في نحورهم، وحصل لهم بذلك الخزي والفضيحة في الدنيا، والحزن المستمر بسبب ما يحصل للمؤمنين من القوة والنصرة، ثم في الآخرة لهم العذاب الأليم الموجع المفجع بسبب كذبهم وكفرهم وفجورهم، والحال أنهم من جهلهم وحماقتهم لا يشعرون بذلك.
- AyatMeaning
- [9 - 8] معلوم ہونا چاہیے کہ نفاق بھلائی کا اظہار کرنے اور باطن میں برائی چھپانے کا نام ہے۔ اس تعریف میں نفاق اعتقادی اور نفاق عملی دونوں شامل ہیں۔ جیسے نبیeنے بھی اپنے اس فرمان میں اس کا ذکر فرمایا: ’آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذَا ائْتُمِنَ خَانَ‘’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘(صحیح البخاری، الإيمان، باب علامات المنافق، حديث:33) ایک اور روایت میں آتا ہے ’وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ‘’’جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔‘‘ (حوالہ سابق،حديث:34) رہا نفاق اعتقادی جو دائرۂ اسلام سے خارج کرنے والا ہے۔ تو یہ وہ نفاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس سورت میں اور بعض دیگر سورتوں میں متصف فرمایا۔ رسول اللہeکی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد تک نفاق کا وجود نہ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں اہل ایمان کو غلبے اور فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ پس مدینہ میں رہنے والے وہ لوگ جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ذلیل ٹھہرے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے دھوکے کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا تاکہ ان کا جان و مال محفوظ رہے۔ پس وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے درآنحالیکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان منافقین کے احوال و اوصاف ان کے سامنے واضح کر دیے جن کی بنا پر وہ پہچان لیے جاتے تھے تاکہ اہل ایمان ان سے دھوکہ نہ کھا سکیں، نیز منافقین اپنے بہت سے فسق و فجور سے باز آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿یَحْذَرُ الْمُنَافِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْھِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُھُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ﴾ (التوبہ9؍64) ’’منافق ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی سورت نہ نازل کر دی جائے جو ان کے دل کی باتوں سے مسلمانوں کو آگاہ کر دے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل نفاق کو بیان کیا اور فرمایا : ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں‘‘ کیونکہ یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی بات کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ﴾ کہہ کر انھیں جھوٹا قرار دیا، اس لیے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جس پر دل اور زبان متفق ہوں، ان منافقین کا یہ اظہارِ ایمان تو اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا ہے۔ (اَلْمُخَادَعَۃُ) ’’دھوکہ‘‘ یہ ہے کہ دھوکہ دینے والا شخص جس کو دھوکہ دیتا ہے اس کے سامنے زبان سے جو کچھ ظاہر کرتا ہے اس کے خلاف اپنے دل میں چھپاتا ہے تاکہ اس شخص سے اپنا مقصد حاصل کر سکے جسے وہ دھوکہ دے رہا ہے۔ پس منافقین نے اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے ساتھ اسی رویہ کو اختیار کیا تو یہ دھوکہ انھی کی طرف لوٹ آیا (یعنی اس کا سارا وبال انھی پر پڑا) اور یہ عجائبات میں سے ہے، کیونکہ دھوکہ دینے والے کا دھوکہ یا تو نتیجہ خیز ہوتا ہے اور اسے اپنا مقصد حاصل ہو جاتا ہے یا وہ محفوظ رہتا ہے اور اس کا نتیجہ نہ تو اس کے حق میں ہوتا ہے اور نہ اس کے خلاف۔ مگر ان منافقین کا دھوکہ خود ان کی طرف پلٹ گیا۔ گویا کہ وہ مکر اور چالبازیاں جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے کر رہے تھے وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے لیے کر رہے تھے، اس لیے کہ ان کے دھوکے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے نہ اہل ایمان کو۔ پس منافقین کے ایمان ظاہر کرنے سے اہل ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، اظہار ایمان سے انھوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیا اور ان کا مکر و فریب ان کے سینوں میں رہ گیا اس نفاق کی وجہ سے دنیا میں ان کو رسوائی ملی اور اہل ایمان کو قوت اور فتح و نصرت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ حزن و غم کی دائمی آگ میں سلگنے لگے۔ پھر آخرت میں ان کے جھوٹ اور ان کے کفر و فجور کے سبب سے ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا، جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے اس کے شعور سے بے بہرہ ہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [9 -
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF