Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 67
- SegmentHeader
- AyatText
- {142} قد اشتملت الآية الأولى على معجزة وتسلية وتطمين قلوب المؤمنين واعتراض، وجوابه من ثلاثة أوجه وصفة المعترض وصفة المُسلِّم لحكم الله دينه، فأخبر تعالى أنه سيعترض السفهاء من الناس وهم الذين لا يعرفون مصالح أنفسهم بل يضيعونها ويبيعونها بأبخس ثمن وهم اليهود والنصارى ومن أشبههم من المعترضين على أحكام الله وشرائعه، وذلك أن المسلمين كانوا مأمورين باستقبال بيت المقدس مدة مقامهم بمكة ثم بعد الهجرة إلى المدينة نحو سنة ونصف لما لله [تعالى] في ذلك من الحكم التي سيشير إلى بعضها، وكانت حكمته تقتضي أمرهم باستقبال الكعبة فأخبرهم أنه لا بد أن يقول السفهاء من الناس: {ما ولاَّهم عن قبلتهم التي كانوا عليها}؛ وهي استقبال بيت المقدس أيْ: أيُّ شيء صرفهم عنه؟ وفي ذلك الاعتراض على حكم الله وشرعه وفضله وإحسانه، فسَّلاهم وأخبر بوقوعه وأنه إنما يقع ممن اتصف بالسفه قليل العقل والحلم والديانة، فلا تبالوا بهم إذ قد عُلِم مصدر هذا الكلام، فالعاقل لا يبالي باعتراض السفيه ولا يلقي له ذهنه. ودلت الآية على أنه لا يعترض على أحكام الله إلا سفيه جاهل معاند، وأما الرشيد المؤمن العاقل فيتلقى أحكام ربه بالقبول والانقياد والتسليم كما قال تعالى: {وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمراً أن يكون لهم الخيرة من أمرهم}؛ {فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم}؛ الآية {إنما كان قول المؤمنين إذا دعوا إلى الله ورسوله ليحكم بينهم أن يقولوا سمعنا وأطعنا}؛ وقد كان في قوله السفهاء ما يغني عن رد قولهم وعدم المبالاة به، ولكنه تعالى مع هذا لم يترك هذه الشبهة حتى أزالها وكشفها مما سيعرض لبعض القلوب من الاعتراض فقال تعالى: {قل}؛ لهم مجيباً: {لله المشرق والمغرب يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم}؛ أي: فإذا كان المشرق والمغرب ملكاً لله ليس جهة من الجهات خارجة من ملكه ومع هذا يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم ومنه هدايتكم إلى هذه القبلة التي هي ملة أبيكم إبراهيم فلأي شيء يعترض المعترض بتوليتكم قبلة داخلة تحت ملك الله؟ لم تستقبلوا جهة ليست ملكاً له فهذا يوجب التسليم لأمره بمجرد ذلك، فكيف وهو من فضل الله عليكم وهدايته وإحسانه أن هداكم لذلك، فالمعترض عليكم معترض على فضل الله حسداً لكم وبغياً. ولما كان قوله: {يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم}؛ مطلقاً والمطلق يُحمَل على المقيد فإن الهداية والضلال لهما أسباب أوجبتها حكمة الله وعدله وقد أخبر في غير موضع من كتابه بأسباب الهداية التي إذا أتى بها العبد حصل له الهدى كما قال تعالى: {يهدي به الله من اتبع رضوانه سبل السلام}؛ ذكر في هذه الآية السبب الموجب لهداية هذه الأمة مطلقاً بجميع أنواع الهداية ومنَّة الله عليها فقال:
- AyatMeaning
- [142] پہلی آیت ایک معجزے، تسلی اور اہل ایمان کے دلوں کو مطمئن کرنے، ایک اعتراض اور تین وجوہ سے اس کے جواب، اعتراض کرنے والے کی صفت اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے کی صفت پر مشتمل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ عنقریب بیوقوف لوگ اعتراض کریں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے نفس کے مصالح کو نہیں پہچانتے بلکہ انھیں ضائع کر دیتے ہیں اور انھیں نہایت کم قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں یہ یہود و نصاریٰ اور وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی شریعت پر اعتراض کرنے میں ان سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کے اعتراض کی بنیاد یہ بنی کہ مسلمان جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد بھی تقریباً ڈیڑھ سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تھیں جن میں سے بعض کی طرف اللہ تعالیٰ کے اشارے کا تذکرہ عنقریب ہوگا اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم بھی اس کی حکمت کا تقاضا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ بیوقوف لوگ ضرور یہ کہیں گے ﴿مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا﴾ ’’ان کو کس چیز نے اس قبلے سے پھیر دیا جس پر وہ تھے‘‘ مراد بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا تھا یعنی کس چیز نے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کرنے سے پھیر دیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم، اس کی شریعت اور اس کے فضل و احسان پر اعتراض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کے وقوع کے بارے میں خبر دے کر اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ یہ اعتراض صرف وہی لوگ کریں گے جو بیوقوف یعنی قلیل العقل اور بردباری و دیانت سے محروم ہوں، اس لیے ان کی باتوں کی پروا نہ کرو کیونکہ ان کا سرچشمۂ کلام معلوم ہے۔ عقل مند شخص بیوقوف کے اعتراض کی پروا نہیں کرتا اور نہ اس کی طرف دھیان دیتا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر صرف وہی شخص اعتراض کرتا ہے جو بیوقوف، جاہل اور عناد رکھتا ہو اور رہا عقل مند اور ہدایت یافتہ مومن تو وہ اپنے رب کے احکام اطاعت اور تسلیم و رضا کے جذبے سے قبول کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَ٘ضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ﴾ (الاحزاب : 33؍36) ’’کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کر دیں تو اس معاملے میں وہ اپنا بھی کوئی اختیار سمجھیں۔‘‘ ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ﴾ (النساء : 4؍65) ’’ہرگز نہیں۔ تیرے رب کی قسم! لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے تنازعات میں تجھے حکم (فیصلہ کرنے والا) نہ بنائیں۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا﴾ (النور : 24؍51) ’’اہل ایمان کی تو یہ بات ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ اللہ کا رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ان کے لیے ﴿السُّفَهَآءُ﴾ ’’بے وقوف‘‘ کا لفظ استعمال کرنا اس بات کے سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ان کا اعتراض غیر معقول ہے جس کے جواب کی ضرورت ہے نہ اس کی پروا کرنے کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے باوجود اس شبہے کو یوں ہی نہیں چھوڑا، بلکہ اس کا ازالہ فرمایا اور بعض دلوں میں جو اعتراض پیدا ہو سکتا تھا اسے یہ کہہ کر دور فرما دیا۔ ﴿قُ٘لْ﴾ ان کو جواب دیتے ہوئے کہہ دیجیے ﴿لِّلّٰهِ الْ٘مَشْرِقُ وَالْ٘مَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ ’’مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں، وہ جسے چاہتا ہے، سیدھے راستے کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔‘‘ یعنی جب مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور تمام جہات میں سے کوئی جہت بھی اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں اور اس کے باوجود وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور اس قبلہ کی طرف راہ نمائی بھی اسی کی طرف سے ہے، جو ملت ابراہیم کا حصہ ہے۔ پس معترض، تمھارے اس قبلہ کی طرف منہ کر لینے کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہے، کس وجہ سے یہ اعتراض کرتا ہے کہ تم نے ایسی جہت کی طرف رخ کیوں کیا جو اس کی ملک نہیں؟ یہ ایک وجہ ہی اس کے حکم کے تسلیم کرنے کو واجب کر دینے والی ہے۔ تو اس وقت اسے کیوں کر تسلیم نہیں کیا جائے گا، جب کہ تم پر یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے تمھیں اس کی ہدایت نصیب فرمائی۔ پس تم پر اعتراض کرنے والا دراصل اللہ کے فضل پر اعتراض کر رہا ہے، محض تم پر حسد اور ظلم کا ارتکاب کرتے ہوئے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ مطلق ہے اور مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے، اس لیے کہ ہدایت اور گمراہی کے کچھ اسباب ہیں جن کا موجب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کا عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات پر ہدایت کے اسباب بیان کیے ہیں، بندہ جب ان اسباب کو اختیار کرتا ہے تو اسے ہدایت حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّ٘بَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰ٘مِ﴾ (المائدۃ5؍16) ’’اس کے ذریعے سے اللہ اپنی رضا کی پیروی کرنے والوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو اس امت کے لیے ہدایت کی تمام انواع کی طرف راہنمائی کا موجب ہے۔اس امت پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اسے امت وسط بنایا۔ فرمایا:
- Vocabulary
- AyatSummary
- [142
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF