Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
12
SuraName
تفسیر سورۂ یوسف
SegmentID
686
SegmentHeader
AyatText
AyatMeaning
ضمیمہ : اس عظیم قصہ میں بعض فوائد اور عبرتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن پر یہ مشتمل ہے۔ اس قصہ کی ابتدا میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ نَحْنُ نَقُ٘صُّ عَلَیْكَ اَحْسَنَ الْ٘قَ٘صَصِ ﴾ ’’ہم آپ پر بہترین قصہ بیان کرتے ہیں ۔‘‘ اور فرمایا ہے: ﴿ لَقَدْ كَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآىِٕلِیْ٘نَ ﴾ ’’یوسف اوراس کے بھائیوں (کے واقعے) میں ، پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔‘‘ اور سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ ﴾ ’’ان کے واقعات میں عبرتیں ہیں ۔‘‘ یہ فوائد ان فوائد کے علاوہ ہیں جو (سورت کی تفسیر کے دوران) گزشتہ صفحات میں گزر چکے ہیں ۔ (۱) یہ قصہ سب سے اچھا، سب سے واضح اور سب سے صریح قصہ ہے کیونکہ یہ مختلف انواع کے انتقالات پر مشتمل ہے، مثلاً:ایک حال سے دوسرے حال میں ، ایک امتحان سے دوسرے امتحان میں ، امتحان سے اللہ تعالیٰ کی نوازشات میں ، ذلت سے عزت میں ، غلامی سے بادشاہی میں ، تفرقہ و تشتت سے اجتماع و اتحاد میں ، حزن و غم سے مسرت و سرور میں ، فراخی سے قحط میں ، قحط سے شادابی میں ، تنگی سے وسعت میں اور انکار سے اقرار میں انتقال۔ پس نہایت بابرکت ہے اللہ تعالیٰ کی ذات جس نے یہ قصہ نہایت خوبصورت اور واضح اسلوب میں بیان کیا۔ (۲) اس سورۂ مبارکہ میں خواب کی تعبیر کی اصل بیان کی گئی ہے کیونکہ علم تعبیر اہم علوم میں شمار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے یہ عطا کرتا ہے۔ غالب طور پر علم تعبیر، نام اور صفات میں مناسبت اور مشابہت پر مبنی ہے کیونکہ حضرت یوسفu نے اپنے خواب میں دیکھا تھا کہ سورج، چاند اور ستارے ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ اس خواب میں مناسبت کا پہلو یہ ہے کہ روشنی کے تینوں ذرائع آسمان کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہیں اور انھی پر اس کے فوائد کا دارومدار ہے۔ اسی طرح انبیاء اور علماء زمین کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہیں ۔ جیسے اندھیروں میں ستاروں سے راہ نمائی لی جاتی ہے، اسی طرح گمراہی کی تاریکیوں میں انبیاء اور علماء راہ دکھاتے ہیں ۔ نیز حضرت یوسفu کے ماں اور باپ اصل ہیں اور ان کے بھائی فرع ہیں ۔ پس مناسبت کا تقاضا یہ ہے کہ اصل، روشنی میں بھی اپنی فرع سے سب سے زیادہ بڑا ہو اور حجم کے اعتبار سے بھی عظیم تر۔ اس لیے سورج سے یوسف کی ماں ، چاند سے ان کے باپ اور ستاروں سے ان کے بھائی مراد ہیں اور ان میں مناسبت کا پہلو یہ ہے کہ الشمس ایک مونث لفظ ہے لہذا اس کی مناسبت ماں سے ہے۔ القمر اور الکواکب مذکر ہیں اس لیے ان کی مناسبت باپ اور بھائیوں سے ہے۔ نیز اس خواب میں مناسبت کا پہلو یہ بھی ہے کہ سجدہ کرنے والا مسجود لہ، کے لیے معظم و محترم اور مسجود بھی معظم و محترم ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت یوسفu اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے نزدیک نہایت معظم اور محترم ہوں گے اور اس کا لازم یہ ہے کہ وہ علم اور دیگر فضائل کے اعتبار سے صاحب فضیلت اور چنے ہوئے شخص ہوں گے اس لیے ان کے والد نے کہا تھا: ﴿ وَؔكَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَیُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ﴾ (یوسف:12؍6) ’’اور اسی طرح تیرا رب تجھے چن لے گا اور تجھے باتوں کی تعبیر کا علم سکھا دے گا۔‘‘ اور دونوں نوجوان قیدیوں کے خواب میں مناسبت یہ ہے کہ پہلے نوجوان نے خواب دیکھا کہ وہ شراب کشید کر رہا ہے اور وہ شخص جو شراب کشید کرتا ہو وہ عادۃً دوسروں کا خادم ہوتا ہے، شراب دوسروں کے لیے کشید کی جاتی ہے اس لیے یوسفu نے اس کی یہ تعبیر کی کہ وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا اور یہ چیز قید سے اس کی رہائی کو متضمن ہے۔ یوسفu نے دوسرے نوجوان کے خواب کی تعبیر، جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس نے اپنے سر پر روٹیاں اٹھا رکھی ہیں جنھیں پرندے کھا رہے ہیں … یہ کی کہ اس کے سر کی کھال، گوشت اور مغز وغیرہ جنھیں وہ اٹھائے ہوئے ہے، کھول کر ایسی جگہ پھینک دیا جائے گا جہاں گوشت خور پرندے اس کے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ یوسفu نے اس کے احوال کو دیکھ کر اس کے خواب کی یہ تعبیر کی کہ اس کو قتل کر دیا جائے گا اور قتل کرنے کے بعد اسے صلیب پر لٹکایا جائے گا۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب قتل کے بعد اسے صلیب پر چڑھایا گیا ہو۔ یوسفu نے بادشاہ کے خواب، جس میں اس نے گائیں اور اناج کی بالیاں دیکھی تھیں … کی تعبیر شادابی اور قحط سالی سے کی۔ اس میں وجہ مناسبت یہ ہے کہ رعایا کے احوال اور اس کے مصالح کا دارومدار بادشاہ پر ہوتا ہے اگر بادشاہ ٹھیک ہے تو رعایا بھی درست رہے گی اگر بادشاہ خراب ہے تو رعایا میں خرابیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اسی طرح سال بہ سال حالات کے ساتھ رعایا کے احوال مربوط ہیں ، رعایا کی درستی، ان کا معاشی استحکام اور عدم استحکام کا دارومدار سال بہ سال (موسمی) حالات پر ہے۔ رہی گائیں تو ان کے ذریعے سے زمین میں ہل چلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے آبپاشی کی جاتی ہے، اگر شادابی کا سال ہو تو گائیں موٹی تازی ہو جاتی ہیں اور اگر قحط سالی ہو تو گائیں دبلی اور لاغر ہو جاتی ہیں ۔ اسی طرح شادابی کے سالوں میں اناج کے خوشے سرسبز اور بکثرت ہوتے ہیں ۔ جبکہ خشک سالی میں یہ خوشے بہت کم پیدا ہوتے ہیں اور سوکھ جاتے ہیں اور زمین کا بہترین اناج خوشوں ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ (۳) یہ قصہ نبوت محمدی (صلوات اللہ وسلامہ علی صاحبھا) کی صحت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ رسول اکرمe نے اپنی قوم کے سامنے یہ طویل قصہ بیان کیا درآں حالیکہ آپ نے گزشتہ انبیاء کی کتابیں پڑھی تھیں نہ کسی سے درس لیا تھا۔ آپ کی قوم نے آپ کا خوب اچھی طرح مشاہدہ کیا ہے۔ آپ کے شب و روز آپ کی قوم کے سامنے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ امی ہیں آپ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں ۔ یہ قصہ کتب سابقہ میں مذکور قصہ سے مطابقت رکھتا ہے حالانکہ آپ وہاں موجود نہ تھے۔ جب یوسفu کے بھائی ان کے خلاف منصوبے بنا رہے تھے اور سازش کر رہے تھے۔ (۴) شر کے اسباب سے دور رہنا مناسب ہے۔ اسی طرح ایسے امور کو چھپانا مناسب ہے جن سے ضرر پہنچنے کا خدشہ ہو جیسا کہ یعقوبu نے یوسفu سے فرمایا تھا: ﴿ لَا تَقْ٘صُصْ رُءْیَ٘اكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدًا ﴾ ’’اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تجھے آزار پہنچانے کے لیے سازشیں کریں گے۔‘‘ (۵) کسی کے سامنے خیر خواہی کے طور پر ناپسندیدہ امور کا ذکر کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے ﴿ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدًا ﴾ ’’وہ تجھے آزار پہنچانے کے لیے سازشیں کریں گے۔‘‘ (۶) یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمت اس کے تمام متعلقین، مثلاً:اس کے گھر والوں ، عزیز و اقارب اور دوست احباب سب کے لیے نعمت ہوتی ہے اور بسا اوقات وہ اس نعمت میں سب کو شامل کر لیتا ہے اور ان کو بھی اس کے باعث وہ چیز حاصل ہو جاتی ہے جو اسے حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ یعقوبu نے یوسفu کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَؔكَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَیُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَعَلٰۤى اٰلِ یَعْقُوْبَ ﴾ ’’اسی طرح تیرا رب تجھے چن لے گا اور باتوں کی تعبیر کا علم دے گا اور تجھ پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت کا اتمام کرے گا۔‘‘ جب یوسفu پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوا تو آل یعقوب کو بھی عزت و وقار اور ملک میں اقتدار حاصل ہوا اور یوسفu کے سبب سے انھیں بھی مسرت اور خوشی حاصل ہوئی۔ (۷) سورۂ مقدسہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عدل و انصاف تمام امور میں مطلوب و مقصود ہے، بادشاہ کا اپنی رعیت وغیرہ کے ساتھ ہی انصاف کا معاملہ کرنا ضروری نہیں بلکہ محبت اور ترجیح دینے کے معاملے میں والد اور اولاد کے مابین بھی عدل و انصاف مطلوب ہے اگر والد کے انصاف میں خلل واقع ہو جائے تو اس کے تمام معاملے میں خلل واقع ہو جاتا ہے اور حالات خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ جب محبت کے معاملے میں یعقوبu نے یوسف کو ان کے بھائیوں پر ترجیح دی تو بھائیوں کی طرف سے خود ان پر، ان کے باپ پر اور ان کے بھائی پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے۔ (۸) گناہوں کی نحوست سے بچنا چاہیے کیونکہ ایک گناہ اپنے ساتھ متعدد گناہ لاتا ہے اور بہت سے جرائم کے بعد اس گناہ کی تکمیل ہوتی ہے، چنانچہ جب یوسفu کے بھائیوں نے یوسفu اور ان کے باپ کے مابین جدائی ڈالنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے بہت سے حیلے استعمال کیے، متعدد بار جھوٹ بولا، انھوں نے یوسفu کی قمیص اور خون کے سلسلے میں باپ کے سامنے باطل افسانہ گھڑا۔ ان کے اس افسانے اور عشاء کے وقت روتے ہوئے آنے میں نرا جھوٹ تھا اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ اس مدت کے دوران اس بارے میں بہت بحث و تمحیص ہوئی ہو بلکہ شاید یہ بحث اس وقت تک ہوتی رہی ہو جب تک کہ وہ یوسفu کے ساتھ اکٹھے نہ ہوئے اور جب کبھی بحث ہوتی ہے تو جھوٹی خبریں اور افترا پردازی ضرور ہوتی ہے۔ یہ گناہ کی نحوست اور اس کے آثار ہیں ۔ (۹) بندے کے احوال میں ابتدائی نقص میں عبرت نہیں ہوتی بلکہ کمال انتہا میں عبرت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یعقوبu کے بیٹوں سے ابتدائی طور پر جو کچھ صادر ہوا وہ نقص کا سب سے بڑا سبب اور ملامت کا موجب تھا مگر اس کی انتہا، خالص توبہ اور یوسفu اور ان کے باپ کی طرف سے کامل معافی، مغفرت اور رحمت کی دعا پر ہوئی اور جب بندہ اپنے حق کو معاف کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اس لیے صحیح ترین قول یہ ہے کہ یوسفu کے بھائی نبی تھے اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰؔقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ ﴾ (النساء: 4؍163) ’’اور ہم نے وحی بھیجی ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب کی طرف۔‘‘ یہاں ﴿الْاَسْبَاطِ﴾ سے مراد یعقوبu کے بارہ بیٹے اور ان کی اولاد ہے۔ نیز ان کی نبوت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یوسفu نے اپنے خواب میں ان کو روشن ستاروں کے طور پر دیکھا اور ستاروں میں روشنی اور راہ نمائی ہوتی ہے( برادران یوسف کی نبوت کی یہ ’’دلیلیں ‘‘ جن سے فاضل مفسر نے استدلال کیا ہے، کوئی واضح اور مضبوط دلیل نہیں ۔ ان کے مقابلے میں عدم نبوت کی دلیل زیادہ واضح ہے، انھوں نے ایک ایسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا جس میں چھوٹے معصوم بچے کے ساتھ سنگ دلانہ اقدام اور ظلم و ستم ہے، قطع رحمی ہے، والدین کی نافرمانی اور ان کی ایذا رسانی ہے، جھوٹ کا ارتکاب ہے، وغیرہ وغیرہ۔ انبیاءo سے ان حرکتوں کا صدور ممکن ہے؟ (مزید دیکھیے تفسیر فتح القدیر و ابن کثیر، تفسیر السورۂ یوسف آیت= 10،9) علاوہ ازیں ’’اوحینا‘‘ کے لفظ سے بھی نبوت پر استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا، اس لیے کہ یہ لفظ غیر انبیاء کے لیے بھی قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے، ص۔ي) اور یہ انبیاء کے اوصاف ہیں اور اگر وہ نبی نہیں تھے تو وہ راہ نمائی کرنے والے علماء تھے۔ (۱۰) اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوسفu کو علم، حلم، مکارم اخلاق اور اللہ اور اس کے دین کی طرف دعوت سے نوازا۔ نیز یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی نوازش اور عنایت ہی تھی کہ انھوں نے اپنے خطا کار بھائیوں کو فوراً معاف کر دیا اور اس معافی کی تکمیل یہ کہہ کر کر دی کہ اب وہ ان کا کوئی مواخذہ کریں گے نہ اس پر انھیں کوئی عار دلائیں گے، پھر حضرت یوسفu کا اپنے ماں باپ کے ساتھ عظیم نیکی کرنا اور اپنے بھائیوں بلکہ تمام مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ (۱۱) کچھ برائیاں دوسری برائیوں سے خفیف تر اور چھوٹی ہوتی ہیں ۔ (اگر دو برائیوں میں سے ایک برائی کا ارتکاب ناگزیر ہو تو) اس برائی کا ارتکاب کرنا جس کا ضرر کم تر ہو، اس برائی کے ارتکاب سے اولیٰ و افضل ہے جس کا ضرر بڑا ہے۔ یوسفu کے بھائیوں میں جب حضرت یوسفu کے قتل یا ان کو کہیں دور زمین میں پھینکنے پر اتفاق ہوگیا تو ان میں سے ایک نے کہا: ﴿ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِیْ غَیٰؔبَتِ الْجُبِّ ﴾ ’’یوسف کو قتل نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں میں پھینک دو۔‘‘ گویا اس کی تجویز سب سے بہتر اور نرم تجویز تھی۔ جس کے سبب سے ان کے بھائیوں سے ایک بہت بڑا گناہ ٹل گیا اور یہ بڑا گناہ ایک خفیف تر گناہ میں منتقل ہوگیا۔ (۱۲) جب کوئی چیز کاروبار میں دست بدست متداول ہو جائے اور وہ مال شمار ہونے لگے اور کاروبار کرنے والے کو اس کے غیر شرعی ہونے کا علم نہ ہو تو اس کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے، اس میں خدمت کرنے والے، اس سے مفاد اٹھانے والے اور اس کو استعمال میں لانے والے کے لیے کوئی گناہ نہیں ۔ حضرت یوسف کے بھائیوں نے انھیں بیع حرام کی صورت میں فروخت کیا تھا، یہ بیع قطعاً جائز نہ تھی، پھر حضرت یوسف کو خریدنے والا قافلہ انھیں لے کر مصر چلا گیا اور وہاں لے جا کر فروخت کر دیا اور وہ اپنے آقا کے پاس غلام کے طور پر رہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو ’’آقا‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے اور حضرت یوسفu اس کے پاس ایک مکرم غلام کے طور پر رہتے رہے۔ (۱۳) ان عورتوں کے ساتھ خلوت سے بچنا چاہیے جن سے فتنے کا خوف ہو۔ اسی طرح ایسی محبت سے بھی بچنا چاہیے جس سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ عزیز مصر کی بیوی کی طرف سے جو کچھ ہوا وہ حضرت یوسفu کے ساتھ خلوت اور ان کے ساتھ اس کی شدید محبت کے سبب سے ہوا، محبت نے اس عورت کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ اس نے حضرت یوسف کو پھسلانے کے لیے ڈورے نہیں ڈالے، پھر ان پر بہتان لگایا اور یوسفu اس عورت کے بہتان کے سبب سے طویل مدت تک قید میں رہے۔ (۱۴) یوسفu نے اس عورت کے ساتھ ارادہ کیا پھر اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کر دیا۔ اس ترک ارادہ نے حضرت یوسف، کو اللہ تعالیٰ کے اور قریب کر دیا۔ کیونکہ اس قسم کا ارادہ نفس امارہ کے اسباب میں شمار ہوتا ہے جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے اور اکثر لوگوں کی یہی فطرت ہے۔پس جب انھوں نے اس ارادے کا اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت کے ساتھ تقابل کیا تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت نفس امارہ کے داعیے اور اس کی خواہش پر غالب آگئی۔ گویا آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَ٘هَى النَّ٘فْ٘سَ عَنِ الْهَوٰى﴾ (النازعات: 79؍39) ’’جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکتا رہا۔‘‘ اور آپ رسول اللہe کے ارشاد کے مطابق ان سات قسم کے لوگوں میں سے ہیں جنھیں قیامت کے روز عرش کے سائے میں جگہ ملے گی، جس روز اس کے سائے کے سوا کہیں سایہ نہ ہوگا اور ان سات قسم کے لوگوں میں ایک وہ شخص ہوگا جسے حسن و جمال رکھنے والی اور منصب و حیثیت کی حامل کوئی عورت بدکاری کی دعوت دیتی ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے ’’میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس…الخ، حدیث: 660) اور وہ ارادہ جس پر بندہ قابل ملامت ہے، وہ ارادہ ہے جو دل میں جاگزیں ہو کر عزم بن جائے جس کے ساتھ بسا اوقات فعل مل جاتا ہے۔ (۱۵) جس کے دل میں ایمان جاگزیں ہو جاتا ہے اور وہ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان، صدق اور اخلاص کی برہان کے ذریعے سے مختلف اقسام کی برائیوں ، بے حیائی اور گناہوں کے اسباب سے مدافعت کرتا ہے۔ یہ مدافعت اس کے ایمان اور اخلاص کی جزا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ١ؕ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ١ؕ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ (لنصرف) کے یہ معنی لام کے کسرے کے ساتھ ہیں اور اگر اسے لام کے فتح کے ساتھ پڑھا جائے (جیسا کہ متداول قراء ت میں ہے) تو اس کے معنی ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا اسے اپنے لیے چن لینا اور یہ خود اس کے اخلاص کو متضمن ہے، یعنی جب بندہ اپنے عمل کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی اور بے حیائی سے پاک کر کے اسے اپنے لیے چن لیتا ہے۔ (۱۶) بندۂ مومن کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب وہ کوئی ایسا مقام دیکھے جہاں فتنہ اور معصیت کے اسباب موجود ہوں تو مقدور بھر وہاں سے نکلنے اور بھاگنے کی کوشش کرے تاکہ وہ گناہ سے بچ سکے کیونکہ جب یوسفu پر اس عورت نے جس کے گھر میں وہ رہ رہے تھے، ڈورے ڈالنے شروع کیے تو وہ اس جگہ سے فرار ہو کر دروازے کی طرف بھاگے تاکہ وہ اس عورت کے شر سے بچ جائیں ۔ (۱۷) اشتباہ کے موقع پر قرائن سے کام لیا جاسکتا ہے، چنانچہ اگر خاوند اور بیوی گھر کے ساز و سامان کی ملکیت کے بارے میں جھگڑ پڑیں اور دونوں کے پاس اپنی ملکیت کا واضح ثبوت نہ ہو تو جو چیز مرد کے حال کے مطابق ہے وہ مرد کی ملکیت ہے اور جو عورت کے حال کے مطابق ہے وہ اس کی مالک ہے۔ اسی طرح اگر بڑھئی اور لوہار کسی اوزار کی ملکیت پر جھگڑ پڑیں اور دونوں میں سے کسی کے پاس بھی کوئی ثبوت نہ ہو تو قرائن پر عمل کیا جائے گا۔ ملتی جلتی چیزوں اور نشان قدم میں قیافہ پر عمل کرنا بھی اسی باب میں شامل ہے۔ یوسفu کے گواہ نے قرینے کی گواہی دی تھی۔ اس نے قمیض کی پھٹن کو دیکھ کر قرینے کی گواہی دی اور قمیض کو پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھ کر حضرت یوسف کی صداقت اور اس عورت کے جھوٹے ہونے پر استدلال کیا۔ اس قاعدہ کی صحت پر ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت یوسفu کے بھائی کی خرجی میں سے گیہوں ناپنے والے پیالے کے پائے جانے سے استدلال کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور اقرار کے اس پر چوری کا حکم لگایا گیا۔ پس اگر مال مسروقہ چور کے قبضے میں پایا جائے، خاص طور پر جبکہ وہ چوری کرنے میں معروف ہو تو اس پر چوری کا حکم لگایا جائے گا اور یہ (عینی) شہادت سے زیادہ بلیغ شہادت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص شراب کی قے کرتا ہے یا کوئی ایسی عورت، جس کا شوہر یا آقا نہیں ، حاملہ پائی جاتی ہے تو اس پر حد جاری کی جائے گی بشرطیکہ کوئی مانع موجود نہ ہو۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے قرینے کے اس فیصلے کو شاہد سے موسوم کیا ہے۔ ﴿وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا ﴾ (۱۸) حضرت یوسفu ظاہری اور باطنی حسن و جمال کے حامل تھے ان کا ظاہری حسن و جمال اس عورت کے لیے، جس کے گھر میں حضرت یوسفu تھے، اس امر کا موجب بنا جس کی تفصیل گزری اور اسی طرح ان کا حسن و جمال ان عورتوں کے لیے بھی، جن کو عزیز مصر کی بیوی نے ان کے ملامت کرنے پر اکٹھا کیا تھا، اس امر کا موجب بنا کہ انھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور وہ بے ساختہ پکار اٹھیں : ﴿ مَا هٰؔذَا بَشَرًا١ؕ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ ﴾ ’’یہ شخص انسان نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔‘‘ رہا ان کا باطنی حسن و جمال تو وہ ان کی عظیم عفت تھی۔ گناہ میں پڑنے کے بہت سے اسباب کے باوجود گناہ سے بچے رہے۔ اس کے بعد خود عزیز مصر کی بیوی اور ان عورتوں نے آپ کی عفت اور پاک دامنی کی شہادت دی۔ اس لیے عزیز مصر کی بیوی نے کہا : ﴿ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ ﴾ ’’میں نے اسے پھسلانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر وہ بچ نکلا‘‘ اس کے بعد اس نے کہا: ﴿ الْ٘ـٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ١ٞ اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَ٘مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اب حق واضح ہو گیا ہے، میں نے ہی اسے پھسلانے کی کوشش کی تھی اور بے شک وہ سچا ہے‘‘ عورتوں نے کہا: ﴿ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْٓءٍ ﴾ ’’حاشاللہ! ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔‘‘ (۱۹) یوسفu نے معصیت کے مقابلے میں قید کو ترجیح دی۔ بندۂ مومن کے یہی شایان شان ہے کہ اگر وہ دو امور کے بارے میں کسی آزمائش میں مبتلا ہو جائے۔ ایک طرف کسی معصیت کا ارتکاب ہو اور دوسری طرف دنیاوی عقوبت تو وہ گناہ کی بجائے جو دنیا و آخرت میں سخت عقوبت کا موجب ہے، دنیاوی عقوبت کو ترجیح دے۔ ایمان کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بندہ کفر کی طرف لوٹنے کو، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر سے بچا لیا ہے… اسی طرح ناپسند کرے، جس طرح وہ آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ (۲۰) بندۂ مومن کے لیے مناسب یہی ہے کہ اسباب گناہ کے موجود ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ کر اسی کی پناہ میں رہے اور اپنی قوت و اختیار سے دست بردار ہو جائے جیسا کہ یوسفu نے فرمایا تھا : ﴿ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْؔ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَ٘یْهِنَّ وَاَكُ٘نْ مِّنَ الْجٰؔهِلِیْ٘نَ ﴾ ’’اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دور نہ ہٹایا تو میں ان کی چالوں میں آ کر جاہلوں میں شامل ہو جاؤں گا۔‘‘ (۲۱) جس طرح فراخی میں بندے پر اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا التزام واجب ہے اسی طرح تنگی میں بھی اس پر یہ التزام واجب ہے۔ حضرت یوسفu ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے رہے جب وہ قید میں ڈال دیے گئے تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت پر قائم رہے اور ان دو نوجوان قیدیوں کو (جو ان کے ساتھ قید میں ڈالے گئے تھے) توحید کی دعوت دی اور ان کو شرک سے روکا۔ یہ سیدنا یوسفu کی ذہانت تھی کہ جب انھوں نے دیکھا کہ ان نوجوان قیدیوں میں ان کی دعوت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے… کیونکہ وہ دونوں حضرت یوسفu کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے چنانچہ ان کا قول تھا ﴿ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ اور وہ حضرت یوسفu کے پاس اپنے اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے آئے اور حضرت یوسفu نے بھی دیکھا کہ وہ ان کے پاس اپنے خواب کی تعبیر جاننے کا اشتیاق رکھتے ہیں تو حضرت یوسفu نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کو ان کے خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے توحید کی دعوت دی تاکہ وہ اپنا مطلوب و مقصود حاصل کرنے میں کامیاب ہوں ۔ سب سے پہلے آپ نے ان کے سامنے واضح کیا کہ جس نے آپ کو علم و کمال کے اس مقام پر پہنچایا، جسے وہ دیکھ رہے ہیں ، وہ ہے ایمان توحید اور ان لوگوں کی ملت کو چھوڑ دینا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ زبان حال سے ان کو توحید کی دعوت دینا ہے، پھر آنجناب نے ان کو زبان قال سے توحید کی دعوت دی۔ آپ نے ان کے سامنے شرک کی خرابی بیان کی اور اس کی دلیل اور برہان پیش کی اور دلیل و برہان ہی کے ساتھ ان کے سامنے حقیقت توحید کو بیان کیا۔ (۲۲) معاملات میں ، اہم ترین معاملے سے ابتدا کرنی چاہیے۔ جب مفتی سے کوئی سوال کیا جائے اور سائل اس سوال سے زیادہ کسی اور چیز کا ضرورت مند ہو تو مفتی کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ سب سے پہلے اسے اس چیز کی تعلیم دے جس کا وہ زیادہ حاجت مند ہے۔ یہ معلم کی خیرخواہی، اس کی فطانت اور اس کے حسن تعلیم و ارشاد کی علامت ہے۔ جب نوجوان قیدیوں نے حضرت یوسفu سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو آپ نے ان کو خواب کی تعبیر بتانے سے قبل اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی۔ (۲۳) اگر کوئی شخص کسی ناخوشگوار صورت حال اور کسی سختی میں گرفتار ہو جائے تو کسی ایسے شخص سے مدد لینا جو اس صورت حال سے نجات میں مددگار ثابت ہو سکتا ہو یا اسے اپنے حال سے آگاہ کرے تو یہ مخلوق کے پاس شکوے کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اس کا تعلق امور عادیہ سے ہے۔ جو عرف عام میں لوگوں کی ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے سے سر انجام پاتے ہیں ۔ بنابریں یوسفu نے ان نوجوان قیدیوں میں سے جس کے رہا ہونے کی امید تھی، اس سے کہا: ﴿ اذْكُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّكَ ﴾ ’’اپنے آقا کے پاس میرا ذکر کرنا‘‘ (۲۴) معلم کے لیے تاکید ہے کہ وہ تعلیم دینے میں کامل اخلاص سے کام لے اور اپنی تعلیم کو کسی سے معاوضہ میں مال و جاہ یا کوئی منفعت حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنائے۔ تعلیم دینے میں خیرخواہی سے کام لے جب تک سائل کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے معلم کو تکلیف پہنچے، تعلیم دینے سے یا اس کی خیرخواہی کرنے سے انکار نہ کرے۔ یوسفu نے ان دو نوجوان قیدیوں میں سے جس کو تاکید کی تھی کہ وہ اپنے آقا کے پاس ان کا ذکر کرے مگر اسے اپنے آقا کے سامنے حضرت یوسفu کا ذکر کرنا یاد نہ رہا۔ جب انھیں حضرت یوسفu کے پاس سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے اسی نوجوان کو بھیجا وہ اس خواب کی تعبیر کے بارے میں پوچھنے کے لیے حضرت یوسفu کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت یوسفu نے محض اس بنا پر کہ اس نے ان کا ذکر اپنے آقا کے پاس نہیں کیا، اس پر ناراضی کا اظہار کیا نہ اس پر زجروتوبیخ کی بلکہ اس کے برعکس انھوں نے اسے ہر لحاظ سے اس کے سوال کا مکمل جواب دیا۔ (۲۵) مسؤل کو چاہیے کہ وہ سوال کا جواب دیتے وقت سائل کی ایسے معاملے کی طرف راہنمائی کرے جو اس کے سوال سے متعلق اور اس کے لیے فائدہ مند ہو۔ اسے وہ راستہ دکھائے جس پر گامزن ہو کر وہ دین و دنیا میں فائدہ اٹھائے۔ یہ اس کی طرف سے کامل خیرخواہی، اس کی فطانت اور اس کا حسن ارشاد ہے۔ کیونکہ یوسفu نے بادشاہ مصر کو صرف اس کے خواب کی تعبیر بتانے پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ آپ نے خواب کی تعبیر بتانے کے ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی فرمائی کہ وہ شادابی کے سالوں میں بکثرت پیدا ہونے والے اناج اور محاصل کو ذخیرہ کرنے کے لیے کیا انتظامات کریں ۔ (۲۶) اگر کوئی شخص اپنے ذمے کسی تہمت کو دور کرنے اور اپنی براء ت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو ملامت نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کا یہ فعل قابل ستائش ہے۔ جیسے جناب یوسفu نے اس وقت تک قید سے رہا ہونے سے انکار کر دیا تھا جب تک کہ ان عورتوں کے احوال کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے آپ کی براء ت نہ ہو جائے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ (۲۷) ان آیات کریمہ سے علم، یعنی علم شریعت و احکام، علم تعبیر، علم تدبیر اور علم تربیت کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے۔ نیز علم، ظاہری شکل و صورت سے افضل ہے خواہ یہ ظاہری شکل و صورت، حسن یوسف ہی کو کیوں نہ پہنچ جائے کیونکہ یوسفu کو اپنے حسن و جمال کی وجہ سے ابتلاء و محن اور قید و بند کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے علم کے سبب سے انھیں عزت، سربلندی اور زمین میں اقتدار حاصل ہوا۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی علم کے آثار اور اس کے موجبات ہیں ۔ (۲۸) علم تعبیر، علوم شرعیہ میں شمار ہوتا ہے، اس کی تعلیم و تعلم میں مشغول ہونے والے کو ثواب حاصل ہوتا ہے اور خواب کی تعبیر فتویٰ میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِ ﴾ ’’اس بات کا فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم فتوی طلب کر رہے تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کا قول نقل فرمایا: ﴿ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُءْیَ٘ایَ ﴾ ’’مجھے میرے خواب کے بارے میں فتوی دو‘‘ نجات پانے والے نوجوان نے یوسفu سے کہا: ﴿ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ ﴾ ’’ہمیں سات گایوں کے بارے میں فتویٰ دو‘‘ ان تمام آیات میں تعبیر کے لیے فتویٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے علم کے بغیر خواب کی تعبیر نہیں بتانی چاہیے۔ (۲۹) اگر انسان اپنی کسی صفت کمال ، مثلاً: علم یا عمل وغیرہ کے بارے میں کسی حقیقی مصلحت کے تحت لوگوں کو آگاہ کرتا ہے، نیز اس سے ریاکاری مقصود نہ ہو اور جھوٹ سے محفوظ ہو… تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جیسا کہ یوسفu نے بادشاہ مصر سے فرمایا تھا : ﴿ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىِٕنِ الْاَرْضِ١ۚ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے۔ میں حفاظت کرنے والا ہوں اور ان کے انتظام کا علم بھی رکھتا ہوں ۔‘‘ اسی طرح عہدہ قابل مذمت نہیں جبکہ اس عہدہ پر متعین شخص مقدور بھر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی حفاظت کرتا ہو اور اسی طرح اس عہدے کے طلب کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ وہ کسی دوسرے سے زیادہ اس عہدے کا اہل ہو، عہدہ طلب کرنا اس وقت قابل مذمت ہے جب وہ اس عہدے کا اہل نہ ہو اور اس عہدے کی قابلیت رکھنے والا اس جیسا یا اس سے زیادہ قابل کوئی اور شخص موجود ہو۔ یا وہ اس عہدے کے ذریعے سے ان امور کو قائم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اسے عہدہ حاصل کرنے سے روکا جائے گا۔ (۳۰) اللہ تبارک و تعالیٰ کا جودوکرم بحر بے کراں کی مانند ہے۔ وہ اپنے بندے کو دنیا و آخرت کی بھلائی سے نوازتا ہے۔ آخرت کی بھلائی کے دو اسباب ہیں … ایمان اور تقوی… آخرت کی بھلائی، دنیاوی ثواب اور دنیاوی اقتدار سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کے لیے دعا کرتا رہے اور اسے اخروی ثواب کا شوق دلاتا رہے اور وہ نفس کو یوں نہ چھوڑ دے کہ وہ دنیاداروں کی زیب و زینت اور لذات کو دیکھ کر غم زدہ ہوتا رہے۔ درآں حالیکہ وہ ان کے حصول پر قادر نہ ہو بلکہ اس کے برعکس وہ اخروی ثواب اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ذریعے سے اسے تسلی دیتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَؔكَانُوْا یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور تقویٰ سے انھوں نے کام لیا۔‘‘ (۳۱) غلے اور اناج کو جمع اور ذخیرہ کر کے رکھنا، جبکہ اس سے لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کے لیے وسعت مقصود ہو اور اس سے لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو… کوئی حرج نہیں ۔ یوسفu نے شادابی اور فراوانی کے ایام میں غلے اور اناج کو جمع کر کے رکھنے کا حکم دیا تاکہ خشک سالی کے ایام کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی جا سکے اور اس طرح غلہ جمع کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور وہ تمام اسباب کام میں لائے جو اس کے لیے دین و دنیا میں فائدہ مند ہوں ۔ (۳۲) یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ جب حضرت یوسف کو زمین کے خزانوں کا منتظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے حسن انتظام سے کام لیا یہاں تک کہ ان کے ہاں بکثرت اناج جمع ہو گیا اور دوسرے ملکوں سے لوگ غلہ اور خوراک حاصل کرنے کے لیے مصر کا قصد کرنے لگے کیونکہ انھیں علم تھا کہ مصر میں غلہ بکثرت موجود ہے اور حضرت یوسف ہر آنے والے کو بقدر حاجت غلہ دیتے ہیں ، وہ غلہ زیادہ دیتے تھے نہ کم، چنانچہ ہر آنے والے کو ایک بار شتر سے زیادہ غلہ نہیں دیتے تھے۔ (۳۳) مہمان نوازی مشروع ہے اور یہ انبیاء و مرسلین کی سنت ہے مہمان کی عزت و تکریم یوسفu کے اس قول سے مستفاد ہے ﴿ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْكَیْلَ وَ اَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْ٘نَ ﴾ ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں اناج پورا ناپ کر دیتا ہوں اور میں بہترین مہمانی کرتا ہوں ۔‘‘ (۳۴) قرینے کی دلیل موجود ہوتے ہوئے بدظنی ممنوع ہے نہ حرام۔ کیونکہ حضرت یعقوب نے جب حضرت یوسف کو بھائیوں کے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیا اور ان کے بیٹوں نے سخت اصرار کیا اور جب انھوں نے جھوٹا بہانہ بنایا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو یعقوبu نے ان سے کہا: ﴿ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ﴾ ’’بلکہ تمھارے نفس نے تمھارے لیے ایک کام کو مزین کر کے آسان بنا دیا۔‘‘ پھر یعقوبu نے دوسرے بھائی (بنیامین) کے بارے میں فرمایا: ﴿ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَیْهِ اِلَّا كَمَاۤ اَمِنْتُكُمْ عَلٰۤى اَخِیْهِ مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’کیا میں اس کے بارے میں بھی اسی طرح اعتماد کر لوں جس طرح میں نے اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں اعتماد کیا تھا‘‘ اور جب حضرت یوسفu نے بنیامین کو اپنے پاس روک لیا اور اس کے بھائی اپنے باپ یعقوبu کے پاس آئے تو حضرت یعقوبu نے ان سے پھر یہی کہا : ﴿ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا… ﴾ حالانکہ دوسری مرتبہ انھوں نے کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا، البتہ ان سے ایک ایسا کام سرزد ہوا جس پر ان کے باپ کو یہ کہنا پڑا، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہیں ۔ (۳۵) نظربد کے اثرات کے سدباب یا اس کے اثر انداز ہونے کے بعد اس اثر کو ختم کرنے کے لیے اسباب کو استعمال کرنا ممنوع نہیں بلکہ جائز ہے، اگرچہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی سے واقع ہوتی ہے اور اسباب اختیار کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی ہے، چنانچہ یعقوبu نے اپنے بیٹوں کو اسباب اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان سے فرمایا : ﴿ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَ٘ابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ﴾ ’’اے میرے بیٹو! ایک ہی دروازے میں سے شہر میں مت داخل ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔‘‘ (۳۶) اس سورت مقدسہ سے، حقوق کے حصول کے لیے، حیلہ سازی کا جواز مستفاد ہوتا ہے اور خفیہ طریقوں سے ایسی معلومات حاصل کرنا جن کے ذریعے سے سے ان مقاصد تک پہنچنا آسان ہو، ایسا امر ہے جس پر بندہ قابل ستائش ہے۔ صرف ایسی حیلہ سازی حرام اور ممنوع ہے جس سے کسی واجب کا اسقاط اور کسی حرام کا ارتکاب لازم آتا ہو۔ (۳۷) اس شخص کے لیے، جو کسی کو کسی ایسے معاملے میں وہم میں ڈالنا چاہتا ہے جس کے بارے میں اسے مطلع کرنا اسے پسند نہ ہو… مناسب ہے کہ وہ ایسی قولی اور فعلی تعاریضات استعمال کرے، جو جھوٹ سے مانع ہوں ۔ جیسا کہ یوسفu نے کیا تھا، چنانچہ انھوں نے گیہوں ناپنے والا پیمانہ اپنے بھائی کی خرجی میں ڈلوا دیا، پھر اس میں سے نکال دکھایا اور ظاہر کیا کہ وہ چور ہے اور اس میں اس کے بھائیوں کے لیے اس کے چور ہونے کا بس ایک قرینہ تھا۔ اس کے بعد یوسفu نے فرمایا: ﴿ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗۤ ﴾ ’’اللہ کی پناہ! ہم اس شخص کو چھوڑ کر جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے دوسرے کو کیسے پکڑ سکتے ہیں ۔‘‘ نیز حضرت یوسفu نے یہ نہیں فرمایا: (مَنْ سَرَقَ مَتَاعَنَا ) ’’جس نے ہمارا سامان چوری کیا‘‘ اور نہ یہ فرمایا (اِنَّا وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہُ) ’’بے شک ہم نے اپنا سامان اس کے پاس پایا ہے۔‘‘ بلکہ انھوں نے ایک ایسے اسلوب میں بات کی جس کا اطلاق ان کے بھائی کے علاوہ کسی اور پر بھی ہو سکتا تھا اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے بچا جانا چاہیے، اس میں صرف یہ ایہام ہے کہ وہ چور ہے تاکہ وہ مقصد حاصل ہو سکے جو ان کے پیش نظر تھا اور ان کا بھائی ان کے پاس رہ سکے اور جب صورت حال واضح ہو گئی تو ان کے بھائی سے یہ ایہام بھی زائل ہو گیا۔ (۳۸) انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے علم، تحقیق، مشاہدہ اور قابل اعتماد خبر جس پر اطمینان نفس ہو… کے علاوہ کسی اور چیز کے مطابق گواہی دے۔ یوسفu کے بھائیوں نے کہا تھا: ﴿ مَا شَهِدْنَاۤ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا ﴾ ’’ہم تو صرف اسی کے متعلق گواہی دے سکتے ہیں جس کے متعلق ہم جانتے ہیں ۔‘‘ (۳۹) یہ ایک عظیم آزمائش تھی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور اپنے چنے ہوئے بندے، یعقوبu کو آزمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اور ان کے بیٹے یوسفu کے درمیان جدائی ڈال دی جن سے ایک گھڑی کے لیے جدا ہونا بھی ان کے بس میں نہ تھا، اتنی سی جدائی بھی انھیں سخت غم زدہ کر دیتی تھی۔ پس طویل عرصے تک وہ ایک دوسرے سے جدا رہے جو تیس سال سے کم نہ تھا اس عرصہ کے دوران حزن وغم یعقوبu کے دل سے کبھی جدا نہ ہوا ﴿ وَابْیَضَّتْ عَیْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیْمٌ﴾ ’’غم سے ان کی آنکھیں سفید پڑ گئیں اور وہ غم میں گھل رہا تھا۔‘‘ اور معاملہ اس وقت اور بھی زیادہ سخت ہو گیا جب ان کا دوسرا بیٹا، یوسف کا حقیقی بھائی بھی، ان سے جدا ہو گیا۔ حضرت یعقوبu اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر کی امید میں اس کے حکم کے مطابق صبر کر رہے تھے انھوں نے اپنے آپ سے صبر کا عہد کر لیا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے عہد پر پورے اترے۔ ان کا یہ قول صبر کے منافی نہیں ﴿اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس شکوہ کرنا صبر کے منافی نہیں ہوتا۔ صرف وہ شکوہ صبر کے منافی ہے جو مخلوق کے پاس کیا جائے۔ (۴۰) دکھ کے بعد سکھ اور تنگی کے بعد فراخی ضرور آتی ہے۔ یعقوبu پر رنج و غم کی مدت بہت طویل ہو گئی۔ شدت غم اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور آل یعقوب کو بدحالی نے لاچار کر دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر خوش حالی بھیج دی۔ انتہائی سخت حالات میں ان کی ملاقات ہوئی اور یوں اجر کی تکمیل ہو گئی اور انھیں راحت و سرور حاصل ہوا۔ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو سختی اور نرمی، تنگ دستی اور فراخ دستی کے ذریعے سے آزماتا ہے تاکہ ان کے صبر و شکر کا امتحان لے اور اس طرح ان کے ایمان، یقین اور عرفان میں اضافہ ہو۔ (۴۱) اگر انسان اپنے موجودہ احوال یعنی کسی مرض اور فقروغیرہ کے بارے میں ناراضی کا اظہار کیے بغیر کسی کو آگاہ کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ یوسفu کے بھائیوں نے یوسفu سے کہا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الْ٘عَزِیْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّ٘رُّ ﴾ ’’اے عزیز مصر! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو مصیبت اور بدحالی نے آگھیرا ہے۔‘‘ اور ان کے اس قول پر حضرت یوسفu نے نکیر نہیں فرمائی۔ (۴۲) اس پورے قصے میں تقویٰ کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی تقویٰ اور صبر کے آثار کی وجہ سے ہے۔ اہل تقویٰ اور اہل صبر کا انجام بہترین انجام ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا١ؕ اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’اللہ نے ہم پر احسان فرمایا بے شک اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ نیک لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (۴۳) جس کسی کو شدید محتاجی اور بدحالی کے بعد اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہو، اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرے اور اپنی پہلی بدحالی اور محتاجی کو یاد رکھے تاکہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا رہے۔ جیسا کہ سیدنا یوسفu نے فرمایا تھا: ﴿ وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور تم لوگوں کو صحرا سے یہاں لایا۔‘‘ (۴۴) یوسفu پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا عظیم لطف و کرم تھا کہ اس نے آپ کو ان احوال سے منتقل کر کے سختیوں اور مصائب میں مبتلا کیا: تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آپ کو اعلیٰ ترین منازل اور بلندترین درجات پر فائز کرے۔ (۴۵) بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمان پر ثابت قدمی کے لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتا رہے اور ایسے اسباب روبہ عمل لاتا رہے جو ایمان پر ثابت قدمی کے موجب ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے اتمام نعمت اور خاتمہ بالخیر کا سوال کرتا رہے۔ جیسا کہ یوسفu نے عرض کیا: ﴿رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ١ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ١۫ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ١ۚ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰؔلِحِیْنَ﴾ ’’اے میرے رب! تو نے مجھے اقتدار عطا کیا اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں XX اور زمین کے پیدا کرنے والے دنیا و آخرت میں تو ہی میرا سرپرست ہے۔ اسلام پر مجھے موت دے اور مآل کار مجھے نیک لوگوں کے ساتھ شامل کر۔‘‘ اس بابرکت قصے میں یہ چند نکXات اور تعبیرات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے آسان فرمایا اور ضروری ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس قصہ میں غوروفکر کرنے والے پر تعبیرات کے کچھ اور دریچے وا کر دے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے علم نافع اور عمل مقبول کا سوال کرتے ہیں ، بلاشبہ وہ جودوکرم کا مالک ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List