Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
13
SuraName
تفسیر سورۂ رعد
SegmentID
688
SegmentHeader
AyatText
{2} يخبر تعالى عن انفراده بالخلق والتدبير والعظمة والسلطان الدالِّ على أنه وحده المعبود الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له، فقال: {الله الذي رفعَ السموتِ}: على عظمها واتِّساعها بقدرته العظيمة، {بغير عَمَدٍ تَرَوْنها}؛ أي: ليس لها عَمَدٌ من تحتها؛ فإنَّه لو كان لها عَمَدٌ؛ لرأيتُموها، {ثم}: بعدما خلق السماواتِ والأرض، {استوى على العرش}: العظيم، الذي هو أعلى المخلوقات، استواءً يَليق بجلاله ويناسب كماله. {وسخَّر الشمس والقمر}: لمصالح العباد ومصالح مواشيهم وثمارهم. {كلٌّ}: من الشمس والقمر، {يَجْري}: بتدبير العزيز العليم {إلى أجل مسمّى}: بسير منتظم لا يفتُران ولا يَنِيان حتى يجيء الأجل المسمَّى، وهو طيُّ الله هذا العالم ونقلهم إلى الدار الآخرة التي هي دار القرار؛ فعند ذلك يطوي الله السماواتِ ويبدِّلها ويُغَيِّر الأرض ويبدِّلها، فتكوَّر الشمس والقمر و [يُجمع] بينهما فيلقيانِ في النار؛ ليرى من عبدهما أنَّهما غير أهل للعبادة، فيتحسَّر بذلك أشدَّ الحسرة، وليعلم الذين كفروا أنَّهم كانوا كاذبين. وقوله: {يدبِّر الأمر يفصِّلُ الآياتِ}: هذا جمعٌ بين الخلق والأمر؛ أي: قد استوى الله العظيم على سرير الملك؛ يدبِّر الأمور في العالم العلويِّ والسفليِّ، فيخلق ويرزق، ويغني ويُفْقِر، ويرفع أقواماً ويضع آخرين، ويعزُّ ويذلُّ، ويَخْفِضُ ويرفعُ، ويَقيلُ العثراتِ، ويفرِّجُ الكربات، وينفذُ الأقدار في أوقاتها التي سبق بها علمهُ وجرى بها قلمه، ويرسل ملائكته الكرام لتدبير ما جعلهم على تدبيرِهِ، وينزِّل الكتب الإلهية على رسله، ويبين ما يحتاجُ إليه العباد من الشرائع والأوامر والنواهي، ويفصِّلها غايةَ التفصيل ببيانها وإيضاحها وتمييزها. {لعلَّكم}: بسبب ما أخرج لكم من الآيات الأفقيَّة والآيات القرآنيَّة، {بلقاء ربِّكم توقنون}: فإنَّ كثرة الأدلَّة وبيانها ووضوحها من أسباب حصول اليقين في جميع الأمور الإلهيَّة، خصوصاً في العقائد الكبار؛ كالبعث والنشور والإخراج من القبور. وأيضاً؛ فقد عُلم أنَّ الله تعالى حكيمٌ؛ لا يخلُق الخلق سدىً، ولا يتركهم عبثاً؛ فكما أنَّه أرسل رسله وأنزل كتبه لأمر العباد ونهيهم؛ فلا بدَّ أن ينقلَهم إلى دار يحلُّ فيهم جزاؤه؛ فيجازي المحسنين بأحسن الجزاء، ويجازي المسيئين بإساءتهم.
AyatMeaning
[2] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تخلیق و تدبیر اور عظمت و سلطان میں منفرد ہے اس کی یہ وحدانیت دلالت کرتی ہے کہ وہ اکیلا معبود ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرنی چاہیے، چنانچہ فرمایا: ﴿اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَ٘عَ السَّمٰوٰتِ ﴾ ’’اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا۔‘‘ آسمانوں کے بہت بڑے اور بہت وسیع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند کر رکھا ہے۔ ﴿ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ﴾ ’’ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو۔‘‘ یعنی آسمانوں کو سہارا دینے کے لیے ان کے نیچے کوئی ستون نہیں اور ان کو ستون نے سہارا دیا ہوتا تو وہ تمھیں ضرور دکھائی دیتے۔ ﴿ ثُمَّ ﴾ ’’پھر‘‘ یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد ﴿اسْتَوٰى عَلَى الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’وہ عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ وہ عرش عظیم جو اعلیٰ ترین مخلوق ہے۔ استواء کی کیفیت وہ ہے جو اس کے جلال کے لائق اور اس کے کمال کے مناسب ہے۔ ﴿ وَسَخَّرَ الشَّ٘مْسَ وَالْ٘قَ٘مَرَ﴾ ’’اور سورج اور چاند کو مسخر کردیا۔‘‘ بندوں کے مصالح نیز ان کے مویشیوں ، باغات اور کھیتیوں کے مصالح کی خاطر۔ ﴿ كُ٘لٌّ ﴾ ’’ہر ایک‘‘ یعنی چاند اور سورج ﴿ یَّجْرِیْ ﴾ ’’چل رہا ہے۔‘‘ یعنی غالب اور علم والی ہستی کے مقرر کردہ اندازے پر چل رہا ہے۔ ﴿لِاَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ ’’ایک وقت مقرر تک‘‘ دونوں ایک منظم رفتار سے چل رہے ہیں جس میں کوئی فرق آتا ہے نہ ان کی رفتار میں کوئی سستی آتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت مقرر آ جائے گا اور اللہ اس جہان آب و گل کی بساط لپیٹ دے گا اور بندوں کو دارآخرت میں منتقل کر دے گا۔ جو ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔ تب اس وقت اللہ تعالیٰ ان آسمانوں کو لپیٹ دے گا اور ان کو اور ہی آسمانوں سے بدل دے گا اور اسی طرح اس زمین کو دوسری زمین سے بدل دے گا۔ سورج اور چاند بے نور کر دیے جائیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ تاکہ ان کی عبادت کرنے والے دیکھ لیں کہ وہ عبادت کے مستحق نہ تھے تاکہ وہ سخت حسرت زدہ ہوں اور کفار کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ ﴿ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’تدبیر کرتا ہے کام کی، وہ کھول کر بیان کرتا ہے آیتوں کو‘‘ یہاں خلق و امر کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے یعنی اللہ عظمت والا تخت اقتدار پر مستوی ہے اور وہ عالم علوی اور عالم سفلی کی تدبیر کر رہا ہے، پس وہی پیدا کرتا ہے اور رزق عطا کرتا ہے، وہی غنی کرتا اور محتاج کرتا ہے، وہ کچھ قوموں کو سربلند کرتا ہے اور کچھ قوموں کو قعر مذلت میں گرا دیتا ہے، وہی عزت عطا کرتا ہے وہی ذلت سے ہمکنار کرتا ہے، وہی گراتا ہے اور وہی رفعتیں عطا کرتا ہے، وہی لغزشوں پر عذر قبول کرتا ہے، وہی مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور کرتا ہے، وہی تقدیر کو اس کے وقت مقرر پر نافذ کرتا ہے، جو اس کے احاطۂ علم میں ہے اور جس پر اس کا علم جاری ہو چکا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان فرشتوں کو تدبیر کائنات کے لیے بھیجتا ہے جن کو اس تدبیر کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ وہ کتب الٰہی کو اپنے رسولوں پر نازل فرماتا ہے، احکام شریعت اور اوامر و نواہی کو جن کے بندے سخت محتاج ہیں ، کھول کھول کر بیان کرتا ہے توضیح، تبیین اور تمییز کے ذریعے سے ان کی تفصیل بیان کرتا ہے ﴿ لَعَلَّكُمْ ﴾ ’’شاید کہ تم‘‘ یعنی اس سبب سے کہ اس نے تمھیں آفاق میں اپنی نشانیاں دکھائیں اور تم پر آیات قرآنیہ نازل فرمائیں ﴿ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَؔ ﴾ ’’اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو‘‘ کیونکہ دلائل کی کثرت اور ان کی توضیح و تبیین تمام امور الٰہیہ میں ، خاص طور پر بڑے بڑے عقائد ، مثلاً: زندگی بعد موت اور قبروں سے نکلنے میں یقین کے حصول کا سبب بنتی ہے۔ نیز ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ﴿حَکِیْمٌ﴾ ’’حکمت والا‘‘ ہے وہ مخلوق کو بے فائدہ پیدا نہیں کرتا نہ وہ ان کو عبث چھوڑے گا۔ پس جیسے اس نے انبیاء و مرسلین مبعوث کیے اور بندوں کے لیے اوامر و نواہی کی خاطر کتابیں نازل فرمائیں ۔ تب یہ ضروری ٹھہرا کہ وہ بندوں کو ایک ایسے جہاں میں منتقل کرے جہاں انھیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے۔ نیکوکاروں کو بہترین بدلہ اور بدکاروں کو ان کی بدی کا بدلہ۔
Vocabulary
AyatSummary
[2]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List